تحریر: ارشادبھٹی
آج سنا جارہا کہ یہ الیکشن نہیں سلیکشن ،دھاندلی نہیں دھاندلا ،فارم 45نہ دیئے گئے ،ووٹوں کی گنتی کے وقت پولنگ ایجنٹس کو باہر نکال دیا گیا ،سنا یہ جارہا کہ الیکشن چرا لئے گئے ،جھرلو پھر گیا اورسنا یہ جارہا سب کچھ عمران خان کو وزیراعظم بنانے کیلئے کیا گیا ، طرح طرح کی کہانیاں ،سازشی تھیوریاں، بھانت بھانت کی بولیاں ،افواہوں اور مفروضوں پر جنگیں لڑی جارہیں ، پہلی بات تو یہ کہ ہماری سیاست ایسی روندو کہ 2002میں انتخابات ہوئے ،کہا گیا دھاندلی ہوئی ،2008کے انتخابات کے بعد سننے کو ملا ،جھرلو پھر گیا، 2013کے انتخابات میں تو سوائے ن لیگ کی سب جماعتیں دھاندلی دھاندلی پکار اٹھیں اور پھر 4حلقے نہ کھولنے پر سوا سو دنوں کے دھرنے ،دھاندلی پر 400 پٹیشنز ،دھاندلی کمیشن کا بننا ، سوا سو بے ضابطگیوں کا سامنے آنا ، لیگی حکومت کو کلین چٹ مل جانا ، یہ ایک علیحدہ کہانی، مگر بتانا یہ کہ 1970کے بعد 10 الیکشن ہوئے اور اپنی روندو سیاست ایسی کہ ایک آدھ کے علاوہ سب انتخابات کو دھاندلی زدہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا ، اب آجائیں 2018کے انتخابات پر، 72ہزار پولنگ اسٹیشنوں کا ریکارڈ رکھنے والا ’’فافن‘‘ کہہ رہا دھاندلی نہیں ہوئی ، یورپی یونین سمیت 30ہزار مبصرین انتخابات پر مطمئن ، 50سے زیادہ حلقوں کی دوبارہ گنتی بھی ہوچکی ،عمران خان کہہ چکے میں سب حلقے کھولنے پر بھی تیار، ابھی تک ایک پولنگ ایجنٹ ثبوتوں سمیت میڈیا کے سامنے نہ آیا ،حالانکہ آج کل تو حال یہ کہ گدھے کو مارا پیٹا گیا ،میڈیا خاص طور پر سوشل میڈیا پر کہرام برپا ہو گیا، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دھاندلی کے ثبوت سوشل میڈیا پر نہ آتے یا پولنگ ایجنٹوں کو پذیرائی نہ ملتی مگر دھاندلی کے ثبوتوں کے حوالے سے خاموشی ، الیکشن کمیشن میں گنتی کی چند شکایتیں ،الیکشن ٹربیونلز میں دویا تین درخواستیں، باقی سب لڑائیاں ،اخباروں ،ٹی وی اسکرینوں پر ، سب الزامات ،دھمکیاں میڈیا پر ،تمام زہر افشانی میڈیا پر، اللہ اللہ خیر صلا۔۔۔(بشکریہ جنگ)