سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کئے جانے کیس کی سماعت کے دوران سابق کمشنر راولپنڈی کے الزامات کا تذکرہ بھی ہوا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایک کمشنر نے کہا چیف جسٹس نے الیکشن میں گڑبڑ کی، یہ بیان تمام ٹی وی چینلز نے بغیر تصدیق چلا دیا، پوری دنیا میں خبر دینے سے پہلے اسکی تصدیق کی جاتی ہے، کسی صحافی نے الزام لگانے والے سے یہ نہیں پوچھا کہ الزامات کا ثبوت کیا ہے، کیا پوری دنیا میں ایسا کہیں ہوتا ہے، کیا ہم تمام ٹی وی چینلز کو نوٹس جاری کر دیتے۔چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ بتائیں ایف آئی اے کی جے آئی ٹی کا باس کون ہے، جواب آپکو پتہ ہے لیکن آپ بتائیں گے نہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمارے کندھے استعمال نہ کریں، ایک شخص نے جان سے مارنے کی دھمکی دی اس پر درخواست دائر ہوئی تو ایس ایچ او پانچ دن تک بیٹھا رہا، پھر کہا گیا وزیر سے ہدایت لیکر بتاؤں گا، مطیع اللہ جان سے متعلق سپریم کورٹ میں جھوٹی رپورٹ جمع کرائی گئی، اغواء کار جن گاڑیوں پر آئے کیا انکے نمبرز نظر آ رہے ہیں۔بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل دیے کہ ایف آئی اے نے 115 انکوائریاں کھولیں،65نوٹسز جاری کیے گئے، ہتک عزت اور توہینِ عدالت کا قانون موجود ہے، اگر عدلیہ کا اختیار ایف آئی اے اپنے ہاتھوں میں لے گا تو اسکا غلط استعمال ہوگا۔سپریم کورٹ نے ایف آئی اے اور پولیس کیجانب سے جمع کرائی گئی رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے ایف آئی اے اور پولیس سے تفصیلی رپورٹس طلب کرلی اور سماعت 25 مارج تک ملتوی کر دی۔