تحریر: ایاز امیر۔۔
ایڈورڈگبن کی لازوال تصنیف ”ڈِکلائین اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر‘‘ سالوں پہلے خریدی تھی۔ اُس کے چھ والیم ہیں لیکن جب بہت پہلے شروع کی تو آدھی کتاب ہی پڑھ سکا۔اس تصنیف کے بارے میں ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ بہت کم لوگ اسے پورا پڑھ پاتے ہیں۔لیکن قدرت کا کیا کرنا ہوا کہ کچھ دن پہلے اس پر پھر نظر پڑی اور اچانک بغیر کسی ارادے کے پڑھنے لگا۔ ایک تو زبان کا سٹائل ہے‘ گبن کی زبان ایسی ہے کہ چسکا آنے لگتا ہے۔اب ارادہ بن چکا ہے کہ پورا پڑھنا ہے۔
خوشی اس بات کی ہے کہ کئی اوربھی ایسی کتب ہیں جن کے بارے میں سوچا تھا کہ اس ڈھلتی عمر میں اب نہیں پڑھی جائیں گی۔ تھامس کارلائل کی فیڈرک دی گریٹ کی زندگی پر لکھی گئی سوانح حیات ایسی کتابوں میں سے ہے۔اس کے بھی پانچ والیم ہیں اور میں ایک ہی پڑھ سکا تھا۔لیکن اب ارادہ ہے کہ جونہی گبن کی کتاب ختم ہوتی ہے تو کارلائل کی شروع کردی جائے۔ سردیوں کی شامیں سامنے آگ جل رہی ہو شاید ساتھ میزپر شب کی ایک دو چیزیں پڑی ہوں اورہم گُم ہوںرومن ایمپائر کی تاریخ اور گبن کے سٹائل میں۔ مجھے ڈر تھا کہ عمر کے اس حصے کو گھن لگ جائے گی لیکن افسردگی اور بددلی کے سائے بکھر گئے ہیں اور وجہ اس کی سردی کا موسم اور گبن کی کتاب ہے۔
اب جو ہونا ہے ہو جائے‘ ہمیں کوئی پروا نہیں۔ لاہور جانا پڑتا ہے ٹی وی شو کرنے کیلئے۔ ہفتے میں ایک دو کالم لکھ مارتے ہیں۔ یہ معمول تو رہے گا لیکن دل پر یہ بوجھ البتہ تھا کہ جو زندگی رہ گئی ہے اُس کے ساتھ کیا کریں گے۔اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ایک انسان اور اُس کی لازوال تصنیف نے مسئلہ حل کردیا ہے۔یعنی جو کتابیں پڑھنے کی آرزو تھی اور اب تک پڑھ نہ سکے اُنہی میں مگن رہیں گے۔ باقی معاملات ِ زندگی چلتے رہیں گے۔یہ آرزو تو اب رہی نہیں کہ کسی دربار میں حاضری دینی ہے یا کسی لیڈر کے ڈرائنگ روم یا مہمان خانے کے باہر کھڑا ہونا ہے۔ایک زمانے میں یہ آرزو تھی‘ مختلف مقامات کے لگاتے تھے پھیرے۔ 1986ء میں بے نظیر بھٹو وطن واپس آئیں تو ہم نے سمجھا تھا کہ ہمارا سیاسی مستقبل پی پی پی سے وابستہ ہوگا۔ اُن کی لاہور آمد ہوئی ہم موجود تھے۔ رات کسی کے ہاں بڑا سا کھانا تھا‘ جہاں سینکڑوں لوگ تھے اُن میں ہم بھی موجود تھے۔ مس بھٹو نے ذرا دور بیٹھے ہماری طرف ہلکا سا اشارہ کیا تو میرے دائیں بائیں کھڑے لوگ رشک کی نظروں سے مجھے دیکھنے لگے۔ قافلۂ متوقعِ انقلاب کراچی گیا تو ہم بھی ساتھ ہو لیے۔ قافلہ راولپنڈی کو آیا تو ہم نے بھی حاضری دی۔سلمان تاثیر میرے دوست تھے‘ میں نے کہا: یار یہ روز کی حاضریاں اچھی نہیں لگتیں۔ کہنے لگا کہ جو تم اب ایڑھیا ں رگڑو گے تمہاری زندگی کے آئندہ پانچ دس سال اسی تگ و دو سے مرتب ہوں گے۔کہنے کا مطلب یہ کہ آرزوئیں تب جوان تھیں۔گبن کی تصنیف تب بھی گھر میں موجود تھی لیکن زندگی میں کچھ اور تمنائیں بھی تھیں۔
1988ء کے انتخابات میں چکوال شہر کی صوبائی سیٹ کیلئے پی پی پی ٹکٹ کی درخواست دی۔ پارٹی کے جنرل سیکرٹری جنرل ٹکا خان ہوا کرتے تھے۔ راولپنڈی میں ہولی فیملی کے قریب اُن کا گھر تھا۔ ایک سے زیادہ بار وہاں حاضری دی‘ اس لیے کہ ٹکٹ پکا ہو جائے۔ جنرل صاحب سے گپ شپ تو رہتی لیکن وہ حتمی بات نہ کرتے۔ آخرکار ٹکٹ سے ہم محروم رہے۔ انتخابات ہوئے تو مس بھٹو وزیراعظم ہو گئیں لیکن پھر اُس در کا چکر کبھی نہ لگایا۔ڈان اخبار میں ہماری کالم نگاری شروع ہو چکی تھی اور اُس دور میں کالم لکھنے کا خوب مزہ آنے لگا۔ کبھی کبھار پریس کانفرنسوں کے حوالے سے وزیراعظم ہاؤس سے دعوت آ جاتی اور مس بھٹو بڑے اچھے انداز سے ملتیں لیکن کہنے کا مطلب یہ کہ ملنے کی ہماری طرف سے پھر درخواست نہ گئی۔ زندگی میں ایک یہ بھی رِیت رہی ہے کہ جس کوچے سے نکلنا پڑا پھر اُسے مڑ کر نہ دیکھانہ دیکھنے کی تمنا پیدا ہوئی۔
زندگی میں کیسے کیسے موڑ آتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی سیڑھی پکڑنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ہاتھ نہ آئی۔ یہ سوچا بھی نہ تھا کہ وہ دن آئے گا جب نون لیگ کی سیڑھی میسر ہوگی۔ہوا یوں کہ ہمارے مہربان جناب الٰہی بخش سومرو کے گھر میں ایک لنچ کی دعوت تھی جس میں میں خود تو مدعو نہ تھا لیکن ہمارے دوست مرحوم اردشیرکاؤس جی ہمراہ لے گئے۔ لنچ میاں نوازشریف کے اعزاز میں تھا۔ علیک سلیک تو تھی ہی لیکن موقع ملا تو میں نے میاں صاحب سے کہا کہ ایک بات آپ سے کرنی ہے۔ کونے میں صوفے پہ بیٹھ گئے اور میں نے کہا کہ آپ کی ایک ہاری ہوئی چکوال میں صوبائی سیٹ ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ تو آپ نے ہمارا مسئلہ ہی حل کر دیا۔ بہرحال 1997ء کے انتخابات آئے تو برادم مشاہد حسین کے حوالے سے پیغام آیا کہ تلہ گنگ سے ایم این اے ٹکٹ چاہئے تو حاضر ہے۔غالباً اتوار کا روز تھا‘ سردیاں شروع ہو چکی تھیں اور مجھے اور میری بیگم کو کشورناہید کے گھر لنچ پر جانا تھا۔سوچ میں پڑ گیا اور کچھ دیر بعد جواب بھیجا کہ تلہ گنگ کے مجھے راستے ہی نہیں پتا‘ قومی اسمبلی کا الیکشن کیسے لڑوں گا‘ صوبائی اسمبلی کا ہی کا فی ہے۔ مہم بڑی کٹھن تھی کیونکہ ہمارے مدِمقابل سیاسی طور پر بڑے مضبوط تھے۔ بہرحال جان لگا دی اور نون لیگ کا ٹکٹ بھی تھا‘ لہٰذا کامیابی نصیب ہو ہی گئی۔ کامیابی تو مل گئی لیکن جلد احساس ہوا کہ غلطی کر بیٹھے ہیں۔ اچھی بھلی صحافت اور کالم نگاری چل رہی تھی اور وہ سب چھوڑ کر ایک صوبائی ممبر بن گئے۔اکتا کر استعفیٰ دے دیا اور کالم نگاری کی طرف واپس لوٹ آئے۔
عملاً نون لیگ چھوڑ چکے تھے لیکن جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو راتوں رات ق لیگ بن گئی اور چکوال میں جو نون لیگ کے بڑے ستون تھے اُنہوں نے ق لیگ جانے میں کوئی دیر نہ لگائی۔ یوں پھر حالات کے تغیر کے پیشِ نظر ہم پھر سے الیکشن لڑنے لگے۔ لیکن کالم نگاری آڑے آنے لگی کیونکہ ایک طرف ہم نون لیگ کے ممبر تھے اور دوسری طرف کالموں میں وہ کچھ کہہ جاتے جو یاردوستوں کو پسند نہ آتا۔یوں دوبارہ ٹکٹ کی درخواست تو دی جو کہ نہیں دینی چاہئے تھی لیکن بجا طور پر ٹکٹ سے محروم رہے۔اور ظاہر ہے پھر پیچھے مڑ کے نہ دیکھا۔
کچھ چیزیں جوانی میں جچتی ہیں اور جب آپ عمر کے ایک حصے میں پہنچتے ہیں تو پھر وہ پرانی تگ ودو آپ کو راس نہیں آتی۔زندگی میں ذاتی المیے ہو جاتے ہیں ہمارے ساتھ بھی ہوئے ہیں لیکن یہ زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔اپنا تو دیکھا ہے اور یہ زندگی بھر کا مشاہدہ ہے کہ سکون دو ہی چیزوں سے آیا ہے‘ موسیقی اور کتابوں سے۔ اب شکر ہے کہ گبن کی طرف لوٹا ہوں۔گاؤں میں جو تھوڑی بہت زمین ہے بنگلے کے قریب ہی ہے۔وہاں گھوم آنا‘ تھوڑی سی باغبانی کرنا اور کتابوں کا سہارا ہونا۔یہ اور بات ہے کہ شام کے سائے ڈھلتے ہیں تو پارسائی دور ہو جاتی ہے۔پھر کبھی راحت ِ شب کا اہتمام ہو جاتا ہے اور یہ بھی ہے کہ نصیب جاگ اُٹھیں تو اچھے دوست بھی مل جاتے ہیں۔زندگی سے اور کیا چاہئے؟(بشکریہ دنیانیوز)