بلاگ: احسن رضا
آج سے چند برس قبل صحافت کی دنیا میں اخبارات ہوا کرتے تھے مگر پھر الیکٹرانک میڈیا کا دور آیا اور چینلز کی دوڑ شروع ہوگئی اور روز بروز اضافہ ہوتا ہی جا رہا ہے مگر سوائے بڑے شہروں کے ضلعی سطح پر صحافیوں کو سہولیات تو دور کی بات تنخواہیں تک دینا توہین سمجھا جاتا ہے خاص طور پر جنوبی پنجاب کا نام آئے تو الٹا صحافیوں سے پیسے لیے جاتے ہیں 10 ہزار سے 3 لاکھ تک ریٹ چلا جاتا ہے ۔ اور اس وجہ سے قبضہ مافیا سرکاری ریٹائرڈ کرپٹ افسران صحافت کا لبادہ اڑھ رہے ہیں ۔ اب نئی آنے والی حکومت نے اچھا اقدام اٹھایا ہے اور صحت انشورنس کارڈز شروع کیے ہیں اور تمام نمائندگان کی لسٹیں طلب کر لی ہیں اور ساتھ ہی چینلز کے اشتہارات بھی نمائندگان کی تنخواہ سے مشروط کرنے کا سوچا جا رہا ہے ۔ جو کہ اچھا اقدام اور امید کی کرن کی صورت اختیار کر گیا ہے اس معاملے اور مالکان کی جانب سے میڈیا ورکر کے استحصال میں علی عمران جونیئر کی ویب سائٹ ایک مسیحا کے مترادف ہے اور اسی کے توسط سے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ چھوٹے علاقوں کے نمائندگان بارے بھی مالکان کو کہا جائے اور ضلعی سطح پر صحافیوں کو تنخواہوں سمیت سہولیات دی جائیں ساتھ ہی نان پروفیشنل لوگوں کو نکالا جائے۔۔(احسن رضا)