zardari keliye mushkilaat

زرداری کیلئے مشکلات

تحریر: علی انس گھانگھرو۔۔
کچھ روز قبل کراچی میں مولانا فضل الرحمن کی آمد پر سندھ میں اپوزيشن جماعتوں کے رہنماؤں پیر سید صدر الدین شاہ، ذوالفقار مرزا، فہمیدہ مرزا، صفدر عباسی، و دیگر رہنماؤں نے مولانا راشد محمود سومرو کی توسط سے ملاقات کی. ذرائع کے مطابق جے ڈی اے سمیت دیگر رہنماؤں نے مولانا فضل الرحمن کو کہا کہ جے یو آئی، ن لیگ سمیت تمام اپوزيشن جماعتیں ملک کر پیپلز پارٹی کے خلاف انتخابی اتحاد کریں. مولانا فضل الرحمان نے اپوزيشن جماعتون کے رہنماؤں کو “ییس” کہا یا انتظار کرنے کیلئے، کوشش کرنے کیلئے کہا، برحال سندھ میں گزشتہ 15 سالوں سے پیپلز پارٹی صوبے میں براہ راست برسر اقتدار میں ہے. اپوزيشن جماعتیں اپنی حکومتی باری کا انتظار کر رہی ہیں. ذرائع کے مطابق سندھ میں پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دینے کیلئے دو بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور جے یو آئی نے دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کے خلاف الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا گیا ہے. ذرائع کے پی ٹی آئی چیئرمین “ع، خ” کی گرفتاری، نااہلی قید کے بعد بے خوف ہوکر انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے. تحریک انصاف سے اب استحکام پاکستان اور پی ٹی آئی پارلیمنٹرین نے جنم لیا ہے. جبکہ سندھ میں اس مرتبہ ایم کیو ایم کو بھی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد میں شامل کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے.
کیا اس مرتبہ اسٹیبلشمنٹ سندھ میں عام انتخابات میں غیر جانبدار رہے گی؟ سیاسی جماعتوں کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ سندھ میں گزشتہ عام انتخابات سے لیکر بلدیاتی انتخابات تک پیپلزپارٹی نے اکثریت نہ ہونے، عوام کا غم و غصہ ہونے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے کامیابی حاصل کی ہے. یہی وجہ ہے کہ کراچی سے لیکر کشمور تک تمام میئرز، ضلع کائونسل چیئرمینز، میونسپل اور ٹائون کمیٹیز کے چیئرمینز سوا ایک آدھ کے پیپلز پارٹی کے ہیں. کیا وجہ ہے کہ گزشتہ 15 سالوں سے ناقص کارکردگی، بے تحاشا کرپشن، بدعنوانی، لاقانونیت، لینڈ گریبنگ سے لیکر اداروں کی تباہی ہونے کے باوجود سندھ کی عوام پیپلزپارٹی کو ووٹ دیتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ سندھ میں اسٹیبلشمنٹ کے مدد سے پیپلز پارٹی نے پولس، ڈنڈے، ڈاکوؤں، کرمنلز، سرداروں کی مدد سے انتخابات میں بدترین دھاندلی کرکے کامیابی اپنے نام کی ہے. سندھ میں اپنے اقتدار کو تقویت دینے کیلئے پیپلز پارٹی آصف علی زرداری نے سندھ کی زمینیں دی، کارونجھر جبل کی نیلامی کی، سندھ کے جزائر دیئے، یہاں تک کہ اربوں روپے سالانہ بھتہ دیا جاتا ہے. سندھ کے لوگ بھوک، بدحالی، بیروزگاری، لاقانونیت، افلاس کی وجہ سے سخت پریشان ہیں. سندھ میں خواتین کو بسپ پروگرام کے پیچھے لگایا گیا ہے. مردوں کو آٹے کی لائن کے پیچھے لگایا دیا گیا ہے. اپر سندھ سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن میں ڈاکو راج قائم ہے. ڈاکوؤں بچوں، بچیوں، خواتین نوجوانوں کو اغوا کرکے ان کی ویڈیو بنا کر جاری کرتے ہوئے دندناتے ہوئے پھرتے ہیں. اسی تناظر میں سندھ میں مایوسی اور سیاسی ہلچل پیدا ہوئی ہے. دو روز قبل کراچی میں جمعیت علماء اسلام صوبہ سندھ کے سیکریٹری جنرل علامہ راشد محمود سومرو کی میزبانی میں اپوزیشن جماعتوں کا اہم سیاسی اتحاد بنانے کیلئے بیٹھک ہوئی. سندھ کے سابق وزراء اعلی، سندھ سید غوث علی شاہ ، لیاقت جتوئی، جی ڈی اے قیادت صفدر عباسی، محترمہ ناہید خان، ڈاکٹر ابراہیم جتوئی، ایاز لطیف پلیجو، امیر بخش بھٹو، سابق وفاقی وزیر غلام مرتضیٰ جتوئی، ایم پی اے معظم عباسی، سردار علی گوہر خان مہر، راجا خان مہر، جبکہ قومپرست رہنما جسم کے ریاض خان چانڈیو، جئے سندھ قومی محاذ کے صنعان خان قریشی، سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے منیر حیدرشاہ، جماعت اسلامی کے محمد حسین محنتی، ف لیگ کے سردار عبدالرحیم، عرفان اللہ خان مروت، مسلم لیگ ن کے کھیئل داس اور سلمان خان، سندھ کے روحانی درگاہوں درگاہ ہالیجوی شریف، خانقاہ امروٹ شریف، خانقاہ جرارپہوڑ شریف، خانقاہ سومرانی شریف کے سجادہ نشین بھی شریک ہوئے. محمد خان جونیجو، ڈاکٹر عبدالقیوم سومرو، عادل الطاف خان انڑ، ڈاڈو اللہ بخش انڑ، حسنین ذولفقار مرزا، مولانا عبدالقیوم ہالیجوی، محمد اسلم غوری، مولانا سراج شاہ امروٹی، مولانا عبداللہ سومرانی، مولانا عبداللہ پہوڑ، قاری محمد عثمان، مولانا عبدالکریم عابد، مولانا ناصر محمود سومرو، آغا ایوب شاہ، مولانا سمیع سواتی، حاجی امین اللہ شریک ہوئے.
اجلاس میں رہنماؤں کی جانب سے سندھ کے مسائل کے حل کے لئے مل کر جدوجہد کرنے پر اتفاق کیا گیا، مولانا راشد محمود نے کہا کہ سندھ پر مسلط حکمران صوبے کے معدنیات اور وسائل کو فرورخت کر رہے ہیں۔ سندھ حکومت امن وامان کی بحالی میں مکمل ناکام ہوچکی ہے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ سندھ میں ڈاکو راج ہے حکومت کا دور دور تک نام و نشان نہیں، عوام کا درد رکھنے والی لیڈر شپ کو بیدار ہونا ہوگا، سندھ کے مسائل کے حل کیلئے جمعیت علمائے اسلام کے دروازے کھلے ہیں، ہم سب مل کر سندھ کے مسائل کے دلدل سے نکال سکتے ہیں، دعوت قبول کرنے پر تمام سیاسی رہنماؤں قبائلی عمائدین کا شکر گزار ہوں.
دیکھنا یہ ہے کہ سندھ میں مولانا راشد محمود سومرو کی میزبانی میں بننے والا سیاسی اتحاد کامیاب ہوتا ہے یا پچھے 10 جماعتی اتحاد اور اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کی وجہ سے بے اثر ہوتا ہے. سندھ میں اس وقت جو سیاسی جماعتوں کی صورتحال ہے، حکمران جماعت کی کارکردگی اور سندھ کے حالات ہیں مشکل ہے کہ پیپلز پارٹی انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکے. آصف علی زرداری اگر مولانا فضل الرحمن سے سندھ میں بھی ہاتھ ملاتے ہیں تو پھر امکان ہے کہ پیپلزپارٹی پہلے کی طرح تمام سیٹیں جیت جائے. سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن میں اگر انتخابات غیر جانبدار اور صاف شفاف ہوتے ہیں تیسری قوت مداخلت نہیں کرتی تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ سندھ میں چوتھی بار اقتدار حکومت کے خواب دیکھنے والے اپوزیشن میں جا بیٹھیں گے. اور سندھ میں سیاسی حکومت کی تبدیلی ممکن ہو سکتی ہے۔۔(علی انس گھانگھرو)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں