electronic media mein samajhdaari aachuki hai

ضیاء کے زمانے کی سوچ پنپ رہی ہے، ایازامیر۔۔

سینئر صحافی اور کالم نویس ایازامیر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے بیشک کہا ہو کہ انتخابات ضروری ہیں اور الیکشن کمیشن نے تاریخ بھی دے دی‘ لیکن نتائج تو سپریم کورٹ نے نہیں دینے‘ نتائج تو پرچیوں سے ملنے ہیں اور پرچیوں کا خوف نہ صرف ذہنوں پر طاری ہے بلکہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ آئین حکمران ہوتا پھر تو اور بات تھی لیکن اس وقت آئین کی حکمرانی کی حقیقت کسی افسانے سے زیادہ نہیں‘ لہٰذا سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دلوں کے دھڑکن کی یہی کیفیت رہی توانتخابات پرسوالیہ نشان پڑا رہے گا۔دنیانیوز میں اپنے تازہ کالم میں لکھتے  ہوئے وہ کہتے ہیں کہ۔۔پاکستان کیلئے یہ کوئی نیا پرابلم نہیں۔ ضیا الحق کے سامنے بھی یہی مسئلہ تھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کا تختہ اُلٹ تو گیا تھا اور سینے پر ہاتھ رکھ کر انتخابات کا اعلان بھی ہو گیا تھا کہ نوے دن میں ضرور ہوں گے لیکن جو تختہ اُلٹا تھا اُسی کا ڈر تھا کہ انتخابات کے نتیجے میں پھر سے قائم نہ ہو جائے۔اسکرپٹ تو یہ تھا کہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعدبھٹو کی مقبولیت پہلے کی طرح نہ رہے گی‘ لیکن جلد ہی واضح ہو گیا کہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعدمقبولیت کا گراف اوپر جاچکا ہے۔بھٹو مخالف پارٹیاں ڈر گئیں اورجن کے ہاتھوں میں اقتدار تھا اُن کے دل بھی لرزنے لگے کہ عوام کے ہاتھوں ووٹ ڈالنے کا موقع آیا توپتا نہیں کون سا طوفان برپا ہو جائے گا۔ اسی لئے عذر پیش کئے جانے لگے‘ پہلے آوازیں اُٹھیں کہ احتساب ہونا چاہئے اور پھر کہا گیا کہ نفاذِ اسلام بھی ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں کون کون سے مذاق نہیں ہوئے ‘ یہ بھی ایک ایسا ہی مذاق تھا۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ ۔ آج بھی یہی صورتحال ہے کہ پی ڈی ایم کی جماعتیں انتخابات کے تصور سے لرز رہی ہیں۔معتوب جماعت کے لیڈر اندر ہیں یا رُوپوش ہیں لیکن پھر بھی انتخابات کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور امیدواروں کا چناؤ کسی نہ کسی طریقے سے طے ہورہا ہے۔عوام سہمے اوردبکے ہوئے ہیں لیکن ختم نہیں ہوئے۔موقعے کے انتظار میں ہیں ۔معتوب جماعت تو مجبوریوں کا شکار ہے لیکن (ن) لیگ کس مجبوری میں گرفتار ہے؟ وہ تو کھل کے میدان میں آسکتی ہے۔ لیکن پرنٹنگ پریس بیچارے بیکار پڑے ہیں۔ پوسٹر نہیں چھپ رہے ‘ بینر آویزاں نہیں ہو رہے۔ کہنے کو تو الیکشن کا موسم ہے لیکن دیکھا جائے تو شہروں اور دیہات میں الیکشن کے حوالے سے ہُو کا عالم ہے۔ایازامیر کے مطابق  ادھراُدھر سے آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ ملکی صورتحال میں کچھ استحکام پیدا ہوچکا ہے‘ معیشت بھی سنبھلنے لگی ہے‘ باہر سے انویسٹمنٹ نہ بھی آ رہی ہو لیکن اُس کا چرچا بہت ہو رہا ہے۔ ایسے میں فنکار لوگوں کی کمی نہ ہوگی جو حکمرانوں کے کانوں میں یہ کھسرپھسر کریں کہ حضور اب تو حالات ٹھیک ہونے جا رہے ہیں اورآپ کو الیکشنوں کی پڑی ہوئی ہے۔انتخابات ہوئے توپھر سے ملک میں افراتفری پھیلے گی اور جن شرپسند عناصر سے سختی سے نمٹا گیا ہے اُن کو پھر فری ہینڈ مل جائے گا۔لہٰذا انتخابات کا تصورذہن سے نکالیں ‘ حالات صحیح طور پر سنبھلیں گے تو انتخابات بھی ہو جائیں گے۔ یعنی سوچ وہی پنپ رہی ہے جو ضیا الحق کے زمانے میں کار فرما تھی۔(ن) لیگی رہنماؤں کو یہ بھی پتا ہے کہ اپنے انتخابی حلقوں میں بھی اُنہیں خطرات کا سامنا رہے گا۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں