crime free city 2

سادگی اور بچت

تحریر: جاوید چودھری۔۔

ہمارے گھر میں چار کمرے اور پانچ پنکھے تھے‘ چار کمروں کی چھتوں کے ساتھ سیلنگ فینز لگے تھے جب کہ ایک فلور اسٹینڈنگ فین تھا‘ ہم فلور فین کو صحن میں رکھ کر گرمیوں کی راتیں گزار لیتے تھے‘ والدہ شام کے وقت صحن کو پانی سے تر کر دیتی تھیں‘ پنکھا چلتا تھا تو ٹھنڈا فرش فضا کو بھی ٹھنڈا کر دیتا تھا‘ ہم برف بازار سے خریدتے تھے۔اس کے ٹکڑے کرتے تھے اور اسے گھڑوں اور کولروں میں ڈال دیتے تھے‘ ہمارے گھر میں روزانہ دو سالن پکتے تھے اور ہم یہ دو ٹائم کھاتے تھے‘ دوپہر کے وقت چولہا نہیں جلتا تھا‘صبح ناشتہ کرتے تھے اور شام کے وقت کھانا کھا لیتے تھے اگر کسی کو دوپہر کے وقت بھوک لگتی تھی تو وہ صبح کی بچی ہوئی روٹی کے ٹکڑے اچار کے ساتھ کھا لیتا تھا یا دودھ کا پیالہ پی لیتا تھا یا پھر گڑ‘ مکھانے اور مرونڈا کھا لیتا تھا‘ کھانا ہمیں بہرحال مغرب کی نماز کے بعد ملتا تھا‘ ہم ٹی وی بھی نو بجے تک دیکھتے تھے۔

نو بجے کے خبرنامے کے بعد ٹی وی بند کر دیا جاتا تھا‘ پورے گھر کی بتیاں بجھ جاتی تھیں اور اس کے بعد کوئی گھر سے باہر جاتا تھا اور نہ آتا تھا‘ گرمیوں میں ہم سب صحن اور چھتوں پر سوتے تھے اور فجر کے وقت اٹھ جاتے تھے‘ گرمی کی وجہ سے صبح کی دھوپ میں سونا کسی بھی طرح ممکن نہیں ہوتا تھا چناں چہ گھر کی خواتین چار پائیاں اور بستر سمیٹنا شروع کر دیتی تھیں‘ہم سردیوں میں کمروں میں سوتے تھے اور ان میں کوئی ہیٹر نہیں ہوتا تھا۔رضائیاں ہاں البتہ بھاری ہوتی تھیں اور ان کے کسی کونے یا کھدرے سے سردی کے گھسنے کا تصور بھی ممکن نہیں تھا‘ باتھ روم کامن ہوتا تھا اور ہم سب ایک ہی باتھ روم میں ٹھیک ٹھاک گزارہ کر لیتے تھے‘ ہمارے پورے گھر میں چھ لائیٹس تھیں‘ چار کمرے اور چار بلب‘ ایک بلب باتھ روم میں اور ایک ٹیوب لائیٹ ڈرائنگ روم میں‘ مجھے آج بھی اپنے ڈرائنگ روم کو ڈرائنگ روم کہتے ہوئے شرم آتی ہے کیوں کہ اس میں دوسرے کمروں کے مقابلے میں فرنیچر اور سہولتیں انتہائی کم تھیں۔

اس میں تین کرسیاں اور ایک صوفہ تھا اور بس‘ پنکھا بھی فلور اسٹینڈنگ فین تھا‘ ہم اسے دن میں ڈرائنگ روم میں رکھ دیتے تھے اور شام کے وقت صحن میں اور اگر کبھی کوئی مہمان آ جاتا تھا توپنکھا اسے دے دیا جاتا تھا جس کے بعد وہ رات پورے خاندان کو گرمی اور مچھروں میں گزارنا پڑتی تھی‘ والد صاحب لائیٹس جلانے کے سخت خلاف تھے۔ہم اگر دن کے وقت لائیٹ جلانے کی غلطی کر بیٹھتے تھے تو ہمیں پھینٹا پڑ جاتا تھا‘ رات کے وقت بھی لائیٹ صرف ساڑھے نو بجے تک جلتی تھی اور اس کے بعد اسے بند کرنا ہم سب کا فرض ہوتا تھا‘ ہم نے اگر ساڑھے نو بجے کے بعد لائیٹ جلا دی تو ابا جی کی آواز آتی تھی ’’یہ لائیٹ کس۔۔۔۔۔ جلائی ہے‘‘ اور اس کے بعد سارا خاندان لائیٹ بند کرنے کے لیے دوڑ پڑتا تھا‘ ہم جب بھی کمرے سے نکلتے تھے تو پہلے پنکھا بند کرتے تھے اور پھر باہر قدم رکھتے تھے اور سردیوں میں ہم چولہے سے دو کام لیتے تھے۔

کھانا بنانا اور گھر گرم رکھنا‘ نومبر میں چولہا بڑے کمرے میں آ جاتا تھا‘ اس پر کھانا بھی پکتا تھا اور ساتھ ہی یہ کمرہ بھی گرم کر دیتا تھا‘ ہم سونے سے پہلے چولہا صحن میں رکھ دیتے تھے اور ساتھ ہی رضائی میں گھس کر خراٹے لینے لگتے تھے۔

میری زندگی کا ایک تہائی حصہ اس فضا میں گزرا تھا‘ مجھے اچھی طرح یاد ہے ہم سبزی‘ راشن اور صابن صرف ضرورت کا خریدتے تھے‘ آٹا ہفتے کے لیے آتا تھا‘ سبزی اور گوشت روزانہ خریدا جاتا تھا اور شام تک اس کا چھلکا تک نہیں بچتا تھا‘راشن کو اسٹور کرنا جرم یا گناہ تھا‘ صرف ضرورت کی چیز آتی تھی‘ گھر میں کوئی چیز فالتو نہیں ہوتی تھی‘ کپڑے اور جوتے بھی بس دو دوہوتے تھے‘ ایک سردیوں اور دوسرا گرمیوں کا‘ ایک سویٹر اور ایک جیکٹ میں ساری سردیاں گزرتی تھیں۔

ہم سردیوں میں بھی ٹھنڈے پانی سے نہاتے تھے‘ نہانے کا ایک حوض بنا ہوا تھا جس کی دیواریں پانچ فٹ اونچی تھیں اور اس کی کوئی چھت نہیں تھی لہٰذا سردی میں براہ راست نہایا جاتا تھا اور والد صاحب دور بیٹھ کر اس کی باقاعدہ نگرانی کرتے تھے اور گاڑی‘ موٹر سائیکل اور سائیکل صرف دوسرے شہر جانے کے لیے استعمال ہوتی تھی‘ شہر کے لیے صرف ’’ٹانگ سروس‘‘ تھی اور ہم کوئی غریب یا مفلس لوگ نہیں تھے۔

اﷲ نے ہمیں خوش حال بنایا تھا لیکن اس کے باوجود ہمارا لائف اسٹائل سادہ تھا لہٰذا میری زندگی کا صرف وہ ایک پورشن تھا میں نے جس میں ایک بار بھی مہنگائی یا بے روزگاری کا لفظ نہیں سنا ‘ اس دور میں ہر شخص کے منہ سے الحمد للہ اور اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جیسے کلمات نکلتے تھے لیکن اس کے بعد گھر کا سائز بھی بڑا ہوتا چلا گیا‘ کمرے بھی بڑے اور علیحدہ علیحدہ ہوتے چلے گئے‘ اٹیچ باتھ بھی بن گئے۔پنکھے اور اے سی بھی لگتے چلے گئے اور ہر کمرے میں بیس بیس لائیٹس بھی لگ گئیں اور ان کے ساتھ ہی مہنگائی‘ بے روزگاری اور کساد بازاری کا رونا بھی شروع ہو گیا‘ ہمارے بچپن میں سب خوش تھے لیکن آج دس کنال کے گھر میں رہنے والا بھی سر پر ہاتھ رکھ کر رو رہا ہے‘ کیوں؟ سوال یہ ہے اصل غربت اور اصل مہنگائی تو ہمارے بزرگوں کے دور میں تھی لیکن وہ شکوہ نہیں کرتے تھے جب کہ ہم مسلسل رو رہے ہیں۔

کیوں؟ اس کی وجہ فضول خرچی ہے‘ ہمارے بزرگ کفایت شعار تھے‘ انھوں نے چادریں اور پاؤں دونوں سنبھال کر رکھے ہوئے تھے جب کہ ہمارے پاؤں لمبے اور چادریں رومال جتنی ہیں چناں چہ ہمارے اخراجات حد کراس کر گئے ہیں‘ میرا دعویٰ ہے ہم اگر آج بھی بچت کو اپنی عادت بنا لیں‘ ہم اپنے بزرگوں یا گوروں کی طرح کامن اور دو باتھ رومز پر چلے جائیں‘ لائیٹس کم سے کم لگوائیں‘ دن کی روشنی کو زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔

رات صرف تین گھنٹے لائیٹس جلائیں‘ اے سی اور فریج بھی تعداد میں کم رکھیں اور صرف ضرورت کے تحت استعمال کریں‘ چولہا صرف ایک یا دو وقت جلائیں‘ گاڑی کی جگہ ٹانگیں اور سائیکل استعمال کریں اور اپنے اخراجات اپنی آمدنی سے آدھے کر لیں تو ہماری زندگی میں سکون آ جائے گا‘ ہم آخر بجلی کو دو سو یونٹس اور پٹرول کو 50 لیٹرز تک کیوں نہیں لے کر آتے؟ آپ یورپ چلے جائیں۔آپ کو ہر گیراج میں گاڑی کے ساتھ ساتھ سائیکل اور الیکٹرک موٹر سائیکل ملے گا اور مالک خواہ کھرب پتی ہو وہ موٹر سائیکل اور سائیکل دونوں چلاتا نظر آئے گا‘ اس سے ان کی صحت بھی اچھی رہتی ہے‘ فیول بھی بچتا ہے اور ماحولیاتی آلودگی بھی کم ہو جاتی ہے‘ ہم ایسا کیوں نہیں کرتے؟ ہمارے نوجوان بھی ایک آدھ کلو میٹر کے بعد بیٹھ جاتے ہیں اور مدد کے لیے دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔

اس کی کیا وجہ ہے؟ وجہ ہمارا لائف اسٹائل ہے‘ ہم نے پیدل چلنا گناہ یا جرم بنا دیا ہے‘ سائیکل اور موٹر سائیکل غربت کی نشانی بن چکے ہیں‘ آپ اگر موٹر سائیکل یا سائیکل سے اتر رہے ہیں تو آپ کو چوکی دار بھی اندر نہیں گھسنے دے گا‘کیوں؟

میں نے پچھلے دنوں ایم اے او کالج کی پرنسپل ڈاکٹر عالیہ رحمن کے بارے میں خبر پڑھی یہ روزانہ سائیکل پر کالج جاتی ہیں‘ یہ خبر اخبارات میں بھی شایع ہوئی اور اسے چینلز نے بھی اٹھایا‘ ہمارے لیے یہ خبر ہے جب کہ یورپ اور امریکا میں نوبل انعام یافتہ سائنس دان‘ بڑی بڑی یونیورسٹیوں کے ریکٹرز‘ سیاست دان اور پچاس پچاس بلین ڈالرز کی کمپنیاں چلانے والے بزنس مین بھی سائیکل پر دفتر آتے اور جاتے ہیں۔

ہمارے چیف جسٹس پیدل عدالت جائیں یا یہ 1800 سی سی گاڑی استعمال کریں تو یہ بریکنگ نیوز ہوتی ہے جب کہ امریکا اور یورپ کے اکثر چیف جسٹس جوگنگ کرتے ہوئے آتے اور جاتے ہیں اور یہ سڑکوں پر سائیکل دوڑا رہے ہوتے ہیں‘یہ وہاں کوئی خبر نہیں‘ ایران تیل برآمد کرنے والابڑا ملک ہے‘ آج بھی اس کے پاس پٹرول کے وسیع ذخائر ہیں اور اس کا پٹرول اسمگل ہو کر بھی پاکستان میں سو ڈیڑھ سو روپے لیٹر بکتا ہے لیکن اس ملک میں بھی پٹرول اور بجلی کی بچت کی جاتی ہے۔

تہران شہر میں ایک دن جفت نمبر کی گاڑیاں باہر آتی ہیں اور دوسرے دن طاق نمبر کی یوں شہر میں ٹریفک اور پٹرول کی کھپت آدھی ہو جاتی ہے‘ تہران میں صرف وہ گاڑیاں ایکسپریس لین میں جا سکتی ہیں جن کی تمام سیٹوں پر لوگ بیٹھے ہوں جب کہ دو اور تین مسافروں والی گاڑیاں پہلی اور دوسری لین میں چلتی ہیں‘ ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ ہمارے ملک میں سارا سارا دن پنکھے اور لائیٹس جلتی رہتی ہیں۔یہ پنکھے‘ لائیٹس اور اے سی کسی دوسرے کے ہونے کے باوجود ہمارے ہیں کیوں کہ بجلی کا ضیاع پورے ملک کا نقصان ہے لہٰذا ہم یہ بند کیوں نہیں کرتے؟ ہم کیوں لوگوں کو یہ نہیں بتاتے آپ کی لائیٹ آن ہے یا آپ کی موٹر مسلسل چل رہی ہے پلیز اسے بند کر دیں چناں چہ میرا خیال ہے فضول خرچی اور نمائش ان دو بری عادتوں نے پوری قوم کو تباہ کر دیا۔

ہمیں برباد کر دیا‘ ہم اگر آج قومی سطح پر بچت شروع کر دیں اور سادگی اختیار کر لیں تو ہم اور یہ ملک دونوں بحران سے نکل جائیں گے اور ان دونوں عادتوں کے لیے شروعات بہرحال حکومت اور سیاست دانوں کو کرنا ہو گی‘یہ لوگ جب تک سادگی اور بچت اختیار نہیں کریں گے یہ ملک اس وقت تک نہیں بدلے گا چناں چہ ہم کچھ نہ کریں‘ ہم بس تیس سال پرانے لائف اسٹائل پر چلے جائیں‘ ہمارا مسئلہ حل ہو جائے گا اور وہ لائف اسٹائل ہے سادگی اور بچت۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں