nakafi hein lafazian

“ضرورت مند نہیں ضرورت بنیئے”

تحریر: شکیل بازغ۔۔

ایک دوست دبئی رہ کر آئے۔ انہوں نے بتایا کہ میں ایک جاب کیلئے انٹرویو دینے گیا۔ انٹرویور نے سی وی ایک نظر دوبارہ دیکھنے کے بعد مجھے ایک پیپر دیا اور کہا کہ اس پر آپ اپنے مسائل اور ضروریات لکھیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی گھریلو ضروریات اور اخراجات ایک ایک کر کے لکھ ڈالیں۔ مزید یہ کہ ادارے سے اپنی توقعات بھی لکھ دیں۔ اسی طرح انٹرویور نے بھی ایک پیپر پر کچھ لکھنا شروع کر دیا۔ کچھ دیر بعد جب دونوں اپنے اپنے پیپرز مکمل کر چکے۔ تو ان صاحب نے اپنا پیپر میرے دوست کو تھما دیا اور میرے دوست کا پیپر خود لے کر پڑھ ڈالا۔ پھر پیپر کو تہہ کرکے اپنی جیب میں رکھتے ہوئے کہا۔ کہ میں آپ کی شرائط سے مطمئن ہوں آج سے آپ کے مسائل میرے مسائل ہیں۔ اگر آپ میری فراہم کردہ لسٹ سے مطمئن ہیں تو اسے اپنے پاس رکھ لیں۔ اور کل سے آپ آن بورڈ ہیں۔ میرے دوست سے انہوں نے فراہم کردہ فہرست میں کمپنی کی جانب سے جاب ڈسکرپشن اور کام سے متعلق توقعات اور اسائنمنٹس لکھی تھیں۔ بہرحال دوست کا اس کمپنی سے معاہدہ طے پا گیا۔ چند روز پہلے وہ دوست دبئی سے واپس آئے اور اپنے کاروبار کیلئے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

ایک طویل عرصہ مختلف شعبوں میں ملازمت/نوکری کرنے کے بعد یہ سمجھ آئی کہ نوکری بہر حال نوکری ہے۔ جس کے آخر میں بے روزگاری اور نوکری سے بے دخلی کا ایک خوف کھڑا ہوتا ہے۔ اللہ کے رازق ہونے کا معلوم نہ ہوتا تو خوفِ خدا کے بجائے خوفِ رزق سے ہم سہمے رہتے۔  اپنا کاروبار ایسی شے ہے جو نسلوں کو منتقل ہوتا ہے۔ سرمایہ کم ہو یا زیادہ اسے انویسٹ کرکے اپنی سلطنت کے بادشاہ بنیں، وگرنہ نوکری کیلئے آپ چاہے جتنے اعلٰی عہدے پر فائز ہیں۔ بھلے جتنی بڑی پگار لے رہے ہیں۔ بھلے چیئرمین، سی ای او، ایم ڈی، سے آپ کی خوب چھنتی ہو۔ آپ کو روزانہ اپنے فیصلوں اپنے کام اور اپنے رویئے سے یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ آپ مارکیٹ میں دستیاب تمام پیشہ ور ماہرین سے بہتر اور ادارے کی اشد ضرورت ہیں۔ یہ ثبوت دینے کیلئے آپ اپنی نجی زندگی خواہشات خواب اور وقت روزانہ قربان کرتے ہیں۔

میں ایک میڈیا پروفیشنل ٹرینر بھی ہوں۔ وہ بچے جو ایم فل یا میڈیا ایجوکیشن میں ماسٹرز کرکے ٹریننگ کیلئے آتے ہیں۔ ان سے یہ ضرور کہتا ہوں۔ کہ ہمیشہ خود سے یہ چند سوال روزانہ کرتے رہیں کہ آپ کو کوئی بھی ادارہ ملازمت کیوں دے۔ پھر آپ کی تنخواہ میں اضافہ کیوں کرے، آپ کو عہدے میں ترقی کیوں دے؟ کیا آپ کے ارد گرد آپ سے بہتر لوگ موجود ہیں۔ یا کیا آپ کی قابلیت جسے آپ اپنے تئیں گراں قدر شمار کرتے ہیں۔ کیا ادارہ اور آپ کے سینئرز بھی آپ کی قابلیت کو آپکی موجودگی کے تسلسل کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں۔ نجی اداروں میں خصوصا” کارپوریٹ سیکٹرز میں رحم دلی کے بجائے بے رحم احتساب کے ترازو پر تولا جاتا ہے۔ اگر آپ ادارے کے لئے فائدہ مند ہیں تو آپ کو وہ سب کچھ ملے گا جو آپ کا حق ہے، اور اگر آپ ادارے پر کسی بھی طرح بوجھ یا اضافی ہیں تو جلد یا بدیر آپ کی خدمات لینے سے معذرت کر لی جائے گی۔ نوکری ایک جیل میں جبری بے فیض مشقت کے آٹھ دس بارہ سولہ گھنٹے سے زیادہ کچھ نہیں۔ گورا کہتا ہے، no matter, you will be replaced anytime.

یہ نہایت مشکل کام ہے۔ کہ آپ ادارے میں سب کو خوش اور مطمئن رکھ سکیں۔ نالائق شخص لابی بنانے، لوگوں کی برائیاں ڈھونڈنے اور اپنی اچھائیاں سامنے لانے یا کسی بدعنوان سینئر کی خوشنودی کے لوازمات مہیا کرنے جیسی غیر ضروری حرکات میں مصروف رہ کر اپنی موجودگی کو اشد ضروری ثابت کرنے پر تکیہ کرتے ہیں۔ یہ منافع بخش کاروباری ادارہ ہے۔ سیاست کا ایوان نہیں۔ بہترین سیاست بہترین کارکردگی ہے۔ اور ہزاروں سوالوں کا جواب بھی یہی ہے۔ جو ملازمین اپنی لاچارگی، مجبوری اور پریشانی کا تذکرہ ہمہ وقت کرتے رہتے ہیں۔ انکا مستقبل داؤ پر رہتا ہے۔ یہ بات مسمم ہے کہ منافع بخش اداروں کیلئے ملازمین سے زیادہ اپنے اخراجات کم کرنے اور منافع بڑھانا زیادہ اہم ہے۔ اور یہ سب ادارے نے اپنے ملازمین کی مدد سے کرنا ہے۔ یہاں حقوق سے پہلے فرائض کا معاملہ بنتا ہے۔ فرض شناس، بہترین کارکردگی، وفاداری، محنت، بہترین فیصلے کرنے کی صلاحیت اور خود کو وقت کیمطابق اپ گریڈ کرنا ایسے عوامل ہیں جو آپ کو ادارے کی ضرورت بناتے ہیں۔ کیونکہ ان خصوصیات کی بدولت آپ ادارے کی ساکھ، حیثیت اور منافع میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ آپ ادارے کی گروتھ کا ایک ٹول ہیں تو آپ کا خیال بھی رکھا جائے گا۔ آپ کے حقوق کا تحفظ بھی ہوگا۔ کام پر توجہ مرکوز رہے اور کارکردگی بہتر کرنے پر کوئی بھی مائل رہے تو ادارہ اور ملازم دونوں ترقی کرتے ہیں۔ ذہن میں یہی رہے کہ ضرورت مند بن کر مجبوریاں بتاتے رہے کے بجائے، ادارے کی ضرورت بننے کی پالیسی اپنائی جائے۔

لیکن عرض مکرر ہے۔ کہ تجارت سب سے زیادہ فائدہ مند ذریعہءِ آمدن ہے۔ رسول اکرمﷺ‎ کی حدیث کے مطابق الله تعالی نے انسان کے رزق کے  دس میں سے نو  حصّے تجارت/کاروبار میں رکھے ہیں۔۔(شکیل بازغ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں