تحریر: ڈاکٹر توصیف احمد خان
شاہ فیصل کالونی ایک زمانے میں کمیونسٹ انقلابیوں کا مرکز رہی۔ ڈاکٹر اعزاز نذیر، ڈاکٹر منظور، اقبال علوی، سائیں عزیز اﷲ جیسے انقلابی وہاں مقیم رہے۔ ڈاکٹر منظورکمیونسٹ پارٹی کے فعال رکن تھے۔ وہ نیشنل عوامی پارٹی کے عہدیدار بھی رہے۔ ڈاکٹر منظور احمد کا دواخانہ شاہ فیصل کالونی ایک نمبر پر ہوتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب ہر جمعے کو فکر ونظرکی ایک محفل منعقد کرتے۔ پروفیسر اقبال جو عبداﷲ کالج کھڈہ میں سیاسیات کے استاد تھے۔ ڈاکٹر منظور کی سجائی ہوئی محفل میں کئی اہم مسائل پر لیکچر دینے گئے۔ مقتدا منصور اس محفل کا ایک لازمی جز تھے۔
مقتدا منصور گڑھی یاسین میں پیدا ہوئے، سکھر میں ابتدائی تعلیم حاصل کی، سندھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ مقتدا بتاتے تھے کہ 1970ء میں لاہور میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا مرکزی کنونشن ہوا ۔ مقتدا اس زمانے میں اپنے ماموں سے ملنے لاہورگئے ہوئے تھے۔ انھوں نے اس کنونشن میں شرکت کی تھی، یوں وہ سوشل ازم نظریے کے اسیر ہوئے۔ سکھر میں معروف شاعر حسن حمیدی اور ڈاکٹر اعزاز نذیر سے روابط قائم ہوئے۔ مقتدا نے اپنی عملی زندگی کا آغاز سرکاری اسکول میں تدریس سے کیا۔
ان کا پسندیدہ مضمون ریاضی تھا مگر انھوں نے اپنے آپ کو اسکول کی تدریس تک محدود نہیں رکھا۔ انھوں نے سماجی علوم کی کتابوں کے مطالعے پر خصوصی توجہ دی۔ سندھی اور اردو ادب سے انھیں دلچسپی پیدا ہوئی، یوں ان کی دانشورانہ صلاحیتیں ابھرنے لگیں۔ مقتدا منصور کے لیے سرکاری ملازمت میں بڑا اسکوپ تھا۔ وہ تعلیمی بورڈ کی ملازمت سے مستفید ہوسکتے تھے یا بیوروکریسی کا حصہ بن کر خاندان کو خوشحالی کی طرف گامزن کرتے مگر مقتدا منصور نے تدریس کے شعبے میں نئی راہیں تلاش کیں۔ انھوں نے سرکاری ملازمت سے اس وقت ریٹائرمنٹ لی جب ان کا مستقبل روشن تھا، مختلف اداروں میں تدریس کے شعبے میں شامل رہے۔ ڈاکٹر ریاض شیخ انھیں زیبسٹ میں لے گئے جہاں وہ پوسٹ گریجویٹ کی تدریس سے منسلک رہے۔
مقتدا منصور سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ ایک اردو اخبار میں کالم لکھ رہے ہیں۔ میں نے اور بصیر نوید نے جو آج کل ہانگ کانگ میں مقیم ہیں نے یہ تجویز پیش کی کہ وہ روزنامہ ایکسپریس میں کالم لکھیں۔ پروفیسر ذاکر نسیم ایکسپریس میں بھی کام کررہے تھے۔ طاہر نجمی اس وقت نیوز ایڈیٹر تھے۔ طاہر نجمی نے جب سے صحافت کی دنیا میں قدم رکھا ہے انھوں نے یہ ذمے داری قبول کی ہے کہ ترقی پسند اور روشن خیال سوچ رکھنے والے افراد کو صحافت کی دنیا میں شامل کیا جائے۔ اس بناء پر مقتدا منصور کی کالم نگاری کا معاملہ ذاکر نے طاہر نجمی کے سامنے پیش کیا ۔ طاہر ہمیشہ کی طرح مسکرائے اورکہا دیکھتے ہیں۔
اس وقت نیر علوی ایڈیٹر تھے جو فیصلہ سازی میں دیرکرنے کی شہرت رکھتے تھے مگر شاید طاہر نجمی نے ایسا سماع باندھا ہوگا کہ مقتدا صاحب کا کالم ایکسپریس کے ادارتی صفحے کی زینت بن گیا۔ مقتدا نے فلسفے کے مسائل، بین الاقوامی تعلقات، علم، سیاسیات اور مارکسی فلسفہ کی پیچیدگیوں پر دقیق کالم لکھے۔اس دوران ایکسپریس لاہور اور دیگر شہروں سے شایع ہونے لگا، یوں ان کے کالم ملک بھر میں پڑھے جانے لگے۔ مقتدا نے میرے مشورے پر پاکستان پریس فاؤنڈیشن (PPF) میں شمولیت اختیار کی۔ پی پی ایف کے روح رواں اویس اسلم علی ہیں۔ اس زمانے میں سینئر صحافی فضل قریشی بھی پی پی ایف سے منسلک تھے۔ مقتدا صاحب کے سپرد صحافیوں کی تربیت کا کام ہوا۔ انھیں چاروں صوبوں کے شہروں اور گاؤں تک میں جانا پڑا۔ یہ وہ وقت تھا جب پختون خواہ اور بلوچستان دہشت گردی کی لپیٹ میں تھے۔
