تحریر:حامد ولی
کسی کرائم رپورٹر کا ذکر کیا جائے تو پہلا خیال یہی آتا ہے کہ کوئی احساس سے عاری شخص ہوگاکیونکہ جس طرح کے دلخراش واقعات سے وہ شب و روز نبردآزما ہوتا ہے اس کے بعد اس کے لیے یہ ضروری ہوجاتا ہوگا کہ وہ اپنے پیشہ وارانہ امور کی بجاآوری کے لیے جذبات کو ایک طرف رکھ دے اور بے حسی کی چادر تانے دنیا کے دکھوں سے بے گانہ ہوجائے ۔۔۔۔
اسے لوگ استاد کہتے ہیں ۔۔۔پہلے پہل اسے کراچی پریس کلب کی راہداریوں میں دیکھا تو پہلا تاثر یہی تھا کہ اس کی شخصیت رعب و دبدبے سے بھرپور ہے اور یقینی طور پر یہ ایک مشکل شخص ہوگا ۔۔۔جونیئر ہونے کی وجہ سے میرے لیے یہ کافی تھا کہ کرائم رپورٹرز کی دنیا میں افسانوی کردار کے حامل اس شخص کی زیارت ہی مجھے حاصل ہوتی رہے اور میں لوگوں کو بتاسکوں میں نے ”اے ایچ خانزادہ ” کو دیکھا ہے ۔۔۔
میں نے جب پہلی مرتبہ اے یچ خانزادہ سے مصافحہ کیا اور جس شفقت کے ساتھ وہ میرے ساتھ پیش آئے تو مجھے بے ساختہ ڈاکٹربشیربدر یاد آگئے جنہوںنے کہا تھا کہ !
پتھر مجھے سمجھتا ہے میرا چاہنے والا
میں موم ہوں اس نے مجھے چھو کے نہیں دیکھا
اس دن مجھے احساس ہوا کہ بظاہر بارعب شخصیت رکھنے والا اے ایچ خانزادہ سرتاپا محبت ہے ۔جونیئر ز کے لیے ایک شفیق استاد ،ہم عصروں کے لیے ایک دیرینہ دوست اور سینئر ز کے لیے وہ ایک مودب سامع ہے ۔۔۔
وہ ایک شاعر بھی ہے ۔۔۔آپ حساس ہوں ،اپنے اردگرد ہونے والی ناانصافیوں آپ پریشان کرتی ہوں۔۔۔۔لوگوں کی بے بسی آپ کو اپنی بے بسی لگے تو پھر یہ کیفیات اظہار چاہتی ہیں ۔۔۔۔وہ قلم کا آدمی ہے ۔۔۔وہ تخلیق کار ہے ۔۔تو اس نے یہی راستہ چنا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نے ان تلخیوں کو بالکل مختلف انداز میں پیش کیا اور اس کے لیے مزاح کا سہارا لیا ۔۔۔۔۔اس کی شاعری سننے اور پڑھنے والے اس کے الفاظ کی کاٹ جانتے ہیں ۔۔۔۔وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ قہقہوں سے لبریز یہ الفاظ دراصل ہمارے معاشرے کا تازیانہ ہیں ۔
میرا آج بھی اس سے تعلق ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک مرید کا کسی مرشد سے ہوتا ہے ۔۔۔۔اس کی محبتیں آپ کو اپنا اسیر کرلیتی ہیں ۔۔۔۔وہ آج شعبہ صحافت کے لیے ایک استاد ہی نہیں وہ ستارہ ہے کہ جس کا تعاقب کرتے ہوئے آپ اپنی اس منزل تک پہنچ سکتے ہیں جس کا آپ نے تعین کیا ہوا ہے ۔۔۔۔شاید میر احمد نوید نے اے ایچ خانزادہ کے لیے کہا تھا کہ !
سینے سے میرے زہر کو اترنے نہیں دیتے
زندہ رہیں وہ لوگ جو مرنے نہیں دیتے