zindagi pari hai abhi

صحافت کے پاؤں میں حرص کی بیڑیاں

تحریر: شکیل احمد بازغ

یہ بات تو مانی جا سکتی ہے کہ کوئی بھی خبر جو قومی سلامتی اور مفادات کے خلاف ہو اسے نشر کرنے سے باز رہنا چاہیئے لیکن یہ کیا کہ قومی مفادات و نظریات سے متعلق پالیسیز ہی عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ماتحت کردیئے جائیں۔ اور صحافت کو ہی جانبدار کرلیا جائے؟

عالمی کارپوریٹ میڈیا کا یک سطری ایجنڈا یہ ہے کہ وہ باتیں جو کسی معاشرے میں مذہبی نظریات کے مطابق قابلِ بحث نہیں ان پر پورے شد و مد سے بحث کرکے اسکے تقدس کو فلک سے اتار کر زمین کے ہموار کردیا جائے۔ تاکہ پوری دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں مقامی عقائد و نظریات کو عوام کے دلوں میں ختم کرکے انٹرنیشنل ورژن آف بیلیف کو فورغ دیا جائے۔ہم سب جانتے ہیں کہ میڈیا چینلز جن کمرشلز پہ انحصار کرتا ہے انکی زیادہ تعداد ان عالمی کارپوریٹ سیکٹرز طرز کی ہے جو کبھی برصغیر میں مصالحے بیچنے آئے تھے پھر نہایت سرعت کیساتھ نظریات جحرافیہ اور مقامی تہذیب کا نقشہ ہی پھاڑ کر دکھ دیاگیا۔ آپ غور کریں کہ چینلز کو منہ مانگے کمرشلز ریٹ دینے والی یہ عالمی تجارتی کمپنیاں صابن، چائے، شیمپو کے ساتھ نیم عریاں مغربی تہذیب پھیلاتے ہیں۔ یہ میڈیا کو اتنے پیسے دیتے ہیں کہ ہر چینل ان عالمی معیار کی پراڈکٹس کے کمرشلز اپنے چینلز پر چلانا کامیابی کی علامت مانتے ہیں۔ اس کامیابی کو پانے کیلئے چینلز کو اس ڈیکورم کو اپنانا ہوتا ہے جو عالمی تہذیب نو کی ترویج و اشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کے اشتہارات کٹر ملکی بنیادی نظریات کا پرچار کرنے والے چینلز کو نہیں ملتے۔ پہلے اپنا قبلہ رُخ پھیر کر مغرب کی جانب کرنا ہوتا ہے۔ ہر وہ خبر جو عالمی سامراجی مفادات اور پالیسیز کے مخالف یا متصادم ہو اسے خبر کے بجائےعالمی پروٹوکولز کے خلاف سازش مانا جاتا ہے۔ اور جو مقامی تہذیب نظریات کو عالمی نقطہءِ نظر کیمطابق بدلنے کا کام نہیں کرتا اسے انٹرنیشنل تجارتی کمپنیوں کے کمرشلز نہیں ملتے۔  اس کے لیئے ضروری ہے کہ رمضان جیسا بابرکت مہینہ ہو عید میلادالنبی ﷺ ہو یا دیگر اسلامی مقدس تہوار ہوں ایسے مواقع کو کمرشلائز کرکے مغربی تہذیب کے قریب تر کرنے میں چینلز اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ مقامی تہذیب کے ماتھے پر اپنے نام کا کلنک لگتا دیکھ کر یہ عالمی تجارتی کمپنیاں خوب پیسہ لٹاتی ہیں۔ جو میڈیا چینلز دونوں ہاتھوں سے سمیٹتے ہیں۔ جب دھرنا فلسطین کے حق میں ہو اور دھرنا دینے والی ملک کی سب سے زیادہ بنیاد پرست استعماری افکار سے متصادم نظریات کی حامل سیاسی یا مذہبی جماعت ہو تو یہ دھرنا اور اسکے ایک ایک لمحے کی خبر میڈیا چینلز پر نہیں چلے گی۔ وجہ یہی ہے کہ سامراجی قوتوں جن کے قابو میں دنیا کا کم و بیش پچانوے فیصد میڈیا ہے اسے ناراض کرکے میڈیا چینل پر اربوں کی سرمایہ کاری کو کھُو کھاتے نہیں ڈالا جاسکتا۔

 عالمی کارپوریٹ سیکٹر کے مفادات اور پالیسیز سے جُڑے ٹی وی چینلز کے قیام کا مقصد بنیادی قومی نظریات اور عقائد کی پاسداری و اشاعت بالکل بھی نہیں۔ ایسا کرنے سے نفع کے بجائے سرمایہ کاری کو نقصان ہوسکتا ہے۔ ٹی وی چینل کو میڈیا کنٹرول کرنے کا سرکاری ادارہ ہی لے ڈوبے گا۔ کسی بھی عالمی استعماری قوتوں کے مفادات کے برخلاف کانٹینٹ نشر کرنے پر چینل کو بھاری بھرکم جرمانہ یا لائسنس کینسل جیسی آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔ جس سے اربوں کی سرمایہ کاری ڈوب سکتی ہےاس لیئے بقول راقم اس میکدے میں آئے وہجو بادہ خوار ہوہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان جیسے نظریاتی ملک میں نظریہءِ پاکستان کی کٹر حامی جماعت کا فلسطین کاز پر ہفتہ بھر کا آگاہی و حکومت پر دباؤ کا دھرنا کسی چینل پر ٹکر کی صور میں بھی نظر نہ آیا۔ ہاں اسے خبر تب مانا گیا جب ایک مشترکہ اعلامیہ بن چکا اور دھرنا ختم ہونے لگا۔ آپ رمضان شریف میں نِرے اسلامی عقائد پر مشتمل ٹرانسمیشن کرکے دیکھ لیں آپکو کمرشلز اتنے کم ملیں گے کہ آپکے اخراجات ہی پورے نہ ہوسکیں گے۔ کیونکہ آپکے مقدس پروگرام میں مغربی فلیور یعنی تماشے نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک خبر جو آؤٹ اسٹیشن رپورٹر کی نظر میں ضلع بھر کی یا صوبہ بھر کی سب سے بڑی خبر ہو وہ چینل پہ جگہ نہیں پاتی۔ کیونکہ اس خبر میں عالمی مفادات کا عنصر نہیں پایا جاتا۔ میڈیا چینلز عالمی تجارتی کمپنیوں کے تہذیبی یلغار کی نمائندگی کے ذریعے منافع کمانے کے ادارے ہیں عوامی نظریات  و عقائد کی ترویج و تبلیغ کے مراکز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر خبر اب میڈیا میں خبر نہیں مانی جاتی۔ واللہ اعلم۔۔(شکیل احمد بازغ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں