pemra ki pabandi challenge karne ka aelan

زیادہ ترصحافتی یونینوں کے پیچھے مالکان بیٹھے ہیں، فواد چودھری۔۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پا کستان میڈیا ریگو لیٹری اتھارٹی بل کی دو شقوں پر بات نہیں ہوگی باقی بل پر بات چیت کیلئے تیار ہیں ۔ انہوں نے یہ بات گزشتہ روز وفاقی کا بینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہی۔ انہوں نے بتایا کہ کابینہ کو پا کستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی بل کے ڈرافٹ پر پریزنٹیشن دی گئی ۔ وزیر اعظم نے ہدایت کی ہے کہ اس بل پر اسٹیک ہولڈرز سے مزید مشاورت کی جا ئےاور مشاورت کے عمل کو وسیع کیا جا ئے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ میڈیا ورکر زکو ملازمت کے کنٹریکٹ کی انفورسمنٹ کیلئے ٹریبونل جانے کے حق اور فیک نیوز کے معاملہ پر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ان دو کے علاوہ ہمیں بتائیں کہ بل میں کیا تبدیلیاں کرنی ہیں ہم تیار ہیں ۔ یہ کہنا کہ میڈیا ورکرز اپنی ملازمت کے تحفظ کیلئے ٹر یبو نل نہ جائیں یہ درست نہیں ۔ حکومت کو میڈیا ورکرز کے ساتھ کھڑ اہونا چاہئے۔ پی ایف یو جے نے ا س بل کی حمایت کی ہے۔ یہاں تو مالکان نے اپنی تنظیمیں بنا لی ہیں ۔ پی ایف یوجے اس کے خلاف مسابقتی کمیشن میں جارہی ہے۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ زیادہ تر یونین کے پیچھے مالکان بیٹھے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جو فیک خبر میڈیا چلائے گا اس کا ذمہ دار وہ ادارہ ہوگا ۔ اسے ایک روپے سے 25کروڑ روپے تک جر مانہ ہوسکے گا۔ میڈیا کے اداروں کیلئے یہ کوئی بڑی رقم نہیں ہے۔ جو فیک نیوز یوٹیوب چینل وغیرہ پر چلے گی اس کی ذمہ داری انفرادی ہوگی ۔ ان پر جرمانہ ایک روپے سے دس کروڑ روپے تک ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ضرو ری نہیں کہ آخری حد والی رقم کا ہی جرمانہ عائد ہو۔ ادھر اے پی پی کے مطابق گزشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین اور وزیر مملکت فرخ حبیب سے ایک وفد نے ملاقات کی اور واضح کیا کہ تمام صحافتی تنظیموں نے اس مجوزہ بل کو مسترد نہیں کیا، پاکستان تحریک انصاف کی واحد حکومت ہے جس نے میڈیا ورکرز کے حقوق کے تحفظ کے لئے قدم اٹھایا۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے فواد حسین نے کہا کہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے بارے میں دو اعتراضات ہیں کہ سوشل میڈیا اور اخبار کے لئے علیحدہ علیحدہ اتھارٹیز ہونی چاہئیں۔ وہ گارنٹی فراہم کر دیں کہ سوشل میڈیا کی نیوز اخبار میں اور اخبار کی نیوز سوشل میڈیا پر شائع نہیں ہوگی، اتھارٹی کے قیام کے لئے ہم نے پانچ ممالک کے قوانین کو اسٹڈی کیا ہے، اس اتھارٹی میں میڈیا کمپلینٹس کمیشن اور میڈیا ٹربیونل دو ادارے ہوں گے، ان پر حکومت کا کنٹرول نہیں ہونا چاہئے۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں