تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
جس طرح سے سابق وزیراعظم نواز شریف کو کلین چٹ دی جارہی ہے اس کے معاشرے پر عدالتی اور قانونی نتائج کا شاید کسی کو اندازہ نہیں ہے۔
یہ صورتحال 2018ء میں بھی پیدا ہوئی تھی جب عمران خان کو پاور میں لانے کے لیے اُس وقت کی عدالتوں اور مقتدر حلقوں نے یہی رویہ اختیار کیا تھا۔اُس وقت کے طاقتور حلقوں کے نزدیک مسائل کی جڑ نواز شریف تھا اور اگر اس کی جگہ عمران خان کو لایا جائے تو وہ پاکستان کے سب معاشی اور سماجی مسائل حل کر دے گا اور پاکستان یکدم دنیا کے بڑے ممالک کی اکانومی کو شکست دے دے گا۔ اُن کا خیال تھا شریف خاندان نے پاکستان کو بہت لوٹا ‘ لہٰذا عمران خان جیسا کلین بندہ لانا بہت ضروری ہے‘ جو ملک کو ٹھیک کرے۔ یہ الگ بات کہ جب عمران خان سے وزیراعظم بننے کے دس دن بعد پہلی ملاقات ہوئی تو انہوں نے کاشف عباسی کو کہا: جی کاشف پوچھو۔ کاشف جو اس سوال کے لیے تیار نہ تھا فوراً بولا: خان صاحب لگتاہے آپ حکومت کرنے کو تیار نہ تھے‘ آپ کی تیاری نہیں تھی۔ عمران خان فوراً بولے: جی کاشف تیار نہیں تھا‘ مجھے تو پتہ ہی اب چلا ہے کہ ملک کو کتنے بڑے مسائل کا سامنا ہے‘ بس آپ سب لوگوں نے میرے فیصلوں پر چھ ماہ کوئی تنقید نہیں کرنی تھی۔ کوئی نیگیٹو خبریں نہیں چھاپنی۔
میں اُس وقت حیرانی سے انہیں دیکھ رہا تھا جو چوبیس سال سے قوم کو تقریریں اور ٹی وی شوز میں بتاتے رہے تھے کہ ان کی کتنی تیاری ہے اور کتنے بڑے قابل لوگوں کی ٹیم ان کے پاس ہے۔ اب وہی وزیراعظم بن کر کہہ رہے تھے کہ مجھے تو کچھ علم نہ تھا اور آپ نے مجھے کچھ کہنا بھی نہیں ‘میں جو غلط درست فیصلے کروں۔ جو اپنے پاس دنیا کے بہترین ٹیم موجود ہونے کا دعویٰ کرتے تھے ان کی زنبیل سے عثمان بزدار برآمد ہوا یا زلفی بخاری جیسے لندن کے دوست جو پک اینڈ ڈراپ سروس دیتے تھے۔ اس طرح کے دوستوں کی فہرست بڑھتی گئی‘ جنہیں حکومت چلانے کا تجربہ تو دور کی بات‘ علم ہی نہ تھا کہ پارلیمنٹ کس بلا کا نام ہے یا حکومت یا گورننس کیسے کرتے ہیں۔ سب نئے لڑکوں کو وفاقی وزیر بنا دیا گیا جنہوں نے ہر طرف اَنی مچا دی۔ خان صاحب نے مدت چھ ماہ سے بڑھا کر ایک سال کر دی کہ مجھے کچھ نہیں کہنا۔ جو کچھ کہنے کی کوشش بھی کرتا تو جنرل فیض حمید کا ڈنڈا چل جاتا۔ جنرل باجوہ صحافیوں اور اینکرز کو بلا لیتے کہ بندے بن جائو‘ خان کو تنگ مت کرو۔ ایک ملاقات میں تو صحافیوں کو جنرل باجوہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہمارے پاس پانچ ہزار لوگوں کی فہرست تیار ہے جن کو لٹکانا ہوگا۔ اینکر پرسن محمد مالک نے کچھ کہا تو جنرل باجوہ نے آگے سے کہا: آپ اینکرز کا نام بھی اس فہرست میں ڈالا جاسکتا ہے۔ بعد میں محمد مالک نے مجھے اس بات کو کنفرم بھی کیا۔ اگر کمی تھی تو ایک ٹی وی شو میں اُس وقت کے وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے یہی پانچ ہزار لوگوں کی فہرست اور انہیں لٹکانے کی بات کہہ دی۔ جب وزیراعظم عمران خان اینکرز کو کہہ رہے تھے کہ ان پر چھ ماہ تنقید نہیں کرنی تو ان کا مقصد تھا کہ وہ عثمان بزدار جیسے کام کر لیں اور کہیں سے کوئی آواز نہ ابھرے‘ چاہے پورا صوبہ ڈوب جائے۔ اور مزے کی بات ہے کہ عثمان بزدار پر بڑا اعتراض بھی جنرل باجوہ کو ہوا جہاں سے ان میں دراڑ پڑنا شروع ہوئی۔ جنرل باجوہ چاہتے تھے کہ بزدار کو ہٹا دیں۔ وہی جنرل باجوہ جو صحافیوں کو بلا کر خان کے فیصلوں پر تنقید کرنے سے روکتے تھے وہ اب خودخان کے فیصلوں سے تنگ آئے ہوئے تھے اور نتیجہ سامنے ہے جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہوا۔
