koi offer to kare film barae frokht

زرد صحافت سے جان چھڑوانے کا فارمولہ۔۔۔

تحریر: ناصر جمال

صحافی کبھی تاریخ نہیں لکھتا۔ البتہ وہ تاریخ کو درست ضرور کرتا ہے۔ آج صحافت اور صحافی، پاکستان میں بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ یہ مسئلہ صرف انھیں درپیش ہے۔ ریاست، ملک، عوام، عدل، گورننس اور نظام، سب اس کا سامنا کررہے ہیں۔ صحافت آئینہ ہے۔ مگر اسے نان پروفیشنلز اور مفادات نے دُھندلا کردیا ہے۔ اس پر سیٹھ قابض ہیں۔یہ سب ایک دن میں نہیں ہوا۔ یہ سب باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہوا۔ کچھ میڈیا ہائوسز، جن سے جان چھڑوانا ممکن نہیں رہا تھا۔ اُن کو سیٹھ بنا دیا گیا۔ جبکہ اس شعبے میں نئے سیٹھ داخل کروائے گئے۔ بہت سے لوگ، اپنے کاروبار کے تحفظ کیلئے، اس میں آئے۔ جبکہ کچھ لوگ مفادات کے حصول کیلئے، اس کا حصہ بن گئے۔ پھر فراڈیئے کیوں پیچھے رہتے۔ انھیں جہاں جگہ ملی، ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا لی۔ اس پورے عمل میں سیٹھ نے ایڈمن اور بزنس والوں کو صحافیوں کے سر پر بٹھا دیا۔ جبکہ پی ۔ آئی۔ ڈی اور ڈی۔ جی۔ پی۔ آر کے سامنے سیٹھ سجدہ ریز ہوگئے۔جہاں سرکاری اداروں کو مزاحمت ملی انھوں نے اشتہاری ایجنسیاں آگے کردیں۔ ’’جرنلسٹ‘‘ اپنے ہی اداروں میں نشان عبرت بن گئے۔ اکثریت نے سیٹھوں اور مفادات کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ اس دوران جوچند ڈھیٹ، اپنی سخت جانی کی وجہ سے بچے رہے۔ انہوں نے سختی، مشکلات اور غربت کی چادر اوڑھ لی۔ اپنے اندر کے صحافی کو ختم نہیں ہونے دیا۔ اکثریت’’حالات اور فیملی‘‘ کے باعث سمجھوتہ کرگئے۔ انہوں نے اندر کے صحافی کو تھپک، تھپک، کر سُلا دیا۔ پھر بھی، ان میں سے کچھ کے اندر کا صحافی کبھی، نہ کبھی جاگ ہی جاتا ہے۔ انھیں اُسے پھر نیند کی گولیاں دینا پڑتی ہیں۔ جبکہ ایک بڑی تعداد وہ بھی ہے۔ جو صحافت میں آنے سے پہلے ہی فنکار تھے۔ انہوں نے خود کو’’ صحافت کا چُوغا ‘‘پہنا کر معتبر بنا لیا۔ اور پھر وہ صحافیوں کے لیڈر بھی بن گئے۔ حالانکہ یہ لوگ پیدائشی سیاستدان اور ایکٹیوسٹ ہوتے ہیں۔ آج آپ پاکستان کے میڈیا ہائوسز کا اجمالی جائزہ لیں تو، سب کچھ کُھل کر سامنے آجائے گا۔ڈان گروپ، سب سے بہتر ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس نے سب سے پہلے اپنے اُردو والے اخبار سے جان چھڑائی۔ اس کے باوجود وہاں ایک عرصہ ایڈیٹر کا ادارہ مضبوط رہا۔ ظفرعباس بہرحال سب سے فنکار ایڈیٹر رہے۔ ڈان لیکس میں واقفان حال کہتے ہیں۔ وہ بھی شامل تھے۔ میاں نواز شریف اور پرویز رشید نے پہلے کسی اور صحافی سے رابطہ کیا۔ وہ بھاگ گیا۔کہا کہ پہلے ہی گولیاں کھا چُکا ہوں۔ اس بار تُوپ کے سامنے جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ یہ الگ بات کہ اُس کے کئی سال کے بعد، وہ خود ہی یہ شوق پُورا کرنے چل نکلا ہے۔باخبر بتاتے ہیں کہ اس کے بعد ’’ڈان گروپ‘‘ کو یہ ٹاسک دیا گیا۔ اسٹوری لکھی کسی ایڈیٹر نے تھی۔چھپی سرل ایلمیڈا کے نام سے۔ ان صاحب نے سرل ایلمیڈا کو ’’لولی پاپ‘‘ دیئے رکھا۔ مومن نیٹ پر 32سالہ لڑکے کو ایڈیٹر بنوا دیا۔ سرل، استعمال ہوگیا۔ یہ الگ بات ہے کہ آج ڈان لیکس جیسی باتیں ہمارے عسکری مہربانوں کی جانب سے خود ہی شروع ہوگئیں کہ ’’پہلے ہمیں اپنا گھر درست کرنا چاہئے۔‘‘ اس یوٹرن نے بہرحال’’ڈان لیکس‘‘ کو اپنی موت آپ مار دیا۔

