علی عمران جونیئر
دوستو،اپنی آج تک کی زندگی میں ہم نے ہمیشہ صرف ایک ہی کامیاب دورہ دیکھا ہے، وہ ہے ”دل کا دورہ” لیکن ہمارے حکمران اپنے ہر دورے کو ”کامیاب دورہ” قرار دے دیتے ہیں۔جس پر ہمیں میراثی کا وہ واقعہ یاد آگیا۔۔میراثی کو چودھری نے ڈیرے بلوایا۔ ٹانگیں دبوائیں، مٹھی چاپی کروائی۔ لطیفے، جگتیں سنیں۔ میراثی گھنٹوں بعد تھکا ہارا گھر لوٹا تو بیوی نے پوچھا کہاں سے آئے ہو۔ میراثی بولا، چودھری کے ڈیرے کا کامیاب دورہ کرکے آیا ہوں۔
آج چونکہ چھٹی کا دن ہے اس لئے ہم کوشش کریں گے کہ صرف اوٹ پٹانگ باتیں ہی کریں تاکہ آپ کا دن خوشگوار گزرسکے۔۔میاں شہباز شریف کیلئے حکومت ایک اڑیل گھوڑا بنی ہوئی ہے جو کہ فروری کے بعد سے اب تک قابو میں نہیں آرہی۔ایک بار گاؤں کا چوہدری بڑے شوق سے عربی گھوڑا خرید کرلایا۔ گھوڑا ایک نمبر کا اڑیل نکلا۔ بڑی کوشش کی سواری کی لیکن گھوڑے نے چوہدری کو قریب پھٹکنے نہ دیا۔ میراثی یہ سارا تماشا دیکھ رہا تھا۔بولا۔ ”چوہدری صاحب آپ کہیں تو میں اسے قابو کروں۔ چوہدری نے حیرت سے میراثی کی طرف دیکھا اور پوچھا۔ ”تمہیں گھڑ سواری آتی ہے؟” میراثی بولا۔ ”یہ بھی کوئی کام ہے بھلا۔” میراثی نے چھلانگ لگائی اور گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ گھوڑے نے اصلیت دکھانا شروع کردی، ایک جھٹکے سے پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا۔میراثی گھوڑے کی پشت سے پھسلتا ہوا پیچھے چلاگیا۔گھوڑے نے پھریہی حرکت کی تو میراثی سرک کر کچھ اور پیچھے چلا گیا، گھوڑے کی تیسری کوشش میں میراثی زمین پر آگرا۔ چوہدری نے کہا۔ ”اوئے تم تو کہتے تھے گھڑ سواری آتی ہے؟” میراثی نے جواب دیا۔ ”چوہدری صاحب میں کبھی نہ گرتا، کم بخت گھوڑا ہی ختم ہوگیا تھا۔
دوسری طرف خان صاحب اڈیالہ میں حکومت کیلئے درد سر بنے ہوئے ہیں ، وہ جو کہتے ہیں کرکے دکھادیتے ہیں۔ ایک صاحب اپنے ہمسائے میں موجود ایک میراثی کو آتے جاتے دعوت دیتے تھے’ یہ کہتے ہوئے کہ خاں صاحب کبھی ہمارے ہاں بھی آ کر دال روٹی تناول فرمائیں۔ میراثی نے آخر ایک دن فیصلہ کر لیا کہ آج اپنے ہمسائے کی دعوت قبول کر لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا کھلاتا ہے کیونکہ دال روٹی تو انکساری کی وجہ سے کہا ہو گا’ آخر مہمان کا کچھ تو خیال کرے گا۔ خیر میراثی پہنچ گیا ہمسائے کے گھر۔ ہمسائے نے بڑی آئو بھگت کی۔ کمرے میں بٹھایا’ دستر خوان بچھایا اور تھوڑی دیر بعد ایک برتن میں دال اور ساتھ لا کر دو تین روٹیاں سامنے رکھ دیں۔ میراثی بہت پریشان ہوا، کیونکہ یہ گانے بجانے والے لوگ کھانے کے معاملے میں بہت حساس ہوتے ہیں اور دال روٹی اگر کوئی پیش کرے تو اس کو ایک طرح سے اپنی توہین محسوس کرتے ہیں۔ خیر’ اب بیچارہ کیا کرتا۔ آہستہ آہستہ نوالہ توڑ کرکھانے لگا تو سامنے آ کر بلی بیٹھ گئی۔ میزبان نے گرجدار آواز میں بلی سے کہا۔۔چلی جا وگرنہ کاٹ کر پھینک دوں گا۔۔ یہ سن کر میراثی نے بلی کے آگے ہاتھ جوڑ کر کہا۔۔ بھلی مانس چلی جا۔۔یہ جو کہتا ہے وہی کرتا ہے۔۔دوسری طرف پی ٹی آئی والوں کا یہ حال ہے کہ ۔۔ بیگم شوہر سے بولی۔۔تھوڑی دیر کے لئے مین سوئچ بند کردوں؟شوہر نے حیران ہو کر پوچھا وہ کیوں؟؟ بیوی بڑی معصومیت سے بولی۔۔ اپنا منا پی ٹی آئی میں ہے نا، لائٹ جائے تو بہت خوش ہوتا ہے۔۔
حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتیں ایک پیچ پر ہیں کہ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا بہت تگڑا ہے، یہ لوگ اپنا ”بیانیہ” عوام تک پہنچانا جانتے ہیں۔۔ بہت پرانی بات ہے، جب پاکستان نیانیا بنا تھا، اس زمانے میں ریڈیو بھی کسی کسی کے پاس ہوتا تھا۔۔فلمساز اسلم ایرانی مولوی صاحب کے پاس اپنی فلم ”ڈاچی” کی پرموشن کے لیئے گیا تھا تاکہ اپنی فلم کی تشہیر کراسکے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کاروبار کی تشہیر کے لئے مسجد کا لاؤڈ اسپیکر استعمال ہوتا تھا۔۔فلمساز اسلم ایرانی نے کچھ پیسہ اکٹھا کیا اور فلم ڈاچی بنا دی جسے بمبینو سینما لاھور میں ریلیز کرنا تھا ،اس سلسلے میں وہ مولوی صاحب کے پاس گیا کہ جنابِ والا آپ اعلان کر دیںکہ بمبینو سینما میں جمعہ والے دن ڈاچی فلم ریلیز ہورہی ہے، جس کے تین شو ہونگے۔۔مولوی صاحب نے جب یہ سنا تو آگ بگولہ ہوگئے اور بولے کہ۔۔کمبخت تو ہم سے یہ کیا کروانا چاہتا ہے؟اب مساجد سے بھی فلموں اور بے حیائی کی تشہیر کی جائے گی؟اسلم ایرانی نے جب یہ سنا تو جیب سے ایک پیکٹ نکال کر مولوی صاحب کو تھما دیاکہ سرکار کچھ عنایت کریں میرا اس فلم پر بہت پیسہ لگا ہے اگر فلم نہ چلی تو میں تباہ و برباد ہو جاؤں گا۔مولوی صاحب نے پیکٹ کھولا جس میں نوٹ بھرے ہوئے تھے۔تھوڑی دیر سوچا اور پوچھا۔ پہلا شو کب ہے؟ اسلم ایرانی نے ساری تفصیل بتا دی،مولوی صاحب نے کہا۔اچھا تم جاؤ میں جمعہ والے دن کچھ کرتاہوں۔جب جمعہ کا دن آیا تو مولوی صاحب نے خطبہ شروع کیا جس میں بڑھتی ہوئی بے حیائی پر گفتگو کی کہ کس طرح مغربی کلچر ہمیں تباہ کررہا ہے اور نوجوان نسل تباہ ہورہی ہے ،ہم سب صرف نام کے مسلمان ہیں اور عمل کوئی نہیں کرتا۔اب یہی دیکھ لو تم لوگ یہاں تو سر ہلا رہے ہو اور اچھی اچھی باتیں سن رہے ہو مگر میں جانتا ہوں کہ تم لوگوں نے ان پر عمل نہیں کرنا۔ابھی نماز پڑھ کے باہر جاؤ گے ، اگر کسی نے بتا دیا کہ بمبینو سینما میں نئی فلم ڈاچی لگی ہے، جس میں سدھیر، نیلو، نغمہ اور زینت ہے تو تم لوگوں نے وہاں بھاگ جانا ہے کہ مولوی کا واعظ تو سن لیا اب گلوکارہ مالا، احمد رشدی اور مسعود رانا کی بہترین آواز میں گانے بھی سن لیں۔دین کا کسی کو نہیں معلوم، مگر یہ ضرور جانتے ہیں کہ حزیں قادری نے اسٹوری لکھی ہے تو ایکشن اوربے حیائی سے بھرپور فلم ہوگی کیونکہ ہیرو سدھیر اور ولن مظہر شاہ ہے،مسجد میں داخلہ مفت ہے مگر نمازیوں کی تعداد دیکھو ۔ وہاں ایک روپے کی ٹکٹ بھی خریدو گے مگر جاؤ گے ضرور۔۔۔!!واقعہ کی دُم: مولوی صاحب نے فلم ساز اسلم ایرانی کا بیانیہ عوام تک بڑی آسانی سے پہنچادیا۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔زندگی جب مشکل وقت میں ناچ نچاتی ہے تو ڈھولک بجانے والے آپ کی جان پہچان والے ہی ہوتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