میں تو یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ عمران خان ہمیں کہیں گے کہ مجھ پر کوئی رعایت کرنے کی ضرورت نہیں‘ کھل کر پہلے دن سے میرے فیصلوں کو جج کریں‘ اچھے ہیں تو تعریف کریں‘ غلط ہیں تو کھل کر تنقید کریں‘ لیکن الٹا وہ کہہ رہے تھے کہ پہلے تین ماہ‘ پھر چھ ماہ اور پھر ایک سال اور آخر پر کہتے تھے نہیں مزید دس سال حکومت چاہئے ہوگی‘ پھر شاید وہ کچھ کر پائیں۔اس وقت جب عمران خان پارلیمنٹ کے ممبر تھے وہ کسی بھی کمیٹی کے رکن نہ بنے نہ کبھی پارلیمنٹ کی کارروائی کو سیریس لیا کہ وہ کچھ جان پاتے کہ حکومت چلتی کیسے ہے۔ کم از کم خان صاحب کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی‘ فنانس‘ فارن آفس اور پلاننگ ڈویژن کی کمیٹیوں کا ممبر بننا چاہئے تھا تاکہ وہ گورننس سمجھ پاتے اور وزیراعظم بنتے تو جہاں بیوروکریسی سے اچھے افسران چن سکتے جو اُن کی حکومت چلاتے وہیں وہ گورننس ایشوز کو بھی بہتر ہینڈل کرسکتے۔ لیکن عمران خان اپوزیشن میں ہوتے ہوئے پارلیمنٹ ہی نہیں جاتے تھے۔ کسی وزیرنے مجھے کہا کہ آپ بار بار یہ بات کرتے ہیں لیکن ان کا پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کا ممبر بننا ان کے وقار اور سیاسی قد کے خلاف ہے۔وہ ویسے ہی دھرنے دے کر بیٹھے تھے‘ لہٰذا جو سیکھنے کا وقت تھا وہ دھرنے اور گالی گلوچ میں گزر گیا اور اب وہ وزیراعظم بن کر کہہ رہے تھے کہ مجھے تو کچھ علم ہی نہیں‘ لہٰذا مجھ پر ہاتھ ہولا رکھیں۔
جو انہیں جس محنت سے لائے تھے اسی محنت سے انہوں نے فارغ کر دیااور آج کل وہ جیل میں ورکرز کو تسلیاں دیتے پائے جاتے ہیں۔ یہی کچھ نواز شریف کو لاتے وقت کیا گیا تھا‘ جب انہیں بینظیر بھٹو کے خلاف کھڑا کیا گیا۔ جنرل اسلم بیگ غلام مصطفی جتوئی کو 1990ء کے الیکشن کے بعد وزیراعظم بنانے کے حق میں تھے لیکن جنرل حمید گل کی ٹیم کا دل نواز شریف پر آگیا تھا‘ حالانکہ سب کو علم تھا کہ نواز شریف کے capacity ایشوز ہیں ( جو آج بھی جوں کے توں ہیں)۔ لیکن سوچا گیا کہ وہ تابعدار رہیں گے۔ جنرل حمید گل کو لگتا تھا کہ وہ نواز شریف کے ہاتھوں اگلے آرمی چیف بنیں گے‘ لیکن الٹا جنرل بیگ اور بعد میں جنرل آصف نواز کو بنایا گیا تو وہ نواز شریف کے دشمن ہوگئے اور بعد میں عمران خان کو سامنے لانے اور سپورٹ دینے میں بھی یہی بات تھی کہ نواز شریف نے چیف نہ لگایا تھا۔ نواز شریف اکثر آرمی چیف لگاتے وقت میرٹ سے ہٹ کر دیگر عوامل پر غور کرتے تھے‘ جن میں برادری‘ قسمیں‘ قرآن‘ تعلقات‘ گارنٹیاں اہم ہوتی تھیں‘ لہٰذا کئی سابق جنرل آج ان کے خلاف ہیں‘ جو سینیارٹی لسٹ میں تھے لیکن چیف نہ بنائے گئے۔
خیر اب نواز شریف بھی واپس آچکے ہیں۔ تین دفعہ وزیراعظم بن کر بھی انہوں نے گورننس سیکھی نہ شفافیت پر کبھی اعتماد کیا۔ انہوں نے حکومت بھی کاروبار کی طرح چلائی‘ جس میں ان کی فیملی اور بچوں کے کاروبار کو نقصان نہیں ہونا چاہئے۔ نواز شریف اور عمران خان کا ایک جیسا مزاج رہا ہے کہ دونوں صرف وزیراعظم بننا چاہتے ہیں‘ پارلیمنٹ جانا یا گورننس ان کی ترجیحات میں شامل نہیں رہی۔ نواز شریف وزیراعظم بن کر چار سو دن ملک سے باہر رہے تو خان صاحب پارلیمنٹ نہ گئے۔نواز شریف کی حکومت اسحاق ڈار چلاتے تھے تو عمران خان فرماتے ہیں کہ اُن کی حکومت جنرل باجوہ چلاتے تھے۔ اندازہ کریں جو جلسے جلوسوں اور ٹی وی پر بلند آہنگ وعدے کرتے تھے وہ اپنی حکومتیں ڈار اور باجوہ کے حوالے کر کے مزے سے زندگی گزار رہے تھے۔
ایک بات طے ہے کہ جس طرح عمران خان کو لایا گیا اور ان کے لیے ہر شے تہس نہس کی گئی‘ اس طرح اب نواز شریف کولایا جارہا ہے‘ تو تسلی رکھیں نتائج بھی وہی نکلیں گے۔ نہ عمران خان کو لانے کے لیے قانون قاعدے کی پروا کی گئی نہ اب نواز شریف کو لاتے وقت کی جارہی ہے۔ ایک جیسے حالات میں وزیراعظم بنوانے کا نتیجہ بھی وہی ہوگا۔ جب کوئی نیا کام نہیں ہورہا تو نیا نتیجہ کیسے نکلے گا؟(بشکریہ دنیانیوز)۔۔