قارئین،مگر ایک بات ہے۔(ن) لیگ والے ویسے عسکری دوستوں کو کمال طریقے سے دبائو میں لائے۔ پھر یہی’’ ٹول‘‘ تمام سیاستدان، حسب منشا و ضرورت، فوجی بھائیوں کیلئے، استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ جیسے کہ ’’اسمبلی توڑ دوں گا۔‘‘ حالیہ اڈے نہ دینے کی پالیسی بھی، کچھ ایسے ہی زمرے میں آتی ہے۔ امریکہ کو انکار، انھیں کے۔پی میں ضرور نتائج دے گا۔ اس سے عمران خان کا امیج بہرحال بہتر ہوا ہے۔

قارئین،ڈان گروپ کے بعد جنگ گروپ کا نمبر آتا ہے۔ یہاں پہلے سب کچھ میر خلیل الرحمٰن تھے۔ پھر شکیل الرحمٰن بن گئے۔ ون مین شو ہے۔ ادارے نے کمال’’ ایمپائر‘‘ بنائی۔ وہ میڈیا کے پہلے باقاعدہ سیٹھ بنے۔ انھوں نے ٹیکنالوجی اور ماہیت کو اتنا بڑا ہاتھی بنا لیا کہ وہ ہر کسی کو ہڑپ کرنے لگے۔ وہ حکومتوں اور عسکری اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت بن گئے۔ مفاد کے عوض، خدمات کی لُوٹ سیل لگا دی۔اپنے گرد مفادات کا ایسا بڑا گروہ قائم کردیا کہ ’’اس ہاتھی کو مجبوری میں وہ بھی گرنے نہیں دیتے۔‘‘ اس نے بدمست ہاتھی کا روپ دھار لیا اور 1998ء میں پہلی ٹکر میاں نواز شریف کو دے ماری۔ موصوف کو یہ نشہ چڑھ گیا تھا کہ وہ حکومتیں بناتے اور گراتے ہیں۔ انھیں پہلی مرتبہ خرخرہ لگا۔ پھر انہوں نے صحافتی لیڈر خود کھڑے کئے۔ پھر نواز شریف سے صلح کرکے، مشرف سے پنگا لیا۔ پھر یہ آئی۔ ایس۔ آئی پر چڑھ دوڑے۔ پھر انھیں اچھا خاصا خرخرہ لگا۔ ابھی توبہ تائب ہیں۔ مگر شرارت سے پھر بھی باز نہیں آتے۔ایک عرصہ ہوا، یہاں ایڈیٹر کا ادارہ نہیں ہے۔ کبھی’’دی نیوز‘‘ میں البتہ ایڈیٹر برداشت کرلیتے ہیں۔ مگر کنٹرول ان کا ہی ہے۔ اب نواز شریف اور زرداری سے محبت کرتے ہیں۔ان کے بعد نوائے وقت کا نمبر آتا ہے۔ انہوں نے نظریہ پاکستان کا چُورن ایک عرصہ حسب ضرورت و ذائقہ بیچا۔ وہ بھی سیٹھ بن گئے۔ مگر ان کا شمار پھر بھی کچھ بہتر سیٹھوں میں ہوتا تھا۔ جب تک مجید نظامی تھے۔انہوں نے اس کشتی کو سنبھالے رکھا۔ پھر نوجوان لیڈر شپ آگئی۔ انہوں نے اپنی سوچ کے مطابق چلایا۔ آج یہ ادارہ تقریباً بیٹھ چکا ہے۔ مگر یہ بھینس ابھی تک اچھا خاصا دودھ دے رہی ہے۔ اب یہاں مکمل سیٹھ ماڈل نافذ ہے۔ صحافت کا مشن، پروفیشن میں تبدیل ہوچکا ہے۔

ایک اور بڑا گروپ ایکسپریس گروپ ہے۔ یہ سبھی کو پتا ہے کہ موصوف نیب میں تھے۔ پہلی بار صحافیوں کی طاقت کو دیکھا۔ اپنا میڈیا گروپ بنا لیا۔ جن افسروں کے انتظار میں وہ گھنٹوں بیٹھتے تھے۔ وہ انھیں۔ وی۔ وی۔ آئی۔ پی پروٹوکول میں بٹھانے لگے۔ سیاستدان’’ جپھیاں اور پپیاں‘‘ کرنے لگے۔ بزنس کی رکاوٹیں ، رکاوٹیں نہ رہیں۔ آج یہ مکمل سیٹھ ہیں۔ اسی سیٹھ ذہنیت نے انھیں بھی ڈبونا شروع کردیا ہے۔یہاں پر ضیاء شاہد اور خوشنود علی خان کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ ان دونوں کی بلیک میلنگ اور منفی ، زرد اور دونمبر صحافت نے، بے شمار سیٹھوں کو میڈیا انڈسٹری میں آنے پر مجبور کیا۔ پھر کیا تھا۔ ان کے مُنہ کو بھی دونمبر صحافت کا خون لگ گیا۔ آپ ڈی۔ این۔ اے کروالیں۔ اکثریت کا یہیں سے میچ ہوگا۔ ’’خبریں‘‘ کی کیا بات کریں۔ اس نے نوجوانوں اور سیٹھوں کا کمال خُون چوسا۔ کسی کو معافی نہیں دی۔ موصوف قبرمیں چلے گئے۔ نہ کسی کے پیسے دیئے اور جو جس سے لیا، واپس نہیں کیا۔ پاکستانی صحافت کو زرد صحافت میں تبدیل کرنے کے یہ والد اعظم ہیں اور خوشنود علی خان شاگرد اعظم ہیں۔ یہ الگ بات کہ دونوں، روزنامہ جنگ کی پیداوار تھے۔ یہاں تو کوئی شو ہی نہیں تھا۔ ایک ضیاء شاہد نامی ’’جنگل لاء‘‘ تھا۔ پرویز مشرف کے پہلے چھ سالوں میں انھیں کمال آکسیجن ملی۔ سندھی اخبار اور ٹی۔ وی کیلئے سرکار نے ان پر خزانوں کے مُنہ کھول دیئے۔آج یہ میڈیا ہائوس مرچکا ہے۔ سرکار اور بلیک میلنگ سرکار پر چل رہا ہے۔

دنیا گروپ سیٹھوں کا گروپ ہے۔ اسے کئی سیٹھوں نے پیسے ڈال کر شروع کیا۔ پنجاب گروپ آف کالجز کا تحفظ پہلا مرحلہ تھا۔ پھر دوسرے کاروبار بھی صحافتی تحفظ میں آتے چلے گئے۔ باقی سب کچھ سب پر آشکار ہے۔ اے۔ آر۔ وائی کو لوگ میمن ٹی۔ وی نیٹ ورک کہتے ہیں۔ وہاں پر خبر اور ایجنڈے کی قیمت ہے۔ جیسے کے آج، کل پورا ملک جانتا ہے۔ انھیں کسی ریٹنگ یا سچ کی پرواہ نہیں ہے۔ صرف مفادات کو مدنظر رکھتے ہیں۔ آج نیوز، بزنس ریکارڈر، زبیریز کا ہے۔ یہ پہلے اچھے سیٹھ تھے۔ اب روایتی سیٹھ ہیں۔ جی۔ این۔ این گورمے بیکری والوں کا ہے۔ سچ اور جی۔ ٹی۔ وی کے پیچھے مذہبی لوگ ہیں۔ سماء اب بے نقاب ہوا ہے۔ علیم خان کی پراپرٹی بن گیا ہے۔ آپ ٹی۔ وی اور جناح ملک ریاض کے ہیں۔ جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ ’’میڈیا‘‘ کے بھی مائی باپ ہیں۔روزنامہ پاکستان،مجیب الرحمٰن شامی کا ہو کہ روزنامہ پاکستان اور روز ٹی۔ وی سردار خان نیازی کا۔ دونوں ایک جیسے ہیں۔ خوشامدی اور ورکر کُش سیٹھ، ذات، ذات اور ذات۔92ٹی وی اور اخبار کسان گھی والوں کا ہے۔ ایجنڈا، ذات اور کاروبار ہے۔ پبلک ٹی۔ وی سیٹھ کا ہے۔ ’’اُمت‘‘ نظریاتی اخبار تھا، جیسے جسارت جماعت اسلامی کا تھا۔ ’’امت‘‘ والا بھی سیٹھ بن گیا۔ روزنامہ جہان پاکستان یونیورسٹی آف لاہور والوں کا ہے۔ پس پردہ یونیورسٹی کا کاروبار ہے۔ 7کیمپس، چالیس ہزار سے زائد طُلبا، 20ارب سے اوپر کا ٹرن اوور اور دیگر کئی کاروبار ہیں۔ پانی سے لیکر پراپرٹی، ہوٹل اور بیرون ملک وسیع سرمایہ کاری، سب کا تحفظ درکار تھا۔ اخبار کی کلاشنکوف اپنے اور دوسروں کے درمیان حائل کردی۔ یہی کچھ روزنامہ نئی بات اور نیو ٹی۔ وی کا ماڈل ہے۔ سپیریئرکالجز پیچھے ہے۔ ایچ۔ ای ۔ سی اور انتظامیہ ان کے ہتھیاروں سے ڈرتی ہیں۔ آپ جہاں جائیں گے آپ کو میڈیا انڈسٹری میں یہی مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔

ایک اینکر کے ساتھ مشہور ہے۔ وہ جہاں جاتی ہیں تین کروڑ کے اشتہار لے جاتی ہیں۔ ان کی یہی پہلی اور پُرکشش شخصیت دوسری خوبی گردانی جاتی ہے۔

قارئین،ایک بین الاقوامی ایجنڈا بھی ہے۔ بہت سے صحافی ڈالر اور پائونڈ صحافی بھی کہلاتے ہیں۔ اس پر اورعربی، ایرانی ریالوں پر پھر کبھی سہی۔

پاکستان میں زرد، بلیک میلنگ، سپانسرڈ اور میڈیا ہائوسز کے ناجائز کنٹرول کا خاتمہ کیسے کیا جائے۔ یہ اہم ترین سوال ہے۔ جس کیلئے اتنی بڑی تمہید باندھی گئی ہے۔ عسکری اسٹیبلشمنٹ اور تبدیلی سرکار نے تین سال قبل، اپنے ادھورے اور نامکمل منصوبہ کے ذریعے، انتہائی بھونڈے طریقے سے، یہ سب کچھ کرنے کی کوشش کی۔ ان کا اسکرپٹ اور نیت دونوں ہی بُرے تھے۔ اس لئے ناکامی ان کا مقدر بنی۔ وہ پاکستانی میڈیا کو سپائن لیس، چینی میڈیا بنانا چاہتے تھے۔ ایسا پاکستانی معاشرہ میں ہونا ،ناممکن ہے۔ اگر تمام اداروں نے بہت سا فاصلہ طے کیا ہے تو، میڈیا نے بھی یہ فاصلہ ایسے ہی طے کیا ہے۔ میڈیا پر حملے میں سب سے زیادہ نقصان، پروفیشنل صحافیوں کو ہوا ہے۔ ڈالر، پائونڈ اور پیرا شوٹروں کے تو مزے ہوگئے۔ ریاست، اداروں، نظام اور عوام سے محبت کرنے والے بے چارے رضا کار صحافی مارے گئے۔

عسکری اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے ریاست کے چوتھے ستون کو اپنے آقائوں کی خوشنودی کیلئے سیٹھوں اور ایجنٹوں کے حوالے کردیا۔ جو آپ کا کام نہیں ہے۔ اُسے آپ کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ ’’یلغار‘‘ فلم ہی اگر آپ کا کریڈٹ ٹھہری ہے تو،اللہ ہی حافظ ہے۔ یہ صحافت ھلال میگزین نہیں ہے۔ نہ ہی یہ ریڈیو، پی۔ ٹی۔ وی یا اے۔ پی۔ پی ہے۔ یہ آزاد منش لوگوں اور دیوانوں کا شعبہ ہے۔ آپ نے پراپرٹی ایجنٹوں کا اس پر قبضہ کروا دیا ہے۔ اس پورے عمل میں آپ کو اور ریاست کو کیا حاصل ہوا۔ آج لوگ ایسے ہی تو کرنل ازم اور جرنل ازم کی اصطلاہیں استعمال نہیں کررہے۔ آپ کو کس نے کہہ دیا کہ حب الوطنی اور ریاست کے مفادات کی ویکسین صحافیوں کو ہر صورت لگائی جانی ضروری ہے۔ حضور یہ تو ان کے خون میں موجود اور سافٹ ویئر میں انسٹال ہوتی ہے۔

حکومت کو چاہئے کہ وہ ایک نئی میڈیا پالیسی لے کر آئے۔ اگر آپ فلم بنانے کے پانچ کروڑ دے سکتے ہیں تو، میڈیا کے حوالے سے بھی اہم فیصلے لے سکتے ہیں۔ یہاں سے پیرا شوٹرز اور مفادات پرستوں کو بھگانے کیلئے ضروری ہے کہ آپ ، ہر طرح کا اشتہار بند کردیں۔ اپنی تشہیر، اپنی ویب سائیٹس پر کریں۔ آپ اخبار کا کاغذ، سیاہی، مشینیں(بشمول پرنٹنگ پریس) اخبار کی آمدن، ٹیکس فری کریں۔ اخبارات کی ترسیل کے نظام میں مدد کریں۔ جبکہ ٹی۔وی کے لائسنسز کو آمدنی کا ذریعہ نہ بنائیں۔ ورکنگ صحافیوں کو گروپ کی شکل میں اس کے لائسنسز دیں۔ کیمرے، کمپیوٹر، این۔ ایل۔ ای ،مشینیں، سیٹلائٹ آلات اور فریکونسی انھیں زیرو ٹیکس اور مراعات کے ساتھ دیں۔

اسی طرح ڈیجیٹل پلیٹ فارم کیلئے رعایتیں دیں۔ صحافیوں کی آمدن پر ٹیکس ختم کریں۔ بطور خاص جن کی تنخواہیں، ڈیڑھ لاکھ سے کم ہیں۔ جبکہ اخبار، ٹی۔ وی اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم والے پر لازمی ہے کہ وہ سیلری اکائونٹ میں تین ماہ کی تنخواہ ہروقت رکھنے کا پابند ہوگا۔ صحافیوں کو ادارے سے فارغ کیئے جانے کے حوالے سے باقاعدہ قانون سازی کی جائے۔ اور تنخواہوں میں سالانہ اضافہ، میڈیکل، کنوینس، کنوینس الائونس اور ایڈوانس نوٹس تنخواہ کم از کم تین ماہ کی ہو۔ جو نوٹس دیئے جانے پر خود کار طریقے سے اُس کے اکائونٹ میں چلی جائے۔ جبکہ اخبار کا ڈیکلریشن ٹی۔ وی یا ڈیجیٹل میڈیا کا لائسنس بے شک مالک/سیٹھ کے نام پر ہو۔ مگر پالیسی کیلئے بورڈ اور بڑے انتظامی فیصلوں کیلئے بورڈ ہونا چاہئے۔

جبکہ کراس میڈیا ختم کیا جائے۔ جس کے پاس اخبار ہے اسے ٹی۔ وی کا لائسنس نہ دیاجائے۔ ایسا پوری دنیا میں کہاں ہوتا ہے۔ اسی لئے تو اس ملک میں کارٹل بن گئے ہیں۔ اس پر شیخ رشید، محمد علی درانی، شوکت عزیز اور پرویز مشرف کو قوم سے معافی مانگنی چاہئے۔ آرگنائزیشن کا سالانہ بجٹ طے ہو۔ یہ بجٹ ادارے کے اکائونٹ میں چھ ماہ کی بنیادوں پر لازمی ہو۔ اکائونٹ کو کبھی بھی اس سے نیچے جانے کی اجازت نہ ہو۔

میڈیا کے ادارے اپنی پروڈکٹ کی بنیاد پر مارکیٹ سے بزنس حاصل کریں۔ اخبارکی کاپی پانچ روپے منافع کے ساتھ پرنٹ ہو۔ خسارے میں پرنٹ نہ ہو۔ ٹی۔ وی پر سب سے بڑا بوجھ تنخوا ہو ں کا ہو۔ آپریشن اخراجات کے حوالے سے دس سال تک ایک محدود سبسڈی/امداد دی جاسکتی ہے۔ یہی کچھ رعایتیں ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر بھی دی جاسکتی ہے۔جبکہ حکومت صحافتی گروپس کو زیرو شرح پر سود پر نرم قرضے، ان کی فیزیبلٹی کے حوالے سے دے۔ رقم کی واپسی پانچ سال کے بعد، آسان اقساط میں اگلے پانچ سالوں میں لے۔جبکہ صحافتی تنظیموں پر مکمل طور پر پابندی ہونی چاہئے۔ اور تمام پریس کلبز کو پریس کلب تک محدود کیاجائے۔ نہ کہ انہیں سیاست کا گڑھ بنایاجائے۔ جس نے سیاست کرنی ہے وہ اپنی سیاسی جماعت بنائے۔

ریاست، ملک، عوام اور صحافیوں کی سیٹھوں ، ایجنٹوں اورایجنڈوں سے جان چھوٹ جائے گی۔ آپ کو بلیک میلنگ اور زرد صحافت منہ کے بل پڑی ملے گی۔ مگر حکومتیں، ادارے اور لیڈر یاد رکھیں۔ انھیں صحافیوں سے کوئی بڑی رعایت نہیں ملے گی۔ میرٹ ملے گا۔ البتہ انھیں ٹھنڈی چھائوں میں ثبوتوں کے ساتھ پھینکا جائے گا۔ کسی ادارے میں دو نمبر صحافیوں کا کارٹل نظر نہیں آئے گا۔ آپ یہ سب کچھ کرکے تو دیکھیں۔ مزہ نہ آئے تو پیسے واپس۔(ناصر جمال)۔۔

(مصنف کی تحریرکے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسیوں کا متفق ہونا ضروری نہیں۔علی عمران جونیئر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں