تحریر: خرم علی عمران
کتنا مشہور و معروف نعرہ ہے یہ کتنے زمانوں نے لگ رہا ہے اور ہمارے ملک میں تو ایسے اسیے مخلص کارکنان ہیں جن کے گویا حلق پھٹ گئےنسل در نسل یہ نعرہ لگاتے لگاتے مگر حالت نہ بدلی بے چاروں کی اکثریت کی ہاں جن کے لئے لگاتے تھے ان کے دن ضرور پھر گئے۔ یہ قائدین و لیڈران ویسے ہی بڑی عجیب ہی کرشماتی سی مخلوق ہیں ایک چھوٹی سی تنظیم کے راہ نما ، کسی ٹیم کے کیپٹن، کسی کمپنی کے سی ای اوسے لیکر بڑی سے بڑی سیاسی و سماجی تحریک اور جماعت کے قائدین ظاہر ہے کہ عام انسان سے کچھ نہ کچھ سوا صلاحیتیں تو رکھتے ہی ہیں جبھی تو آگے بڑھ جاتے اور قائد بن جاتے ہیں۔ اگر یہ لیڈران مخلص ہوں اور واقعتا ملک ،قوم ،کارکنان اور عوام سے محبت کرنے والے اور انکی فکر کرنے والے ہوں تو بلاشبہ وہ ایک عظیم رحمت اور انعام بن جاتے ہیں اپنی تحریک،اپنے ادارے، اپنی قوم اور ملک کے لئے، اور پھر محمد علی جناح کو قائد اعظم، مائوزے تنگ کو فادر آف نیشن اور ایسے ہی بے شمار عبقری شخصیات کو محبت پھرے اور پر از عظمت خطابات کے ساتھ تاریخ میں باعزت اور زندہء جاوید مقام مل جاتا ہے۔ ایسے ہی قائدین اور ان کی تحاریک کے لئے زندہ باد مردہ باد کے نعرے بھی تاریخ بن جاتے ہیں اور ایسی عظیم شخصیات کی ذرا سی صحبت ،ذرا سا لمس پالینے والے بھی گویالیجنڈز بن جاتے ہیں۔
اسکے بلعکس اگر لیڈر دو نمبر ہو انجینئرڈ ہو بنایا گیا لیڈر ہو جیسا کہ اس فن کے ماہرین ساری دنیا میں پائے جاتے ہیں جو اپنے اپنے مقصد کے تحت لیڈوں کو تخلیق کرتے ہیں اور پھر ان کی باقاعدہ کردار سازی کی جاتی ہے۔مختلف اسباب اور وسائل کو استعمال کیا جاتا ہے اور ایک عام بندے میں اتنی پھونک بھر دی جاتی ہے کہ وہ خود کو خدا کا خاص بندہ سمجھنے لگتا ہے اور قطعا بھول جاتا ہے کہ اسے بھی کبھی زوال ہوگا۔وہ سمجھتا ہے کہ ہمیشہ ایسے ہی ہرا ہی ہرا رہے گا اور دنیا اس کے اشارے پر ناچتی رہے گی۔لیکن اس طرح کے دو نمبر لیڈر ٹشو پیپر کی طرح ہوتے ہیں اور جب وہ خوب استعمال ہوجاتے ہیں اور مزید کام کے نہیں رہتے تو بڑا ہی عبرتناک اور حسرت انگیز چہرہ بنائے عبرت کی تصویر نظر آتے ہیں اور انہیں استعمال کرنے والی قوتیں نیا لیڈر تیار کرنے میں مصروف ہوجاتی ہیں۔ماضی بعید و قریب میں ایسی کئی مثالیں ہیں جن سے اہل نظر خوب واقف ہیں۔
اب لیڈر اگر واقعتا سچا رہبر ہے،ایک حقیقی انقلابی قائد ہے تو وہ کبھی بھی سسٹم کے تابع ہوکر نہیں چلتا وہ یا تو سسٹم کو اپنے تابع کرلیتا ہے یا پھر جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے اور نیا نظام بناتا ہے جو اس کے عوام اور قوم کی فلاح و بہبود کا ضامن ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف ایسا نظام بناتا ہے بلکہ ایسے مخلص تربیت یافتہ کارکنان بھی تیار کرتا جاتا ہے جو اس کے بعد بھی اس نظام کو چلا سکیں۔ دو نمبر لیڈر صرف اپنی ذات کو اور اپنے اور اپنے چند متعلقین کے فائدوں پر نظر رکھتا ہے ۔باتیں کرنے میں،اظہار خیال اور نقطہء نظر پیش کرنے میں وہ ایک بہت بڑا اسٹیٹس مین نظر آتا ہے اور قوم کے درد میں آنسو بہاناے اورعوام کی محبت میں روہانسو شکل بنانے میں اس کی اداکاری دلیپ کمار کی ٹریجڈی اداکاری کو مات کرتی نظر آتی ہے لیکن یہ بس اداکاری ہی ہوتی ہے۔ تو ایسے لیڈر جلد تیار اور ذائقے دار والے فاسٹ فوڈ کی طرح ہوتے ہیں جو وقتی مزہ تو بہت دیتا ہے لیکن بے شمار بیماریاں بھی پیدا کردیتا ہے اسی لئے فاسٹ فوڈ کو جنک فوڈ بھی کہا جاتا ہے۔ تو جنک فوڈ کی طرح کے جنک قائدین کے لئے زندہ باد مردہ باد کےنعرے لگانے والے کارکنان اکثر و بیشتر کچھ عرصے بعد فاسٹ فوڈ زیادہ استعمال کرنے والوں کی طرح کف افسوس ملتے اور ہائے ہائے کرتے نظر آتے ہیں اور عمر زیادہ ہوجانے پر لوگوں کی سیاست کی بے ثباتی پر لیکچر دیتے اور مایوس نظر اتے ہیں۔ تو بھائی اب تو ہوش کے ناخن لو اس زندہ باد مردہ باد کی طلسمی دنیا سے نکلو اور یقین رکھو کہ اگر تمھارے مقدرمیں کوئی ٹرو لیڈر ایک واقعتا فطری حقیقی قائد لکھا ہے تو وہ ضرور آئے گا پھر خوب نعرے لگا لینا فی الحال تو بہروپیوں پر ہی گزرا کرو۔
جیسے وہ مشہور لطیفہ نما حکایت ہے جو دو نمبر لیڈر کی وضاحت کرتی ہے اور جو پہلے بھی ایک کالم میں لکھ چکا ہوں نا کہ ایک جنگل میں شیر کے مر جانے کے بعد سلیکشن کمیٹی نے زبردست کنونسنگ اور ناگزیر وجوہات کی بنا پر ایک پھر تیلےبندر کو سربراہِ جنگل بنادیا۔ اب تو بندر کی ٹور ہی الگ تھی۔ بڑا مغرور بنا پھرتا تھا کسی کو خاطر میں ہی نہیں لاتا تھا۔پھر یوں ہوا کہ برابر والے جنگل کی حکومت نے جس کا سربراہ ایک ہیبت ناک شیر تھا جب یہ سنا کہ شیر مرگیا اور بندر بادشاہ بن گیا ہے تو ان کی رال ٹپک پڑی اور وہ جنگل پر قبضے کے ارادے سےفوجیں لے لے کر نکل پڑے۔ مخبروں نے بندر بادشاہ کو یہ خبر سنائی کہ حضور دشمن چل پڑا ہے کچھ تیاری فرمائیں۔ بندر ہوں ہاں کرکے جیسے مراقبے میں گم ہوکر گہری سوچوں میں چلا گیا۔سارے جانور با ادب کھڑے رہے کہ بادشاہ سلامت کچھ کراماتی حل نکالیں گے۔ جب بہت دیر گزر گئی تو بندر بادشاہ کو ڈرتے ڈرتے کہا گیا کہ حضور کچھ کیجئے نا۔ وہ جھرجھری لے کر اٹھا ایک نعرہء مستانہ لگایا اور ایک درخت پر چڑھ کر زبردست چھلانگ لگائی اور دوسرے درخت پر نظر آیا اور وہاں سے تیسرے اور پھر پہلے،بلاشبہ بندر بادشاہ بجلی کی تیزی سے ایسی چھلانگیں لگا رہے تھے کہ نظر نہیں ٹہرتی تھی اور درباری بھی حلق پھاڑ پھاڑ کر زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ جب بہت دیر تک یہ شغل جاری رہا تو تنگ آکر کسی سینئرجنگل واسی رکن نے چیخ کر کہا عالی جاہ خطرہ سر پر آگیا ہے،کیا کررہے ہیں؟ کچھ کیجئے۔ بندر بادشاہ نے ہانپتے ہوےئے جواب دیا کہ اتنی بھاگ دوڑ تو کر رہا ہوں اور کیا کروں۔ اور چھلانگیں مارتا ہوا دور سے دور نظر سے اوجھل ہوتا گیا اور بلا آخر دوسرے جنگل میں جاکر سیاسی پناہ لے لی۔ اس پہلے جنگل کا کیا ہوا اس بارے میں کتابیں خاموش ہیں۔(خرم علی عمران)