مقتدا اپنے کالم میں جس کو ’’اظہاریہ‘‘ قرار دیتے تھے ،طالبان اور مذہبی انتہاپسندوں پر شدید تنقید کرتے تھے ۔ مقتدا ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے ابتدائی دور میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر مہارت حاصل کرلی تھی، یہی وجہ تھی کہ وہ اپنا کالم لیپ ٹاپ پر خود منتقل کرتے اور مقررہ وقت پر ان کا کالم نادر شاہ عادل کے کمپیوٹر پر ابھرتا۔مقتدا کا مؤقف تھا کہ بھارت میں دیہی علاقوں میں غربت کی شرح کم کرنے میں نچلی سطح کے بلدیاتی نظام نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ مقتدا نے ہمیشہ سندھ کی خود مختاری کی حمایت کی۔ وہ سندھی زبان پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ مقتدا ممتاز قوم پرست دانشور عبدالخالق جونیجو ، یوسف مستی خان، عثمان بلوچ ، ڈاکٹر ٹیپو اور ڈاکٹر حبیب سومرو کے ساتھ Sindh Save Committee میں متحرک تھے۔
مقتدا کا کہنا تھا کہ 1940ء کی قرارداد لاہور کی بنیاد پر خودمختاری سے ہی وفاق ترقی کرسکتا ہے۔ مقتدا منصور ان چند لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف ہونے والے آپریشن کی شدید مخالفت کی۔ وہ اپنے تجزیہ کا بلاخوف و خطر اظہار کرتے تھے کہ سویلین کے لیے جگہ تنگ ہورہی ہے اور اس کا آخری نتیجہ جمہوری حکومت کی رٹ کے خاتمے پر ہوگا۔مقتدا نے بائیں بازو کے دانشوروں کے ادارہ ارتقاء کے سیکریٹری جنرل کے فرائض انجام دیے۔ وہ ڈاکٹر مبارک علی، اقبال علوی اور تسنیم صدیقی کے ساتھ گزشتہ کئی برسوں سے تاریخ فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے تحت متحرک رہے۔ ڈاکٹر مبارک کی زیر نگرانی یہ ٹرسٹ رسالہ ’’تاریخ ‘‘شایع کرتا جس میں تاریخ سیاسیات کے موضوع پر ان کے تحقیقی مقالے شایع ہوئے۔ پھر ہر سال مختلف موضوعات پر ہونے والی کانفرنسوں کے انعقاد میں مقتدا کا اہم کردار تھا۔
گزشتہ کئی برسوں سے دوپہر کا کھانا کراچی پریس کلب میں تناول کرتے۔ معروف ادیب پیرزادہ سلمان غازی، صلاح الدین، ستار جاوید اور رضیہ سلطانہ اس محفل میں موجود ہوتے ۔کھانے پر ایک طرح کی علمی محفل ہوتی جس میں ہر موضوع پر نئی باتیں سننے کو ملتیں کہ نئی کتابوں میں کیا لکھا گیا ہے اور اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں کا پس منظر کیا ہے، پیرزادہ سلیمان کے خوبصورت اشعار اس محفل کا حاصل ہوتے۔بین الاقوامی شہرت یافتہ براڈ کاسٹر انجم رضوی، مقتدا کے دوستوں کے حلقے میں شامل تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ مقتدا علی خان سے صرف چند ملاقاتوں میں ان کی گفتگو سے محسوس ہوا کہ برسوں کا یارانہ ہے۔ مقتدا نے پانچ کتابیں تحریر کیں۔ ان میں سندھ کا سماجی بحران، سیاست اور فکری مغالطے، بدلتی دنیا کے مسائل،ریاست، سیاست اور تاریخ اور تاریخ پاکستانی سیاست کے مدوجزر شامل تھیں۔ ان کتابوں میں معلومات کا خزانہ ہے۔ مقتدا اپنے نظریاتی دوستوں میں ہمیشہ ندیم اختر کا خصوصی ذکر کرتے تھے۔ وہ ندیم اختر کے مطالعے اور جدوجہد سے خاصے متاثر تھے۔
ندیم اختر کے ذریعے معروف ادیبہ زاہدہ حنا سے متعارف ہوئے۔ مقتدا نے ٹی وی پروگرام کیے۔ وہ تجزیہ نگار کی حیثیت سے ملکی اور غیر ملکی ریڈیو اور ٹی وی چینلز پر مدعو کیے جاتے اور اپنی متوازن گفتگو سے سننے اور دیکھنے والوں کے دلوں میں جگہ بنالیتے۔ مقتدا دو ماہ سے زیادہ عرصہ تک امراض قلب کے قومی اسپتال میں زیر علاج رہے۔ ان کی اہلیہ، بچوں اور دامادوں نے دن رات ان کی خدمت کی۔ اقبال علوی دوستوں کو مقتدا کے بارے میں باخبر کرتے رہے مگر مقتدا کی بائی پاس کے بعد انتقال کی کیا وجوہات تھیں اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔مقتدا نے ساری زندگی جدوجہد کی۔ وہ اپنے دل کے آپریشن سے پہلے زیبسٹ میں کلاس لیتے رہے اور تاریخ فاؤنڈیشن ٹرسٹ کی کارل مارکس کی دو سو سالہ سالگرہ کے موقعے پر بین الاقوامی کانفرنس کی تیاریوں میں شریک رہے۔ ان کی رخصت صرف ان کے خاندان کے لیے ہی نہیں بلکہ لکھاریوں کی مزاحمتی تحریک کے لیے بھی نقصان ہے۔(بشکریہ ایکسپریس)