zawal par pazeer ikhlaqyaat

زوال پذیر اخلاقیات

تحریر: یاسرپیرزادہ۔۔

میرا دوست اے ٹی ایم مشین کے باہر انتظار کر رہا تھا کہ کب اندر موجود شخص باہر نکلے اور و ہ اے ٹی ایم سے پیسے نکالے،اتنے میں رکشے سے دو طالبات نکلیں ، ایک مکمل با پردہ اور دوسری ماڈرن، یہ دونوں لڑکیاں بھی اے ٹی ایم استعمال کرنے آئی تھیں ۔جونہی اندر والے صاحب نے دروازہ کھولا، دو نوجوان جو پہلے سے وہاں کھڑے تھے فٹا فٹ اندر گھس گئے، میرے دوست کو نوجوانوں کی حرکت اچھی نہ لگی، کیا فرق پڑتا تھااگر لڑکیوں کو پہلے اے ٹی ایم استعمال کرنے دیتے!خیر،میرے دوست نے دل میں سوچا کہ ابھی یہ باہر نکلتے ہیں تو وہ پہلے اُن دونوں لڑکیوں کو اندر بھیجے گا تاکہ اِن کو مزید انتظار نہ کرنا پڑے۔میرا دوست ابھی یہ خود کلامی کر ہی رہا تھا کہ نوجوان باہر نکل آئے اور قبل اس کے کہ وہ بچیوں کوکہتا کہ آپ پہلے اے ٹی ایم استعمال کر لیں، دونوں اُس کی طرف دیکھے بغیر، جیسےوہ وہاں موجود ہی نہیں، ایک شان بے نیازی کے ساتھ اندر چلی گئیں۔واپسی پر میرے دوست نے جب اُن کی توجہ اِس حرکت کی جانب مبذول کروائی تو انہوں نے میرے دوست کا شکریہ ادا کیا اور نہ ہی اپنی حرکت پر ندامت کا اظہار کرکے جھوٹے منہ سوری کہا۔ یہ واقعہ سجاد جہانیاں کے ساتھ پیش آیا جسے اُس نے کہانی کی شکل میں لکھ دیا ،سجاد جہانیاں ایک معصوم اور بھولا بھالا شخص ہے، ملتان سے تعلق ہے ،بے حد عمدہ لکھاری اور نثر نگار ہے۔میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ وہ مجھے اپنے دوستوں میں شمار کرتا ہے(ویسے یہ میرا حسن ظن بھی ہوسکتا ہے)، اُس نے یہ کہانی بے حد تخلیقی انداز میں لکھی ،میں نے تو اُس کا فقط خلاصہ بیان کیا ہے ۔یہاں ایک ذاتی واقعہ مجھے بھی یاد آگیا۔اگلے روز میں گاڑی میں جا رہا تھا کہ سامنے سے ایک اور گاڑی ون وے کی خلاف ورزی کرتی ہوئی نظر آئی ، یہ دیکھ کر میں نے جان بوجھ کے اپنی گاڑی کو اُس کے سامنے لا کھڑا کیا تاکہ اسے کچھ شرم آئے اور اشارے سے ڈرائیور کو کہا کہ بھیا کچھ خیال کرو ،ون وے ہے۔ اِس پر ڈرائیور ، جو ایک باریش شخص تھا، کچھ دیرتک مجھے خونی نظروں سے دیکھتا رہا اور پھر گاڑی سے اتر کر میرے پاس آیا اور نہایت غصے سےبولا’ جناب راستہ چھوڑیں ،مجھے دیر ہو رہی ہے‘۔ اُس کے چہرے پر دور دور تک ندامت کے آثار نہیں تھے اور نہ ہی اسے اِس بات کی پروا تھی کہ اُس نے کسی قانون کی خلاف ورزی کی ہے ۔دل تو میرا ’سڑ کے سوا‘ ہوگیا مگر میں نے بھی جاتے جاتے اسے حدیث مبارکہ سنا دی کہ ’’جو کوئی نماز صرف دوسروں کو دکھانے کیلئے پڑھتا ہے، اس کی نماز قیامت کے دن اس کے منہ پر ماری جاتی ہے۔‘‘ سجاد جہانیاں نےاپنی کہانی میں کمال خوبصورتی سے وہ نکتہ اٹھایا ہے جس پر میں بھی اکثر سوچ بچار کرتا ہوں کہ کیا ہماری کوئی بچی کھچی اخلاقیات رہ گئی ہیں، اگر ہیں تو کیاوہ مذہب کی مرہون منت ہیں ، اور اگر مذہب نہ ہوتو کیا اخلاقیات کا کوئی ضابطہ تشکیل دیا جا سکتا ہے ، کیا ہماری جدید درسگاہوں یا مدرسوں میں اِس ضابطہ اخلاق کی پاسداری سے متعلق طلبا کی کردار سازی کی جاتی ہے، اگر کی جاتی ہے تو یہ زوال کیوں اور اگر نہیں کی جاتی تو کیوں نہیں کی جاتی ؟جن دو لڑکیوں کا قصہ سجاد جہانیاں نے بیان کیا ہے اُ ن میں سے ایک مکمل حجاب میں تھی جبکہ دوسری اپنے لباس کی تراش خراش سے قدرے آزاد خیال لگ رہی تھی۔گویا مذہبی اور جدید تعلیم دونوں نے اُن کا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ اُن کے ریڈار پر یہ بات ہی نہیں آئی کہ انہوں نےکچھ غلط کیا ہے ۔پہلے اِس معاملے کو مذہبی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں کہ کیا باپردہ لڑکی نے کوئی گناہ کیا؟ یقیناً نہیں، زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اُس نے وہاں کھڑے ایک بزرگ (سجاد جہانیاں سے معذرت کے ساتھ) کی دل آزاری کی اور بس۔ماڈرن لڑکی کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر وہ مذہبی تعلیمات سے لا تعلق بھی تھی تو کیا اُس نےاے ٹی ایم میں پہلے گھُس کرکسی قانون کی خلاف ورزی کی؟ قطعاً نہیں ،اُس کے خلاف بھی کوئی ایف آئی آر نہیں کاٹی جاسکتی ۔اب اِن دونوں لڑکیوں کو اُن کے حال پر چھوڑ کر آگے چلتے ہیں۔

ہمارے ملک کی 29 فیصد آبادی 18 سے 34 سال کی عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے، یعنی لگ بھگ سات کروڑ نوجوان۔یہ لوگ کس اخلاقی ضابطہ کار کے پابند ہیں؟کیا مذہبی اخلاقیات انہیں مجبور کر سکتی ہےکہ کسی دکان سے خریداری کرتے وقت وہ قطارنہ توڑیں،شادی کرنے کے بعددو سے زیادہ بچے پیدا نہ کریں یاسڑکوں پر کان پھاڑ دینے والے شور کے ساتھ موٹر سائیکلیں نہ چلائیں؟ چونکہ اِن باتوں کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں اِس لئے قانونی طور پر بھی اِن کی پکڑ نہیں ہوسکتی ۔ لیکن کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جو قانونی ، اخلاقی اور مذہبی ، ہر اعتبار سے غلط ہیں، مثلاً امتحان میں نقل کرنا، ابھی پچھلے دنوں خیبر پختونخوا میں ایم ڈی کیٹ کا امتحان ہوا جس میں 1500 طلبا بلیوٹوتھ کے ذریعے نقل کرتےہوئے پائے گئے، اِن میں سے ڈھائی سو گرفتار ہوچکے ہیں جن پر الزام ہے کہ انہوں نے پچیس لاکھ روپے فی کس دے کر امتحان میں 84 سے زائد نمبر لگوائے۔غالب امکان یہی ہے کہ اِن میں سے اکثریت نماز روزےکی پابندہوگی ، پھر اِنہوں نے ایسا کام کیوں کیا؟ ظاہرہے کہ مذہب اِس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا لیکن پھر لازماً ذہن میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ اِس کا علاج کیا ہے ؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اِس مسئلے کا حل قانون کی عملداری میں ہے ، مذہب میں چونکہ ریاست کے قانون کی خلاف ورزی کی کوئی گنجائش نہیں لہٰذا ریاست کی کمزور رِٹ کو مذہب کی ناکامی پر منطبق نہ کیا جائے ۔اِس بات میں وزن ہے لیکن یہ حل ایک اگلے معمے کو جنم دیتاہے اور وہ یہ کہ اگر ملک میں قانون کی عملدداری ہوجائے تو پھر مذہبی اخلاقیات کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟اِس کا جواب مذہبی طبقہ یہ دیتا ہے کہ صرف مذہب ہی ہمیں اخلاقیات کا ضابطہ کار فراہم کرتا ہے وگرنہ انسان کا بنایا ہوا ضابطہ کار مطلق نہیں ہوسکتا ۔ یہ سوال فی الحال موضوع بحث نہیںلہٰذااِس پر پھر کبھی بات ہوگی۔

مسئلہ مذہب کا نہیں ، مسئلہ اخلاقی تعلیم کا ہے ، کسی نوجوان کے ذہن میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ اُس نے معاشرے کا صرف کامیاب ہی نہیں بلکہ ذمہ دار شہری بھی بننا ہے اور اِس میں اُس نوجوان کا قصور بھی کوئی نہیں کیونکہ معاشرے میں ذمہ دار شہری اور اخلاقی پاکیزگی کے حامل انسان کیلئے کوئی ترغیب موجود نہیں ۔گھرمیں ماں باپ کم نمبر لانے پر تو باز پُرس کریں گے مگر اِس بات پر کسی کے سر پر جوں تک نہیں رینگے گی کہ اے ٹی ایم میں داخل ہونے سے پہلے تم نے وہاں پہلے سے کھڑے بزرگ سے اجازت کیوں نہیں لی۔ بس اتنی سی بات ہے۔ (بشکریہ جنگ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں