سینئر صحافی، کالم نویس اور تجزیہ کار رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ ۔۔آپ نے نوٹ کیا ہے جب بھی دہشت گرد کوئی بڑا حملہ کرتے ہیں تو ہماری حکومت اور متعلقہ ادارے فوراً ایک عجیب وغریب مائنڈ سیٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ سب کچھ بلیک آئوٹ کر دیا جائے۔ ٹی وی چینلز پر کوئی خبر نہ چلے۔ کسی کو کچھ پتا نہ چلے۔ جتنا اس معاملے کی خبر کو چھپایا جا سکتا ہے‘ اسے چھپایا جائے اور پاکستانی لوگوں کو بالکل پتا نہ چلنے دیا جائے۔مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ اس طرح کی خبریں چھپانے سے کیا حاصل ہوتا ہے۔ کیا اس خبر کا کسی کو پتا نہیں چلتا؟ کب تک پوری قوم اندھیرے میں رہتی ہے؟ یا شاید حکومت اور اداروں کا خیال ہوتا ہے کہ چوبیس گھنٹے بعد جب وہ اُس معاملے کو مکمل ہینڈل کر لیتے ہیں تو پھر وہ اس پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ اب قوم کو بتایا جائے کہ حملہ آور کون تھے اور ان کا کس طرح مقابلہ کیا گیا اور اب الحمدللہ سب کچھ کنٹرول میں ہے۔دنیانیوزمیں اپنے تازہ کالم میں وہ مزید لکھتے ہیں کہ ۔۔ اس دوران جب ایسے حملوں کے دوران پاکستان کا سرکاری میڈیا کوئی خبر نشر نہیں کر رہا ہوتا اور دیگر چینلز کو بھی خبر دینے سے روک دیا جاتا ہے بلکہ بلیک آئوٹ کر دیا جاتا ہے تو یہی وقت ہوتا ہے جب دہشت گردوں کا نیٹ ورک پوری قوت سے سوشل میڈیا پر ایکٹو ہو جاتا ہے۔پھر حکومت اور ادارے یہ گلہ کرتے پائے جاتے ہیں کہ ان کے مخالفین سوشل میڈیا پر ان کے خلاف جھوٹ پھیلا رہے ہیں‘ پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ حکومت یا اداروں کو دہشت گردوں سے زیادہ نقصان سوشل میڈیا پر بیٹھے دہشت گردوں کے حامی پہنچاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو اس دہشت گردی کا مقصد ہی دراصل بیرونی میڈیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا ہوتا ہے۔ دہشت گردی کے مقام سے چھوٹے چھوٹے وڈیو کلپس بنا کر اپنے حامیوں کو بھیجنا اور انہیں پاکستان کے اندر یا باہر ٹویٹر (ایکس) اور فیس بک پر پھیلانے کا مقصد ہی عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ دہشت گردی سے زیادہ اہم ان گروپوں کا فوکس آج کل سوشل میڈیا پر ہے اور اس سے وہ فوائد حاصل کرتے ہیں جو ان کا اصل مقصد ہوتا ہے۔اپنے کالم میں رؤف کلاسرا رقمطراز ہیں کہ۔۔اب ذرا اپنے بہادروں کا احوال سنیں: جناب وزیراعظم غائب‘ چار عدد وزیر داخلہ؍ مشیران غائب‘ وزیردفاع غائب اور سب سے بڑھ کر وزیر اطلاعات غائب۔ کچھ پتا نہیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ جب آپ خود سارے غائب ہو جاتے ہیں تو پھر گلہ کس سے اور کیوں کرتے ہیں؟ آپ لوگ ڈرے ہوئے ہیں یا حکمتِ عملی کے تحت غائب ہوتے ہیں‘ جو بھی ہے‘ ایسے میں مخالفوں سے کیا گلہ اگر انہوں نے اپنا بیانیہ سوشل میڈیا پر پھیلا دیا۔ آپ لوگ حکومتی عہدوں کیساتھ جڑی بڑی بڑی مراعات‘ لش پش‘ عام لوگوں پر رعب ودبدبہ‘ ہٹو بچو‘ تنخواہیں‘ گاڑیاں‘ الائونسز اور پروٹوکول تو بھرپور انجوائے کرتے ہیں لیکن جب اسی قوم ‘ جس کے ٹیکس سے آپ کی عیاشیاں چلتی ہیں‘ پر جب کوئی خوفناک حملہ ہوتا ہے تو وزیراعظم سے لے کر وزراتک‘ سب غائب ہو جاتے ہیں۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ نہیں چلے گا۔ ویسے وزیر داخلہ محسن نقوی کدھر ہیں جنہوں نے فرمایا تھا کہ بلوچستان کا مسئلہ تو ایک ایس ایچ او کی مار ہے؟۔۔

ٹی وی چینلز پر کوئی خبر نہ چلے، رؤف کلاسرا کے کڑوے سچ۔۔
Facebook Comments