کراچی: آغا خالد۔۔
کراچی کی صحافت کے معتبر ناموں میں سے ایک معروف فوٹو جرنلسٹ معین الحق بروز جمعہ 22 ستمبر 2023 کی صبح طویل علالت کے بعد رحلت فرماگئے وہ پیشہ ور ماہر فوٹو گرافر تو تھے ہی مگر مہان انسان بھی بلاکے تھے، ان کی فوتگی پر سوچتا رہاکہ اس صدی کے روز مرہ کے لوگوں کے سفر زندگی کے معمولات کو آپ بیتی بناکر تولوں تو نتیجہ یہی ہوگا
وہ آیا اور چھاگیا (ماضی ہوگیا)
وہ گیا اور بھول گیا (یہ حال ہے)
تیز رفتار مشینی زندگی نے ساری قدریں بھلادیں رشتے روز بروز کمزور ہورہے ہیں کامیابیوں کے معیار بدل گئے اور ہم ترقی یافتہ مغرب اور پس ماندہ مشرق کے درمیاں کسی سمت کاتعین نہ ہونے سے ہوا میں معلق ہیں اور کب تک رہیں گے یہ سوچ کر دل دہل جاتا اور اپنی نسل نو پر ترس آنے لگتاہے، جدیدیت کی چیختی چنگھاڑتی سائنسی ترقی نے ہمیں برف کی سل پر لاکھڑا کیاہے
خیر یہ دل کی بھڑاس تھی جو معین بھائی کی رحلت کا سن کر پک گئی تھی اور نکالنا بھی ضروری تھی معین بھائی سے پہلا تعارف تو جانے کب اور کیسے ہوا مگر یہ تعلق 90 کی دہائی میں ہی قائم ہوا ہوگا جب ہم نے کچھ مخلص سینیر دوستوں کی مدد سے کراچی پریس کلب کی ممبر شپ کے حصول کی جدو جہد شروع کی اور روزانہ کی کلب میں اٹھک بیٹھک شروع ہوئی اس زمانے میں روزنامہ جنگ سے نکالے گیے سینیر صحافی محمود علی اسد کا کلب میں طوطی بولتاتھا مرحوم کا عجیب مزاج تھا جنگ کے بانی میر خلیل الرحمان کی زیادتی کابدلہ وہ ہر سینیر جونیر سے لے رہے تھے اور ان کے جو بھی چہیتے تھے وہ بھی کلب کے میر بنے ہوے تھے مگر معین الحق بھائی بھی اسی طائفہ کے اہم رکن ہونے کے باوجودصحیح کو درست اور غلط پر تنقید سے چوکتے نہ تھے انہیں اس سے سروکار نہ تھا کہ ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دینے والے مزاج شاہ کا رد عمل کیا ہوگا انہی دنوں ایک تلخ واقع کی کڑواہٹ آج بھی حلق میں اٹکتی محسوس ہوتی ہے ہوا کچھ یوں کہ اسدمرحوم کے قریبی رفقاء میں شمار فوٹو گرافر سعید اقبال عرف سعید گنجا مرحوم بھی تھے جو شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کادم بھرنے کی وجہ سے کلب میں اپنے آپ کو سفید و سیاہ کے بزعم خود مالک سمجھتے تھے میں 1995 میں کلب کاممبرنہ تھا تاہم استاد محترم انور سن رائے کی سفارش پر مجھے کنٹین کی سہولت میسر آگئی تھی جس کی وجہ سے علاوہ ووٹ کے دیگر مستقل ممبران کی طرح اکثر سہولیات مجھے بھی میسر آگئی تھیں میں سکھر سے 1994 میں دوبارہ کراچی منتقل ہواتھا یہ کراچی میں میرا دوسرا جنم تھا اور روزنامہ پبلک کا اکلوتا پولیٹیکل رپورٹر تھا اور پبلک کی ان دنوں مقبولیت اشاعت کے سابقہ ریکارڈ توڑے جارہی تھی تبھی پیش آئے ایک ناخوش گوار واقع نے مجھے معین بھائی سے جوڑ دیا اور یہ رشتہ ان کے تکلیف دہ آخری لمحات تک برقرار رہا ہوا کچھ یوں کہ پریس کلب کے کانفرنس ہال میں، اظفر امام کے ساتھ جو ان دنوں جسارت سے وابستہ تھے ٹی وی دیکھ رہے تھے در اصل ان دنوں ملک میں پی ٹی وی ہی واحد چینل تھا جبکہ پریس کلب میں ڈش لگاکر کچھ دیگر خبروں اور تفریحی چینل کی سہولت ممبران کے لیے ھاصل کی گئی تھی جن میں بی بی سی اور سی این این بھی تھے ہم لوگ اپنی عادت کے مطابق روزانہ صبح 10 بجے گھر سے خبروں کے حصول کی خاطر نکل جاتے تھے زیادہ تر سندھ سیکریٹری ایٹ ورنہ کسی اسائمنٹ یا سورس سے ملاقاتیں مشن ہوتا تھا تاکہ رات کو جب دفتر جائیں تو زنبیل میں خبروں کا ڈھیر ہو اور اس مارا ماری میں دوپہر کو عموما کھانا کھانے یا تھکاوٹ اتارنے کو تھوڑی دیر کے لئے پریس کلب ضرور آتے تھے جہاں آنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا تھا کہ دوپہر میں مختلف تنظیموں، جماعتوں، شخصیات یا این جی اوز کی کلب میں کی گئی پریس کانفرسز سے بھی کچھ خبریں بن جاتی تھیں اور سیاسی یاسماجی مسائل سے آگاہی بھی حاصل ہوجایا کرتی تھی اس روز بھی کنٹین میں کھانا کھاکر تھوڑی دیر کو آرام کی خاطر ٹی وی روم میں آگئے جہاں صوفوں پر ٹانگیں پھیلاکر بیٹھنے اور تازہ تریں خبروں سے آگاہی اصل مقصد تھا ہم بلکل اگلی صف میں ٹی وی کے سامنے بیٹھے تھے ٹی وی پر انگریزی کشتیاں چل رہی تھیں، اظفر امام نے مجھ سے کہاکہ سی این این لگادوں کیونکہ ریموٹ میرے پاس پڑاتھا، میں نے چینل بدل دیا پیچھے سے کرخت غصہ سے بھری اواز آئی یہ کس بہن۔۔ نے چینل بدلا ہے دراصل ہم یہ محسوس ہی نہ کرسکے تھے کہ ہمارے پیچھے کوئی آکر بیٹھ گیاہے اور کشتیاں دیکھ رہاہے یہ گالیوں سے بھرپور زہریلی آواز سینیر فوٹو گرافر سعید اقبال عرف گنجے کی تھی، میں نے فورا واپس وہی چینل لگادیا مگر ان کاغصہ تھا کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہاتھا وہ خوب گرجے اور ان کی گوتھلی میں جتنی بھی غلیظ ترین گالیاں تھیں وہ سب منہ بھر بھر کر میری طرف انڈیل دیں اور پھر بیرے کو آواز دی کہ اس نان ممبر کو چینل بدلنے کی گستاخی کی سزا کے طور پر کلب سے باہر نکالے میں اپنے تیئن بچی کھچی عزت بچانے کی نیت سے خود ہی اٹھ کر باہر آگیا اور نجیب ٹیرس کے ایک کونے میں کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا ممبر نہ ہونے کی وجہ سے اسے جواب بھی نہیں دے سکاتھا اس بے بسی پر آنکھوں سے آنسووں کی لڑی بہہ نکلی پریس کلب کے ان دنوں ڈیڑھ دوسو ممبر ہوتے تھے جو اب ماشااللہ 2600 کے قریب پہنچ چکے ہیں جب ہماری جوانی کے دن تھے تو اس وقت کے بوڑھے اور ریٹائر صحافیوں کا ایک گروپ گوشہ محمود علی اسد کے کونے میں گھیرا بناکر بیٹھے روزانہ امریکہ، رشیا اور اپنے ملک سمیت دنیا بھر کی حکومتیں گرا اور بنارہے ہوتے تھے ان میں یزدانی صاحب سمیت کچھ دیگر لوگ بھی تھے جو مجھ جیسے نوآموز صحافیوں سے ہمدردی رکھتے اور شفقت سے پیش آتے تھے ان میں سے کسی کی مجھ پر نظر پڑگئی وہ اٹھ کر آئے اور مجھ سے رونے کی وجہ دریافت کرنے اور دلاسہ دینے لگے مگر سعید اقبال کانام سن کر وہ بھی محتاط ہوگئے،میں نے غصہ سے کہاکہ سر میں کل کوئی وکیل کرکے ممبرشپ نہ دینے پر کیس کرونگا اور اس گنجے کی بدتمیزی پر بھی یزدانی صاحب میرے سرپر ہاتھ پھیرتے ہوے بولے بھائی یہ پریس کلب ایک نجی ادارہ ہے اس کے معاملات میں کوئی عدالت مداخلت نہیں کرسکتی پھر انہوں نے مجھے سمجھاتے ہوے کہاکہ یہ جو صبیح الدین غوثی ہیں نا یہ 12 سال ممبر شپ کے لئے ترستے رہے حالانکہ وہ سب سے بڑے انگریزی اخبار “ڈان” کے سینیر رپورٹر تھے اور اس زمانے میں کنٹین کی سہولت بھی چہار دیواری سے باہر ملاکرتی تھی مین گیٹ سے متصل کنٹین ہوا کرتی تھی اور دیوار میں ایک چھوٹاسا روشن دان نما سوراخ تھا اس دیوار کے باہر فٹ پاتھ پر بینچیں رکھی ہوتی تھیں جن پر بیٹھ کر نان ممبرز کھانا تناول کرتے یا چائے پیتے تھے انہیں کلب میں داخلہ کی بھی اجازت نہ تھی اور اب وہی غوثی ہردوسرے سال صدر یا سیکریٹری بنتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتاہے ان عظیم لوگوں کی نصیحت کے مطابق ہوا بھی وہی، 2007 میں سابق گورنر پنجاب سلیمان تاثیر نے ہمارے ملک کے مایہ ناز صحافی نجم سیٹھی کے ساتھ مل کر ایک اخبار “آج کل” کا اجرا کیا تو مجھے اس کا چیف رپورٹر مقرر کیاگیا ۔ میں نے اور اس کے ایڈیٹر فاضل جمیلی نے بھی اس اخبار کے لئے جنگ جیسے ادارے سے رضاکارانہ استعفی دے کر بڑی قربانی دی تھی اور میں وہ پہلا شخص تھا جس کی کراچی میں پہلی اور دوسری فاضل جمیلی کی بحیثیت ایڈیٹر تعیناتی ہوئی اور مجھے تعیناتی کا پروانہ دیتے ہوے نجم سیٹھی نے ایڈیٹر کو پابند کیاکہ رپورٹنگ ٹیم کا چیف رپورٹر انتخاب کریں گے اور اس میں کوئی مداخلت نہیں ہوگی پھر ہوا کچھ یوں کہ بھرتیاں ابھی جاری تھیں کہ ایک روز فاضل نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا تو فوٹو گرافر سعید اقبال بھی وہاں موجود تھے انہوں نے سعید کی طرف اشارہ کرتے ہوے مجھ سے کہاکہ ان کی سفارش یوسف خان (چیف رپورٹر نوائے وقت) نے کی ہے اگر آپ مناسب سمجھیں تو انہیں اپنی ٹیم میں شامل کرلیں اس وقت سعید اقبال مرحوم کاچہرہ باعث عبرت بنا ہواتھا جسے دیکھ کر میری آنکھیں بھر آئیں مگرمیں نے آسماں کی طرف دیکھتے ہوے اپنے آپ کو سنبھالا اور فاضل کو کہاکہ سر میں ان کو صرف فوٹو گرافرہی نہیں کراچی اسٹیشن کاچیف فوٹو گرافر مقرر کرتاہوں عزت اور ذلت کے درمیان کاعرصہ صرف 11 سال تھا اس ساری روئداد کا مقصد سب کے سجن فوٹو جرنلسٹ معین الحق بھائی کی جرات کی مثال دیناہے جنہیں کلب میں سب لوگ منہ پھٹ (یعنی سچا بندہ) سمجھتے تھے اکثر لوگ ان کے سامنے جان بوجھ کر انہیں تپانے کو اوٹ پٹانگ باتیں کرتے جس پر معین بھائی پھٹ پڑتے اور مہذب گالیوں کاپٹارہ کھول دیتے یوں تفریح کاساماں حاضرین کومیسر آجاتا اور معین بھائی غصہ سے اٹھ کر دوستوں کی چوکڑی بدل لیتے معین بھائی کو جب سعید اقبال کی بدتمیزی کاپتہ چلا تو میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ پکڑکر مجھے سعید اقبال کے پاس لے گئے جو اس وقت کھانے کی میز پر تھا اور اسے ایسی سنائیں اتنا ذلیل کیاکہ میرا آدھا دکھ جاتارہا حالانکہ وہ دونوں محمود علی اسد کے خاص کارندے مشہور تھے جبکہ میرا ان سے اس سے پہلے کوئی خاص تعلق بھی نہ تھا مگر سچائی کے علمبردار معین بھائی نے میری خاطر جو کچھ کیا اس کے بعد سے میرا ان کا ایسا تعلق بن گیا کہ ان کے آخری سانس تک برقرار رہا پریس کلب میں معین بھائی قہقہوں کی شناخت تھے وہ خود تو کم ہنستے تھے مگر دوستوں کو بڑےمواقع دیتے غم بانٹنے اورمسکراہٹوں میں غوطہ زن رکھنے میں کوئی ان کاثانی نہیں آخری دنوں میں کچھ گھریلو مسائل کاشکار رہے روزانہ گھنٹوں کلب میں خوش گپیاں کرنے والے معین بھائی کی کلب آمد کا وقفہ تیزی سے بڑھ رہاتھا روز کے ملنے والے بھی ان کی کمی کو نظر انداز کربیٹھے تھے اس پر وہ دکھی ہوگئے اور بہت دنوں بعد ملنے پر رنجیدگی سے بولے یار آغا لوگ تو بھول ہی جاتے ہیں مگر گھر میں بھی بیوی نہ رہے تو بندہ رل جاتاہے ان کے لہجہ کاکرب یہ لکھتے ہوے میں آج بھی محسوس کرہاہوں اس کے بڑے دنوں بعد خورشید عباسی اور عامر لطیف کے ساتھ میں ان کے گھر پر گیا اور انہیں خورشید سے گلدستہ بھی دلوایا تو وہ ذہانت کا پتلا ہمیں خالی خالی نظروں سے تکتا رہا ان کے سب سے چھوٹے فرماں بردار بیٹے فیضان معین نے بتایاکہ ان کی یاد داشت کھو گئی ہے کسی وقت واپس آجاتی ہے مگر
مختصر عرصہ کے لیے اور وہ بھی بہت کمزور چلنے سے پہلے وہ واقعی سنبھل گئے اور ہمیں پہچان کر بڑے خوش ہوے بس یہ آخری ملاقات تھی کچھ روز بعد ہی فیضان معین کا وہ میسج آگیا جس کا مجھے دھڑکا لگارہتا تھا سب دوستوں کو ان کے سفر آخرت کی اطلاع دی اور طارق روڈ کے قبرستان میں ان کے خاموش چہرے کو دیکھا تو دل بھر آیا اچھا معین بھائی آپ کی کمی تو صرف آپ کے حقیقی پیارے ہی محسوس کریں گے مگر مجھ جیسے خود غرض اور پریس کلب کو آپ کے بخشے قہقہوں کی کمی ہمیشہ آپ کی یاد دلاتی رہےگی، میرے سجن سب کے سجن اچھا…خدا حافظ۔۔(آغاخالد)۔۔