تحریر: احسان کوہاٹی۔۔
فہیم پیج میکر تھا، ایکسپریس نیوز میں نوکری لگی تو خوش ہو گیا کہ بڑے سیٹھ کا گروپ ہے تنخواہ وقت پر ملے گی ملازمت بھی قدرے محفوظ ریے گی لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ سیٹھ چھوٹا ہو یا بڑا سیٹھ سیٹھ ہوتا ہے وہ دس لاکھ کی خیرات کر سکتا ہے دس روپے کا خسارہ برداشت نہیں کرسکتا، بدقسمتی سے فہیم خیراتیوں کی فہرست کے بجائے خسارے والی فہرست میں آگیا لیبر قوانین، سوشل سیکیورٹی، انسانی حقوق ….سب کو طہارت کے طور پر استعمال ہونے والے ٹشو پیپر کی طرح پرے اچھال کر فہیم کو نوکری سے نکال باہر کیا گیا، وہ فہیم جو نصف شب تک جاگ جاگ کر انسانی حقوق، غریبوں کے حقوق، مساوات اور جانے کس کس قسم کی لفاظی سے لتھڑی خبروں سے اخبار تیار کرتا تھا خاموشی سے باہر کردیا گیا فہیم سر جھکائے آگیا کہ ایوانوں میں پہنچ رکھنے والے سیٹھوں سے کیا کہتا… وہ صحافتی تنظیموں کے پاس بھی نہ گیا کہ اس سے پہلے سینکڑوں فہمیوں کے نکالنے پر انہوں نے کیا کر لیا تھا وہ گھر کی گاڑی کھینچنے کے لئے مشقت کرنے لگا کہ پیچھے چھ بچے تھے بیوی تھی وہ کرائے پر رکشہ لے کر چلانے لگا لیکن بات نہ بنی بچوں کی چھوٹی چھوٹی ضروریات اسکے لئے پہاڑ بنتی جارہی تھیں اس نے یہاں وہاں سے کچھ قرض لے رکھا تھا اسکی واپسی الگ امتحان تھا، فہیم نہ چاہتے ہوئے بھی زندگی کے اس حبس زدہ کمرہ امتحان میں بیٹھنے پر مجبور تھا جہاں سوال بہت سخت تھے اس سے حل نہ ہو رہے تھے وہ جیتے جی مر رہا تھا روز جیتا اور روز مرتا اس نے ایک ہی بار مرنا بہتر جانا اور گلے میں پھندا ڈال کر جھول گیا…
فہیم مر گیا سنا ہے اس پر ساٹھ ہزار روپے کا قرضہ تھا….. کاش کہ صرف یہ 60 ہزار ہی ہوتے وہ کبھی نہ مرتا لیکن اس کے پاس کوئی امید نہ بچی تھی وہ رکشہ چلا چلا کر زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہا تھا رات گھر آتا تو ہاتھ خالی اور بچوں کے لئے چاکلیٹ کے بجائے بہلاوے ہوتے زندگی اتنی کڑوی کبھی نہ تھی فہیم نے فیصلہ کیا اور پنکھے سے جھول گیا سال بھر پہلے بول نیوز کے پروڈیوسر معاذ نے بھی ایسے ہی زندگی سے آزادی لی تھی
پاکستان کی صحافت اس وقت ملک کی بدترین استحصالی انڈسٹری بن چکی ہے جہاں مالکان کی لاٹھی اٹھائے اسے ہانکے جارہے ہیں اور سب خاموش ہیں کہ ڈر لگتا ہے!!(احسان کوہاٹی)