تحریر: حامد میر۔۔
ایک صحافی دوست بہت دنوں کے بعد ملاقات کیلئے آئے ۔کافی دیر تک ملکی سیاست پر گفتگو کے بعد اٹھتے اٹھتے بیٹھ گئے اور یاد دلایا کہ آپ کو چار سال پہلے وزیر اعظم ہائوس میں عمران خان کےساتھ ہونے والی وہ ملاقات یاد ہے جس میں آپکے ایک جملے نے سارا ماحول بدل دیا تھا؟ میں نے پوچھا کون سی ملاقات ؟دوست نے کہا کہ وہی ملاقات جس میں ہمارے کچھ ساتھی ٹی وی اینکر اور کالم نگار عمران خان کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے مشورے دے رہے تھے۔ خان صاحب خاموشی سےیہ مشورے سنتے ہوئے بار بار آپ کی طرف دیکھ رہے تھے لیکن اس دن آپ بھی خاموش تھے ۔پھر خان صاحب نے آپکی طرف دیکھ کر کہا کہ جی حامد آپ کیا کہیں گے ؟آپ نے خان صاحب کے سر کے اوپر لٹکی ہوئی ایک تصویر کی طرف اشارہ کرکے پوچھا کہ مسٹر پرائم منسٹر! یہ جس کی تصویر آپ کے اوپر لٹکی ہوئی ہے یہ بڑا لیڈر ہے یا آپ بڑے لیڈر ہیں؟ خان صاحب نے سر گھما کر اوپر دیکھا اور کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح ہم سب کےلیڈر ہیں جسکے بعد آپ نے کہا کہ قائد اعظم کے پاکستان میں صرف قائد اعظم کی پالیسی چلے گی آپکی یا میری پالیسی نہیں چلے گی پھر خان صاحب نے یہ کہہ کر ساری بحث ختم کر دی کہ اسرائیل پر میرا وہی موقف ہے جو قائد اعظم کا موقف تھا میرا دل اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے نہیں مانتا، دوست نے خان صاحب کے ساتھ ہونے والی گفتگو یاد دلا کر پوچھا کہ اگر عمران خان اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر لیتے تو کیا انکی حکومت ختم ہوتی؟ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ آپ وہ حالات یاد کریں جن کے تناظر میں عمران خان کے ساتھ اس ملاقات کا اہتمام کیا گیا تھا۔یہ ملاقات مارچ 2019ء میں ہوئی تھی اور 26 فروری 2019ء کو بھارتی ایئر فورس نے پاکستان کے علاقے بالا کوٹ پر بمباری کی تھی۔اس دوران یہ اطلاعات آئی تھیں کہ اسرائیلی طیاروں نے راجستھان کے راستے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن پاکستان ایئر فورس کے جانبازوں نے بھارتی ایئر فورس کا جو حشر کیا اس کے بعد اسرائیل کو حملے کی جرات نہیں ہوئی ۔اس دوران جنرل قمر جاوید باجوہ نے میرے سمیت کچھ دیگر صحافیوں کےساتھ یہ گفتگو شروع کی کہ ہمیں اسرائیل اور بھارت کا اتحاد توڑنے کیلئے اسرائیل سے بات چیت شروع کرنی چاہئے۔ باجوہ صاحب چاہتے تھے کہ میڈیا اس بحث کا آغاز کرے لیکن میرا موقف تھا کہ یہ بحث پارلیمنٹ میں ہونی چاہئے ۔بہرحال انہوں نے ہی عمران خان کے ساتھ میڈیا پرسنز کی ملاقات کا اہتمام کیا ۔اس ملاقات میں عمران خان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے سے صاف انکار کردیا۔ملاقات ختم ہونے کے بعد مجھے ایک اہم ادارے کے ترجمان کا فون آیا اور انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے ساتھ ہونے والی گفتگو آف دی ریکارڈ تھی اور آپ وزیر اعظم کا کوئی جملہ رپورٹ نہیں کرینگے۔ عمران خان سے قبل نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی ایسے مشورے دیئے گئے لیکن انہوں نے بھی ان مشوروں کو نظرانداز کیا اور ملک دشمن کہلوائے۔ جنرل پرویز مشرف وہ واحد پاکستانی حکمران تھے جو کھلم کھلا اسرائیلی قیادت سے رابطے میں رہے ۔میں نے اپنے دوست کو صاف صاف کہا کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے سے انکار کے بعد سال تک عمران خان کی حکومت قائم رہی۔خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد مارچ 2021ء میں آئی اور اسکی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے فوج کے اندرونی معاملات میں مداخلت شروع کر دی تھی ۔میرا صحافی دوست آج بھی عمران خان کی محبت میں گرفتار ہے لیکن آج کل اس محبت کے اظہار میں بڑا محتاط ہوچکا ہے۔ میں نے اسے کہا کہ اگر 2019ء میں ہم باجوہ صاحب کی باتوں میں آکر اسرائیل کے ساتھ دوستی کے گیت گانے لگتے تو سوچو آج ہمارا ضمیر ہمیں کتنی ملامت کرتا؟مارچ 2019ء میں عمران خان کو اسرائیل کےساتھ دوستی کے مشورے دینے والوں میں ہمارے ایک ساتھی کافی آگے نکل گئے۔ سات مارچ 2019ء کو میں نے عمران خان کے ساتھ ہونیوالی ملاقات کی کچھ تفصیل روزنامہ جنگ کے کالم میں لکھی تو یہ ساتھی بہت ناراض ہوا۔ میں نے ان سے عرض کی کہ آپ میرے اختلاف رائے کو برداشت کریں اپنا موقف زبردستی مجھ پر مسلط تو نہ کریں۔ میں نے انہیں خبردار کیا کہ جن لوگوں کے کہنے میں آکر آپ عمران خان کو اسرائیل کےساتھ دوستی کی طرف دھکیل رہے ہیں وہ خود کبھی اس پالیسی کے حق میں عوام کے سامنے نہیں بولیں گے اور آپ کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے ڈسٹ بن میں پھینک دیں گے۔ ہمارے یہ ساتھی اینکر پچھلے سال عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد پاکستان چھوڑ کر امریکہ چلے گئے۔آج کل وہ امریکہ میں بیٹھ کر پاکستان میں آئین و قانون کی بالادستی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اگر عمران خان نے انکی بات مان لی ہوتی تو مولانا فضل الرحمان اکتوبر 2019ء میں اسلام آباد سے واپس نہ جاتے بلکہ اپنے ہزاروں ساتھیوں سمیت وزیر اعظم ہائوس کے اندر داخل ہوکر دم لیتے۔ مولانا فضل الرحمان کو واپس بھجوانے میں جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے اہم کردار ادا کیا تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ مارچ 2019ء میں اسرائیل کے معاملے پر عمران خان کے انکار کے سات ماہ بعد بھی جنرل باجوہ اور فیض تحریک انصاف کی حکومت کا تحفظ کر رہے تھے۔ آج جب عمران خان اڈیالہ جیل پہنچ چکے ہیں تو مولانا فضل الرحمان فرماتے ہیں کہ میں چاہتا ہوں انتخابی میدان میں میرے مخالف کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے نہ ہوں بلکہ وہ بھی کھلے ہاتھوں سے میرا مقابلہ کرے۔ شاید مولانا صاحب کے اس بیان کی وجہ سے تحریک انصاف کا ایک وفد ان سے ملاقات کرنے گیا اور انکی خوش دامن کے انتقال پر فاتحہ خوانی کی۔ اس ملاقات کے بعد بھی عمران خان اور مولانا فضل الرحمان کا سیاسی اختلاف برقرار ہے تاہم یہ اچھی بات ہے کہ سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کرنے کی روایت کو توڑا گیا ہے۔کسی کو اچھا لگے یا برا اصل حقیقت یہ ہے کہ جو سیاست دان،صحافی یا وکیل کسی جنرل باجوہ کے ہاتھوں کا ٹشو پیپر بن جاتے ہیں انکا آخری قیام تاریخ کے اس ڈسٹ بن میں ہوتا ہے جو اردو میں کوڑا دان کہلاتا ہے۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے آپ کو ایسے کئی سیاستدان، صحافی اور وکیل نظر آئیں گے جو آج چھوٹے چھوٹے مفادات کیلئے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ قرار دے رہے ہیں۔ آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کو ملکی مفادات کا اہم تقاضا قرار دے رہے ہیں۔ یہ سب اس دور کے نئے ٹشو پیپر ہیں استعمال کے بعد انہیں بھی کہیں پھینک دیا جائیگا۔ میری باتیں انہیں اس وقت یاد آئیں گی جب ان سب کا استعمال ختم ہو جائیگا۔(بشکریہ جنگ)۔۔