تحریر: شکیل احمد بازغ
مستقل کچھ بھی تو نہیں، نہ نام عہدہ اور نہ مقام ۔۔۔۔ انسان کی زندگی میں کیفیات، حالات، خیالات اور تجربات بدلتے رہتے ہیں۔ وہ جنہیں یقین کی عظیم دولت ملی ہو ان کے لئے نہ خوف ہے اور نہ لب پہ کوئی شکوہ، وہ زندگی کے ہر تلخ و شیریں تجربے کو ایک ساعت کے معمولی سے واقعے سے زیادہ کچھ نہیں مانتے، اسکی وجہ ان کا حالات بدلنے والی بزرگ و برتر ذات پر توکل ہے۔ زبان زد عام یہ فقرہ سنتے ہیں۔ کہ وقت وہ نہیں رہا تو یہ بھی نہیں رہنا۔ حقیقت یہی ہے، کہ بہار کو خزاں اگر ہے تو پھر خزاں کو بہار کا سامنا بھی ہونا ہے۔ انسان کی پریشانی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ وقت مقام اور حالات کو دائمی اور اٹل مان لیتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ سب کچھ بدل سکتا ہے۔ برے دنوں کے بعد اچھے دن بھی آسکتے ہیں۔ اور اچھے دن بھی سدا نہیں رہنے۔ یہ حالات کا تغیر و تبدل زندگی کا حُسن ہے۔ سب ایک جیسا ہو تو پھر زندگانی کیا ہے؟
گورے کو کہتے سُنا تھا” never love your job “،
اگلی سانس میں اس نے یہ بھی بتا دیا کہ ” “No matter, you will be replaced any time
خوف نے جن دلوں کو گھیر رکھا ہے۔ وہ اگلے قدم کیلئے کبھی تیار نہیں ہوتے۔ نا مساعد حالات انکی موت ہے۔ اور اپنا قدم اٹھانے یا ہٹانے یا گرنے سے اتنے خوفزدہ رہتے ہیں کہ انکا دل گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ کیوں نہ ہر لمحہ بلیوں اچھلتا رہے۔ حالانکہ سکرپٹ لوحِ محفوظ ہے۔ انسان کی کامیابی اور اطمینان کا پہلا اور آخری حربہ یہی ہے کہ وہ سود و زیاں ، موت و حیات جیسے ہر خوف سے باہر نکل جائے، یہ اسکی حقیقی آزادی ہوگی۔ فنانشل فریڈم سے بڑی اِنر فریڈم ہے۔ حوصلہ ملتا ہے ان لوگوں سے مل کر جن کیلئے کوئی مادی نقصان یا حالات میں یکسر تبدیلی معمولی سی بات ہوتی ہے۔ ان کے چہرے پشیمانی، اضطراب جیسی کیفیات سے دوچار ہونے کے بجائے ہمیشہ طمانیت کی مثال بنے رہتے ہیں۔ ایک دوست کی جاب ختم ہوئی تو میں افسوس کرنے اور دلجوئی کرنے اس کے پاس گیا۔ میں نے کہا کہ بھئی بڑا افسوس ہوا۔ وہ یکبارگی میں بولا۔ میرا کوئی نہیں مرا۔ زندہ ہوں ایمان کیساتھ، جو میرا ہے وہ لے کے مروں گا۔ میرا جو نہیں اس کے پیچھے بھاگتا نہیں، کوئی مجھ سے کچھ چھین نہیں سکتا اور کوئی مجھے نواز نہیں سکتا۔ ہاں یہ سب اللہ کی رضا سے ممکن ہوتا ہے۔ اور میں اس کی رضا پہ راضی ہوں ، وہ جس حال میں رکھے۔ نواز شریف جب مجھے کیوں نکالا کی گردان دہرا رہے تھے۔ تب عمران خان کا طوطی بول رہا تھا۔ ہمارے پاس تو کھونے کو ان جتنا نہیں اگر عمران خان نواز شریف زرداری اور دیگر سیاستدانوں سے اتنا کچھ چھن جاتا ہے اقتدار کے حریص سے کرسی چھن جانا چھوٹا واقعہ نہیں، یہ بڑا دلگیر معاملہ ہوتا ہے۔ اور تخت سے لبِ تختہ تک پہنچ کر بھی اگر وہ زندہ رہتے ہیں لڑتے رہتے ہیں تو ہم ایسے بوریا نشیں کیوں مغموم رہیں۔ سب کے لئے ہر جگہ موزوں نہیں ہوتی، سب نے مقام بدلنا ہوتا ہے۔ جلد یا بدیر تو یہ دل پہ بار گراں کیوں؟
بقول ناصر کاظمی “غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی”
اس دوست کے ان چند فقرات نے میرے اندر یقین کی مضبوط عمارت تعمیر کر دی۔ مجھے زندگی کے ہر شعبے میں بے خوفی کا مقام حاصل رہا، جس کا فائدہ یہ ہوا کہ میں اپنے کام کاج میں مستغرق رہا، نہ سیاست سیکھی نہ کی، نہ بندوں کی پوجا پاٹ کی نہ انکے آگے پیچھے پھرا، اور نہ کسی نقصان پر کسی سے گلہ شکوہ کیا، کہ واقعی یہ حالات بدلنے والا بدلے گا۔ لوگوں کو کسی وجہ سے قصووار ٹھہرا کر دل میں رنجیدگی کیوں پالیں۔ حُبِ مکانی سے مقام کوئی راہ میں جچا ہی نہیں تک کا سفر انسان کے اندر کی مضبوطی کی جانب سفر ہے۔ لوگ عشق میں قیمہ ہو جانے کے بعد جب اٹھ کر جیتے ہیں تو نا قابل تسخیر ہو جاتے ہیں۔ ہماری زندگی کسی ایک مقام پر ٹھہرنے کیلئے نہیں بلکہ یہ مد و جزر ہمیں وقتی موت سے ابدیت کی جانب لے جانے کیلئے ہیں۔ لہٰذا ٹھنڈ رکھیں، لوگوں کو گلہ نہ کریں، توکل اللہ پر رکھیں، رازق وہی ہے بندہ کسی کو ایک تنکا بھی نہیں دے سکتا اور نہ چھین سکتا ہے۔ خود کو مضبوط رکھیں، دل گرفتگی مایوسی ہے گریں وہ جن کا وارث کوئی نہیں، جبکہ ہر شے پر قادر اور ہرنفس کا مالک خود اللہ ہے۔ جو بہترین رازق عزت دینے والا اور مسبب الاسباب ہے۔ جو جا چکے ان کا بھی بھلا، جو موجود ہیں ان کا بھی بھلا ہو۔واللہ اعلم(شکیل بازغ)۔۔