charsio ka sheher

پبلک ریلشننگ تیکنک

تحریر:جاوید چودھری۔۔

ہمارے ساتھی نے نہایت بدتمیزی کے ساتھ انکار کر دیا‘ میزبان کا منہ اتر گیا اور اس نے ملازم کو واپس جانے کا اشارہ کر دیا‘ کمرے کی فضا ٹینس ہو گئی‘ میں نے ماحول بہتر بنانے کے لیے گفتگو شروع کی مگر حالات اب جلدی ٹھیک نہیں ہو سکتے تھے۔

ہمارے ساتھی کو تھوڑی دیر بعد اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور اس نے کرسی پر پہلو بدل کر کہا ’’آپ چائے کا کہہ ہی دیں‘‘ میزبان کا چہرہ دوسری بار سرخ ہو گیا اور اس نے گردن انکار میں ہلا کر جواب دیا ’’سراب آپ رہنے دیں‘ اپنی بات مکمل کریں اور مجھے اجازت دیں‘ میں نے مارکیٹ جانا ہے‘‘ اس ماحول میں اب گفتگو کیا ہو سکتی تھی‘ ہم نے جلدی جلدی اپنی بات مکمل کی اور ان سے اجازت لے لی‘ میزبان اٹھے اور ہمیں دروازے تک چھوڑنے آئے‘ ہم رخصت ہونے لگے تو ان کا ملازم آ گیا‘ اس کے ہاتھ میں مٹھائی کا وہ ڈبہ تھا جو ہم میزبان کے لیے لائے تھے۔

میزبان نے بڑی محبت اور عاجزی کے ساتھ ہمارا ڈبہ ہمیں واپس دیا اور مسکرا کر کہا ’’ہم لوگ مٹھائی نہیں کھاتے‘ یہ ضایع ہو جائے گی لہٰذا آپ اسے واپس لے جائیں‘‘ ہمیں برا لگا مگر ہم نے ڈبہ واپس پکڑ لیا‘ میں نے تھوڑی دور جا کر گاڑی روکی اور اپنے دوست کی مرمت شروع کر دی‘ اسے اس وقت تک بھی اپنی حماقت کا احساس نہیں تھا‘ وہ بار بار کہہ رہا تھا‘ میں چائے پی کر آیا تھا لہٰذا میں نے انکار کر دیا‘ اس میں ناراض ہونے والی کیا بات تھی؟ میں رک گیا اور لمبی سانس لی‘ مجھے محسوس ہوا اس بے چارے کا واقعی کوئی قصور نہیں‘ ہم من حیث القوم جاہل‘ غیر مہذب اور بے ترتیب ہیں‘ ہمیں عام روزمرہ کے آداب سیکھنے کے لیے بھی صدیاں چاہییں۔

میں بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو اس واقعے کی بیک گراوئڈ بتاتا چلوں‘ ہم تین دوست آٹھ سال قبل کسی بزنس مین سے ملاقات کے لیے اس کے گھر گئے‘ ہم نے بڑی مشکل سے اس سے وقت لیا تھا‘ ہم ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے‘ میزبان آیا‘ بڑی محبت اور احترام کے ساتھ ملا اور اس نے ہم سے پوچھا ’’آپ لوگ چائے لیں گے‘ کافی یا گرین ٹی‘‘ ہمارا وہ دوست جس کی وجہ سے ہم نے ان سے وقت لیا تھا‘ وہ نہایت بدتمیزی کے ساتھ بولا’’ ہم کچھ نہیں لیں گے‘‘۔

میزبان نے دوبارہ پوچھا‘ دوست کا جواب تھا ’’ہم ابھی پی کر آئے ہیں‘‘ میزبان کا چہرہ اتر گیا اور اس نے ملازم کو واپس بھجوا دیا‘ میں اگر آپ سے پوچھوں تو آپ بھی اسے معمولی واقعہ کہیں گے لیکن دراصل یہ انکار تہذیب اور شائستگی کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا‘ خدمت یا میزبانی میزبان کا حق ہوتا ہے اور کسی مہمان کو اپنے میزبان کو اس حق سے محروم نہیں رکھنا چاہیے‘ یہ زیادتی ہوتی ہے‘ ہم جب کسی کے گھر یا دفتر جاتے ہیں تو میزبان کے پاس تین آپشن ہوتے ہیں‘ یہ ہم سے پوچھے بغیر میز بھر دے اور مہمان کو اصرار کے ساتھ کھلائے‘ اس کا مطلب ہوتا ہے میزبان نے ہمیں خصوصی اہمیت دی۔

اس نے ہمارے پہنچنے سے قبل اپنے اہل خانہ کومطلع کیاتھا اور وہ پانچ چھ گھنٹے ہمارے لیے پکانے اور سجانے میں مصروف رہے‘ ہم اگر اب نہیں کھائیں گے یا کھانے سے صاف انکار کر دیں گے تو یہ خواتین خانہ اور میزبان کی بے عزتی اور دل آزاری ہو گی چناں چہ ہم اگر شہ رگ تک بھی پیک ہیں تب بھی ہمیں چکھنا چاہیے اور دل کھول کر کھانے یا ہائی ٹی کی تعریف کرنی چاہیے اور میزبان سے کہنا چاہیے آپ ہماری طرف سے باجی‘ آنٹی یا بھابھی کا شکریہ ادا کیجیے گا‘ انھوں نے ہمارے لیے بہت تکلیف کی مگر یہ چیز بہت لذیذ اور شان دار تھی وغیرہ وغیرہ۔

میں بہت کم کھانے والا انسان ہوں مگر ایسی صورت حال میں‘ میں بھی تمام اشیاء تھوڑی تھوڑی چکھتا ہوں اور دل کھول کر تعریف کرتا ہوں‘ ہمارے ایک بزرگ دوست اس سے بھی چند قدم آگے بڑھ جاتے ہیں‘ انھیں جو چیز اچھی لگتی تھی یہ اس کی ’’ریسیپی‘‘ مانگ لیتے تھے اور بعض اوقات میزبان سے کہہ دیتے تھے آپ یہ چیز مجھے پیک کر دیں‘ میں اپنی بیوی کو ٹیسٹ کرانا چاہتا ہوں‘ ہمیں شروع میں یہ حرکت بہت چھچھوری لگتی تھی لیکن جب گہرائی میں جا کر دیکھا تو ان کی تکنیک بڑی شان دار تھی‘وہ ایک خوش حال اور کام یاب انسان تھے چناں چہ میزبان انھیں چھچھورا نہیں سمجھ سکتا تھا۔

وہ دستر خوان کی کوئی نہ کوئی چیز گھر لے جاتے تھے اور بعدازاں اپنی بیگم کی میزبان کی اہلیہ سے بات کراتے تھے‘ دونوں خواتین کھانے کی ’’ریسیپی‘‘ پر بات کرتی تھیں اور یوں ان کے خاندان کا میزبان کے خاندان سے تعلق پیدا ہو جاتا تھا لہٰذا یہ ایک شان دار پبلک ریلیشننگ تکنیک تھی‘ میزبان کے پاس دوسرا آپشن ہوتا ہے یہ آپ کو چوائس دے دے‘ میں عموماً چائے‘ کافی اور گرین ٹی کا آپشن دیتا ہوں‘ اس کا یہ مطلب ہوتا ہے میرے پاس تینوں آپشن موجود ہیں اور میں مہمان کی سہولت کو اہمیت دے رہا ہوں‘ ہم میں سے بے شمار لوگ چائے پسند نہیں کرتے‘ یہ کافی پیتے ہیں اور بے شمار لوگ چائے کافی ترک کر چکے ہیں‘یہ گرین ٹی پیتے ہیں۔

ہمیں ان کی مجبوری کا احساس کرنا چاہیے اور انھیں چوائس دینی چاہیے لہٰذا جب میزبان آپ کا احساس کرے تو مہمان کو انکار نہیں کرنا چاہیے‘ یہ اگر کچھ بھی نہ پینا چاہے تو بھی اسے گرین ٹی کا ضرور کہنا چاہیے‘ پانی بہرحال نہیں مانگنا چاہیے‘ کیوں؟ کیوں کہ ننانوے فیصد گھرانے چائے یا کھانے کے ساتھ پانی ضرور لاتے ہیں‘ ہم دوست عموماً اس معاملے میں چند قدم آگے نکل گئے ہیں‘ ہم پانی کی اپنی بوتل ساتھ لاتے ہیں تاکہ میزبان کو کم سے کم تکلیف ہو‘ میرے دوست نعیم قمر مجھ سے میلوں آگے ہیں‘ یہ آنے سے قبل بتا دیتے ہیں میں صرف کافی پیوں گا اور میں ان کی آمد سے پہلے کافی تیار کر کے بیٹھ جاتا ہوں۔

میں ان سے سیکھ کر اب جہاں بھی جاتا ہوں میزبان کو بتا دیتا ہوں میں صرف گرین ٹی یا چائے لوں گا اور میزبان کے پاس کتنی دیر بیٹھوں گا‘ میں اب عموماً میزبان کو فون پر اپنی آمد کی وجہ بھی بتا دیتا ہوں تاکہ وہ ذہنی طور پر تیار رہے اگر کوئی کام نہ ہو اور میں صرف گپ شپ کے لیے جا رہا ہوں تو میں میزبان کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ وہ ریلیکس رہے اور اسے بار بار یہ نہ پوچھنا پڑے ’’میرے لائق کوئی اور حکم‘‘ ہمیں چوائس دینے والے میزبان کو انکار کر کے مایوس نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ وہ بے چارہ ہمارا احساس کر رہا ہے‘ وہ زبردستی کافی یا چائے پلا کر ہمیں بدذائقہ نہیں کرنا چاہتا اور میزبان کی تیسری چوائس خاموشی ہوتی ہے‘ یہ ہم سے کچھ بھی نہ پوچھے‘ ہم آئیں‘ یہ ہمارے ساتھ ہاتھ ملائے یا دور سے ہیلو ہائے کرے اور بس‘ اس کے دو مطلب ہوتے ہیں۔

پہلا مطلب میزبان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے‘ اس نے کہیں جانا ہے یا پھر ہمارے بعد کسی دوسرے نے آنا ہے چناں چہ میزبان کے پاس وقت کی قلت ہے اور یہ چاہتا ہے ہم کام کی بات کریں اور رخصت ہو جائیں‘ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے اس کے گھر میں اس وقت چائے کافی بنانے والا کوئی شخص موجود نہیں یا پھر وہ کسی گھریلو مسئلے کا شکار ہے اور وہ ہماری خدمت نہیں کر سکتا‘ اس صورت حال میں مہمان کو اپنی بات مختصر کر کے اجازت لے لینی چاہیے۔

میں یہاں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں اس صورت حال میں جب مہمان اپنی بات مکمل کر چکا ہو اور ملاقات کا ایشو ختم ہو گیا ہو اور میزبان مہمان سے پوچھے میرے لائق کوئی اور خدمت یا آپ چائے یا کافی تو نہیں لیں گے تو اس کا مطلب میزبانی نہیں ہوتا‘ اس کا مطلب ہوتا ہے میزبان کی خواہش ہے آپ اب اجازت لے لیں کیوں کہ وہ مصروف ہے جب کہ ہم میں سے کچھ لوگ اسے پیش کش سمجھ کر چائے یا کافی مانگ لیتے ہیں اور یوں میزبان پھنس جاتا ہے۔پوری دنیا کے دفاتر میں ایک روایت ہے‘ مہمان کو میزبان سے ملاقات سے پہلے چائے کافی پلا دی جاتی ہے‘ آپ آتے ہیں‘ ویٹر آپ کو چائے‘ کافی یا گرین ٹی پیش کر دیتا ہے‘ آپ حسب ضرورت لے لیتے ہیں اور اس کے بعد آپ کی صاحب سے ملاقات ہو جاتی ہے‘ اس کا مطلب ہوتا ہے صاحب کے پاس وقت کم ہے لہٰذا آپ صرف کام کی بات کریں اور رخصت لے لیں اور دوسرا اگر صاحب بھی آپ سے چائے کافی کا پوچھے تو اس کا مطلب اجازت دینا ہوتا ہے‘ آپ شکریہ ادا کریں اور وہاں سے اللہ بیلی ہو جائیں۔

میں واقعے کی طرف واپس آتا ہوں‘ ہمارے میزبان نے ہمیں چائے‘ کافی اور گرین ٹی کی چوائس دی مگر میرے دوست نے بدتمیزی سے انکار کر دیا‘ میزبان کو برا لگا اور اس نے ملازم کو واپس بھجوا دیا‘ میرے دوست کو جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اس نے چائے مانگ لی اور یہ میزبان کی دوسری بار بے عزتی تھی چناں چہ اس نے صاف انکار کر دیا اور رخصت ہوتے وقت ہماری مٹھائی بھی واپس کر دی۔

میرے دونوں دوستوں کو برا لگا لیکن میں نے ان سے کہا ’’یہ شخص ہمارا محسن ہے‘ یہ اگر اپنی تکلیف پی جاتا‘ مسکرا کر ہماری بات سن کر ہمیں واپس بھجوا دیتا تو ہم زندگی میں کبھی اتنا بڑا سبق نہ سیکھتے‘ اس نے اپنے امیج کی قربانی دے کر ہمیں زندگی کا وہ سبق دے دیا جو ہم اب کبھی نہیں بھولیں گے لہٰذا واپس چلو‘ اس سے دوبارہ ملو اور اس کا شکریہ ادا کرو‘ میرے دوستوں نے میرے ساتھ اتفاق کیا‘ ہم واپس گئے‘ میزبان کے دروازے پر دستک دی‘ وہ پریشانی کے عالم میں باہر آیا‘ ہم نے اس سے ہاتھ جوڑ کو معافی مانگی اور اس کا جھک کر شکریہ ادا کیا‘ اس نے دل کھول کر قہقہہ لگایا اور کہا ’’آپ لوگ اب میری مٹھائی مجھے واپس کر دیں‘‘ ہم نے بھی قہقہہ لگایا اور اس سے بغل گیر ہو گئے‘ وہ شخص آج بھی ہمارا بیسٹ فرینڈ ہے اور ہم اسے پیار سے مٹھائی بھائی جان کہتے ہیں۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں