تحریر: حامد میر۔۔
یہ جنوری 2019ء کی ایک سرد شام تھی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے دفترسے فون آیا کہ اگر کل صبح وقت ہو تو وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار آپ سے ملاقات کرنا چاہیں گے۔میں نے فون کرنے والے کو بتایا کہ کل صبح میرے لئے اسلام آباد سے لاہور آنا مشکل ہو گا۔فون کرنے والے نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ صاحب اسلام آباد میں ہیں اور وہ ملاقات کیلئے آپ کے گھر آنا چاہتے ہیں۔اگلی صبح وزیر اعلیٰ صاحب اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتے ہوئے میرے گھر تشریف لے آئے۔ اس سے قبل ان کے ساتھ میری صرف ایک سرسری سی ملاقات تھی۔یہ ان کے ساتھ پہلی تفصیلی ملاقات تھی انہوں نے بڑی عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بتایا کہ جس دن وہ وزیر اعلیٰ بنے تو انہیں یہ بھی پتہ نہ تھا کہ پنجا ب اسمبلی کدھر ہے ،وہ صرف اور صرف عمران خان کی وجہ سے وزیر اعلیٰ بنے ہیں۔ انہوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں کچھ مشکلات کا ذکر کیا۔ میرا خیال تھا کہ وہ تحریک ِانصاف کے اندر موجود اپنے مخالفین کے ہاتھوں پریشان ہیں۔تھوڑے دن بعد پتہ چلا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ان سے خوش نہیں اور انکی جگہ علیم خان کو وزیر اعلیٰ بنوانا چاہتے ہیں۔ یہ وہ دن تھے جب آرمی چیف اور وزیر اعظم اکثر تقریبات میں ساتھ ساتھ نظر آتے اور شیخ رشید احمد صوبہ سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے کی دھمکیاں دیا کرتے تھے۔کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ باجوہ اور عمران خان کی لڑائی ہو جائے گی۔ ایک دن عثمان بزدار کے ایک قریبی ساتھی نے مجھے سیالکوٹ کے ایک تھانے میں فراڈ اور غبن کی ایک ایف آئی آربھیجی، اس ایف آئی آر میں جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام لیکر ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے کوئی ٹھیکہ دلوانے کیلئے 25لاکھ روپے وصول کئے لیکن ٹھیکہ نہیں دلوایا لہٰذا 25لاکھ روپے واپس دلوائے جائیں۔ ایف آئی آر کا متن صاف بتا رہا تھا کہ یہ باجوہ صاحب کو بلیک میل کرنے کی کوشش ہے کیونکہ آرمی چیف اتنے چھوٹے موٹے کاموں میں ملوث نہیں ہو سکتا۔میں نے یہ ایف آئی آر باجوہ کے ایک ساتھی کو بھجوائی تو انہوں نے اسے جھوٹ قرار دیدیا لیکن جب ان سے پوچھا کہ آرمی چیف کے خلاف ایف آئی آر کیسے درج ہو گئی تو ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔پھر یہ ایف آئی آر سیل ہو گئی اور سیالکوٹ پولیس کے اعلیٰ افسران کی جواب طلبیاں شروع ہو گئیں لیکن مجھے یہ سمجھ آ گئی کہ باجوہ اور عمران خان میں تنازع شروع ہو چکا ہے اور اس کی اصل وجہ عثمان بزدار ہیں۔ خان صاحب نے عثمان بزدار کا بھرپور دفاع شروع کر دیا اور وہ ہاتھ میں تسبیح پکڑ کر کہا کرتے تھے کہ یہ ہمارا وسیم اکرم پلس ہے۔باجوہ صاحب نے اس وسیم اکرم پلس کی کرپشن کے بارے میں خان صاحب کو بتایا تو وہ کہتے آپ پہلے شہباز شریف اور آصف زرداری کی کرپشن پکڑیں پھر بزدار کی طرف آئیں۔
عمران خان نے بزدار کو کس کے کہنے پر وزیراعلیٰ بنایا تھا؟ یہ ایک لمبی کہانی ہے جو سب سے پہلے مجھے چوہدری پرویز الٰہی نے بتائی اور پھر یہی کہانی جنرل باجوہ نے بھی کئی لوگوں کو سنائی لیکن خان صاحب ببانگ دہل بار بار اپنے وسیم اکرم پلس کا دفاع کرتے رہے۔ بزدار کو اس وقت ہٹایا گیا جب پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانا تھا۔ 12اگست کو پاکستان تحریک انصاف نے عثمان بزدار اور خسروبختیار سمیت 27افراد کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کر دیا ہے۔یہ اعلان غیر ضروری تھا کیونکہ بزدار تو اس اعلان سے دو ماہ قبل تحریک انصاف چھوڑ چکے ہیں۔ پھر یہ اعلان کیوں کیا گیا؟شائد بزدار صاحب اپنے آپ کو بچانے کیلئے ان کو پھنسانے پر راضی ہو گئے ہیں جنہوں نے انہیں وزیر اعلیٰ بنوایا تھا عثمان بزدار دراصل عمران خان کے ویژن کا آئینہ ہے اور عمران خان دراصل جنرل باجوہ کے ویژن کا عکاس ہے۔ ان میں سے کسی نے کسی کے ساتھ وفا نہیں کی۔ ایک دوسرے کے ساتھ بے وفائی اور دھوکہ بازی کے ان کے پاس ایک سو ایک بہانے ہیں۔دلچسپ پہلو یہ ہے کہ عمران خان نے بزدار کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان عمر ایوب خان کے ذریعہ کیا ہے۔عمر ایوب خان ذاتی طور پر بڑے نفیس اور نستعلیق انسان ہیں لیکن اتفاق دیکھئے کہ ان میں اور عثمان بزدار میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔
عثمان بزدار نے اپنی سیاست کا آغاز مسلم لیگ (ق) سے کیا اور بلدیاتی انتخابات میں وہ مسلم لیگ(ق) کے ذریعے تحصیل ناظم بنے۔2013ء میں وہ مسلم لیگ(ن) میں آ گئے۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور ہار گئے۔2018ءمیں وہ تحریک انصاف میں آ گئے اور عمران خان کے دل میں اتر گئے۔ خان صاحب اقتدار سے نکلے تو بزدار صاحب ان کی پارٹی سے نکل گئے۔ اب ذرا عمر ایوب خان کے سیاسی کیریئر پر نظر دوڑائیے۔ انہوں نے بھی عثمان بزدار کی طرح اپنی سیاست کا آغاز مسلم لیگ(ق) سے کیا اور 2002ءمیں ایم این اے بنے۔2008ءکا الیکشن ہارگئے 2013ءمیں مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر ایم این اے کا الیکشن ہار گئے ۔2018ءمیں تحریک انصاف میں چلے گئے اور ایم این اے کا الیکشن جیت گئے۔اگر عمران خان 2018ءمیں بزدار کو وزیر اعلیٰ بنانے سے پہلے صرف یہ دیکھ لیتے کہ بزدار ہوا کا رخ دیکھ کر سیاسی پارٹی بدل لیتا ہے تو کبھی اسے وزیر اعلیٰ نہ بناتے۔ اب انہوں نے عمر ایوب خان کو نجانے کس وجہ سے پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنا دیا ہے؟ شائد اس لئے کہ وہ واپس مسلم لیگ (ن) میں نہ چلے جائیں۔
آج کا موضوع عمر ایوب خان نہیں بلکہ عثمان بزدار ہیں۔ کیا تحریک انصاف کے کارکنوں کے علاوہ عام پاکستانی یہ جاننے کا حق نہیں رکھتے کہ عمران خان ہاتھ میں تسبیح پکڑ کر جس شخص کو وسیم اکرم پلس قرار دیا کرتے تھے، اسے تحریک انصاف نے کون سی خوبی کی وجہ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ بنایا تھا؟کم از کم وسیم اکرم کو تو یہ بتا دیں کہ عمران خان نے عثمان بزدار کو وسیم اکرم پلس کیوں قرار دیا؟اس سوال کا جواب دینا اس لئے ضروری ہے کہ آج بھی بہت سے لوگ عمران خان کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ خان صاحب کو دوبارہ اقتدار ملا تو وہ ایک دفعہ پھر کسی عثمان بزدار کو ہم پر مسلط کر دینگے۔ اگر ایسا نہیں اور خان صاحب اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ چکے ہیں تو اتنا ہی بتا دیں کہ انہوں نے کس کے کہنے پر عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنایاتھا؟(بشکریہ جنگ)