smog tajawizaat or galio ka asal haqdaar

سموگ، تجاوزات اور گالیوں کا اصل حقدار

تحریر: ملک سلمان۔۔

سموگ سے شہری مر رہے ہیں اور انتظامی افسران کمائی میں لگے ہوئے ہیں۔ سموگ کی سب سے بڑی وجہ گاڑیوں کا دھواں ہے اور دھوئیں کی سب سے بڑی وجہ تجاوزات ہیں جو ٹریفک کی روانی میں خلل کا سبب ہیں۔ انتظامی افسران سرکاری گاڑیوں میں فراٹے بھرنے کی بجائے اپنی ذاتی گاڑی پر کسی بازار سے گزر کر دکھائیں۔ اول تو گزرنا ہی محال ہے اگر گزر بھی جائیں تو تجاوزات کی وجہ سے ایک کلو میٹر کا فاصلہ تیس منٹ میں طے ہوتا ہے اور لاکھوں روپے کی قیمتی گاڑی تجاوزات اور ٹھیلوں کی ٹکروں سے سکریچ زدہ ہوچکی ہوتی ہے۔

اس سے بڑی بے غیرتی اور لاقانونیت کیا ہوگی کہ جس انفورسمنٹ/انکروچمنٹ انسپکٹر کو تجاوزات کے خاتمے کے لیے بھرتی کیا جاتا ہے وہی معمولی انکروچمنٹ انسپکٹر تجاوزات کے خاتمے کی بجائے رشوت کے بدلے سڑک کنارے غیر قانونی تجاوزات قائم کرواتا ہے۔ نا صرف عارضی بلکہ پختہ تجاوزات بھی۔ گھر کے باہر ایکسٹرا ریمپ کی وجہ سے گلی محلوں میں لڑائیاں اور قتل و غارت کی نوبت آجاتی ہے لیکن مجال ہے کہ انتظامی افسران خواب غفلت سے بیدار ہوں۔ سرکاری افسران کو ہمارے خون پسینے کی کمائی کے پیسوں سے تنخواہیں اور سرکاری گاڑیاں اس لیے دی جاتی ہیں کہ عوام دست و گریبان ہوں اور یہ اپنا حصہ وصول کر سائڈ پر۔

وزیر اعلیٰ پنجاب متعدد دفعہ تجاوزات کے خاتمہ کے احکامات جاری کرچکی ہیں لیکن انتظامی افسران ہر دفعہ جعلی تصاویر بنا کر وزیراعلیٰ کے احکامات کو ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ حتی کہ صوبائی دارالحکومت لاہور میں سوائے جاتی امراء روڈ کے لاہور کی شاہراؤں سے گزرنا محال ہوچکا۔ اہم ترین شاہراؤں اور کارنر روڈ پر ٹریفک پولیس کی آشیرباد سے غیر قانونی پرائیویٹ پارکنگ سٹینڈ کے باعث ٹریفک جام معمول بن گیا ہے۔جی ٹی روڈ، ملتان روڈ سمیت دیگر نیشنل ہائی ویز پر انتظامی افسران کی ملی بھگت سے بیس سے چالیس فٹ کا ایریا قبضہ مافیا نے گھیر رکھا ہے۔ اندھیر نگری چوپٹ راج کا یہ عالم ہے کہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے بھی اپنا مرکزی گیٹ سرکاری زمین اور مین شاہراہ پر قبضہ کرکے بنا رکھا ہوتا ہے۔تجاوزات سے نہ صرف سفری مشکلات کا سامنا ہے بلکہ شاہرائیں بھی جلد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر قومی خزانے کو کھربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

ہر دکان کے آگے تین غیر قانونی سٹال جبکہ میونسپل کمیٹی والے ایک ایک ریڑھی سے یومیہ خرچہ لیکر اسے بیچ سڑک روڈ بند کر کے دکانداری کی اجازت دے دیتے ہیں۔

انتظامی اہلکار سرعام کہتے ہیں کہ تجاوزات ختم کرنے کی بجائے انکو لگوا کر ہم اوپر تک حصہ دیتے ہیں۔انفورسمنٹ اور انکروچمنٹ انسپکٹرز کے مطابق سیکرٹری لوکل گورنمنٹ، ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر اور ٹریفک پولیس تجاوزات کی کمائی کے حصہ دار ہیں اور یہ افسران دعوے کرتے ہیں کہ منسٹر کا گھر اور وزیراعلیٰ ہاؤس ہم چلاتے ہیں۔ موجودہ حکومتی ارباب اختیار کو جہاں تک میں جانتا ہوں وہ ایسے کسی بھتہ خوری کے حصہ دار نہیں ہو سکتے۔ حکومت کو سوچنا ہو گا کہ پیسے انتظامی افسران کھائیں اور گالیاں آپ، آخر کیوں؟

تجاوازات والے دکاندار ، گاہکوں سے زائد پیسے بٹورٹے ہوئے کہتے ہیں کہ جو کمانا ہے ان سرکاری ڈاکو لٹیروں نے اکٹھا کرنے آجانا ہے۔ ریڑھی اور تجاوزات والوں سے یومیہ بھتہ میں اضافہ کرتے ہوئے انکروچمنٹ اہلکار کے الفاظ کچھ یوں ہوتے ہیں۔ پیسے بڑھانا مجبوری ہے حرام خوروں (سی ای او ایم سی اور اسسٹنٹ کمشنر) نے اپنے بندے چھوڑے ہوئے ہیں ایک ایک ریڑھی کا حساب لیتے ہیں۔اسی طرح اسسٹنٹ کمشنر اور سی ای او ایم سی انکروچمنٹ انسپکٹر سے وصولی کرتے ہوئے اپنے اوپر والوں کیلئے گالیاں بکتے ہوئے، ہمیں کیا بچنا ہے ڈپٹی کمشنر اور سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کے جہنمی پیٹ بھرنے ہیں۔

اور یہ آخری گالی میرے جیسے عام عوام کی منہ سے نکلتی ہے جب کسی کام کیلئے نکلتے ہیں تو تجاوزات کی وجہ سے 80 فٹ کی سڑک 15فٹ رہ چکی ہوتی ہے، جس وجہ سے ٹریفک بلاک اور پانچ منٹ کا فاصلہ ذلیل ہو کر بیس منٹ میں طے ہوتا ہے تو، سرکاری زمینوں پر تجاوزات کی صورت قبضے کروا کر حرام کی کمائی کھانے والے افسران کی بے ضمیری، بے حسی اور بے غیرتی پر لعنت بھیجتے ہوۓ بنا معذرت منہ سے گالی نکلتی ہے کہ واحیاتو۔۔۔ تمہارے سی ایس ایس اور پی ایم ایس افسران سے سے بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے کے گارڈ اچھے ہیں جو معمولی تنخواہ لیکر اپنا فرض نبھاتے ہیں اور کسی کی جرات نہیں ایک فٹ تجاوزات یا وائلیشن کرسکے۔ مختصر یہ کہ تجاوزات کی اس حرام کی کمائی میں ہر موڑ پر گالیاں اور لعنتیں ہیں فیصلہ تم نے کرنا ہے کہ اسی طرح لعنتیں اور گالیاں سمیٹتے رہنا ہے یہ غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا اصل فریضہ ادا کر کے تجاوزات کا خاتمہ کر کے عزت کمانی ہے۔

وہ وقت دور نہیں جب عوام انتظامی افسران کی فوٹو لگا کر سوشل میڈیا پر شئیر کرے گی کہ اس ناجائز ریڑھی کا روزانہ بھتہ انکروچمنٹ آفیسر، سی ای او ایم سی، ٹی ایم اے، ڈویلپمنٹ اٹھارٹیز، اسسٹنٹ کمشنر اور سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کو فی کس کتنا جاتا ہے۔

 سپریم کورٹ نے تین دن میں تجاوزات ختم کرنے کا حکم دیا تھا لیکن آج سات ماہ گزرنے کے باوجود بھی انتظامی افسران نے اس حکم نامے پر عمل درآمد کروانے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ چیف جسٹس کو چاہئے کہ توہین عدالت کی کاروائی کرتے ہوئے اس نااہلی پر متعلقہ افسران کو جیل بھیج دیں تو پھر دیکھیں کہ کیسے ایک دن میں تجاوزات ختم ہوتی ہیں۔

میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ افسران صرف ڈنڈے کو پیر مانتے ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں مرکزی شاہراؤں اوربازار وں کے ساتھ ساتھ گھروں کے ریمپ تک توڑ کر سرکاری زمینیں واگزار کروائی گئی تھیں۔ نہ تو کسی شہری کی جرت تھی کہ ایک انچ بھی سرکاری زمین پر قبضہ کرسکے اور نا ہی سرکاری افسران کی ہمت تھی کی تجاوزات لگوا کر کمائی کرسکیں۔(ملک سلمان)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں