تحریر۔حماد رضا
ہر سال کی طرح اس سال بھی دس اکتوبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں ذہنی امراض سے آگاہی کا دن منایا جا رہا ہے پاکستان جیسے ترقی پذیر اور بے تحاشا آبادی والے ملک کو جہاں اور بہت سے مسائل درپیش ہیں وہیں اس ملک کا ایک پیچیدہ مسئلہ ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار ہونا بھی ہے ایک نہایت محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں پچاس ملین کی آبادی مختلف قسم کے نفسیاتی اور ذہنی عارضوں میں مبتلا ہے اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں خود کشی کے رحجان میں حالیہ سالوں میں نہایت تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ایک معروف اخبار کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انانوے فیصد خود کشی کے واقعات کے پیچھے اصل محرک کسی نا کسی نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہونا بتایا جاتا ہے بنیادی طور پر ان تمام مسائل کے پیچھے اہم وجہ مناسب آگہی کا نا ہونا اور شدید تعلیمی فقدان ہے جس کی وجہ سے بہت سے لوگ یہ جان ہی نہیں پاتے کے وہ کسی نفسیاتی عارضے کا شکارہو چکے ہیں ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں آج بھی کتے کے کاٹے کا علاج ہلدی اور مرچیں لگا کر کر دیا جاتا ہے جہاں شیزو فرینیا کے مریضوں کو کسی ماہرِ نفسیات کے پاس لے کے جانے کی بجاۓ پیروں اور فقیروں کی درگاہوں کے چکر لگواۓ جاتے ہیں اس قسم کی جہلا والی سوچ بھی ملک میں نفسیاتی امراض میں مسلسل اضافے کا سبب بن رہی ہے جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کے مرض کنٹرول ہونے کی بجاۓ اور بھی بگڑ جاتا ہے اوراس پر ستم ظریفی دیکھیے کے جو لوگ اس بارے میں مناسب شعور رکھتے ہیں وہ بھی کسی ماہرِ نفسیات کے پاس جانے سے کتراتےہیں کہ کہیں لوگ انھیں پاگل نا سمجھنے لگ جائیں پاکستان میں ذہنی صحت کی کارکردگی کے حوالے سے حکومتی اقدامات آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں ہمارے ملک میں صحت کی کارکردگی کے حوالے سے حکومت پر ہمیشہ سوالیہ نشان رہا ہے جس تیزی سے پاکستان میں ذہنی امراض میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے حکومتِ وقت کو ملکی سطح پر ذہنی صحت کے حوالے سےبھر پور مہم چلانے کی ضرورت ہے تا کہ آگاہی کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جا سکے یہ بالکل اسی طرز کی مہم ہونی چاہیے جیسی ایک وقت میں ہیپاٹائٹس اور ایچ آئ وی کے خلاف الیکٹرانک میڈیا پر شروع کی گئ تھی لیکن افسوس یہاں حکومت کی ترجیحات میں ایسی چیزوں کو سرے سے شامل ہی نہیں کیا جاتا دس اکتوبر والے دن کچھ خبریں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کی زینت ضرور بنتی ہیں اور چند ایک تقریبات اور ریلیوں کا اہتمام بھی کر دیا جاتا ہے لیکن دیہی سطح پر مسائل جوں کے توں برقرار رہتے ہیں جب تک نچلی اور دیہی سطح پر آگاہی نہیں پہنچائ جاۓ گی لوگوں کو نفسیاتی عارضوں سے متعلق شعور کے دائرے میں لانا نا ممکن ہو گا ماہرین کی جانب سے تو یہ پیش گوئ بھی کی جا رہی ہے کہ دو ہزار تیس تک ملک میں زیادہ تر اموات کی اہم وجہ ذہنی بیماریاں ہی ہوں گی تو کیا اب بھی حالات الارمنگ نہیں ہیں حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور ادویات مہنگی کرنے کی بجاۓ حکومت عوام الناس کی ذہنی اور جسمانی صحت کو یقینی بناۓ تا کہ ذہنی صحت کے حوالے سے مناۓ جانے والے دن کا حقیقی حق ادا ہو سکے۔(حماد رضا)۔۔