تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،الفاظ کی چوٹ اور گھاؤ سے ہم سب ہی واقف ہیں لیکن زبان کی بدولت طعنہ زنی، بے عزتی اور ہراساں کرنے کا اثر غیرمعمولی اور طویل المعیاد ہوتا ہے جو درحقیقت ماضی میں تعریف اور حوصلہ افزائی کے الفاظ کو بھی گہنا دیتے ہیں۔یہ خلاصہ ہے ایک نئی تحقیق کا جو حال ہی میں منظرِ عام پرآئی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ تنقید اور حقارت بھرے الفاظ ایک گہرے لفظی تھپڑ جیسے ہوتے ہیں جس کے منفی اثرات بہت دیر تک بھلائے نہیں جاسکتے۔ یہ تحقیق ہالینڈ میں یوٹریخٹ یونیورسٹی کی پروفیسر اسٹروکسما اور ان کے ساتھیوں نے کی ہے جس میں دماغی اسکیننگ سے مدد لی گئی ۔تحقیق میں کل شرکا کے سر پر الیکٹروڈ لگا کر انہیں تلخ باتیں سنائی گئیں اور اس دوران دماغی سرگرمی یا ردِ عمل کا جائزہ لیا گیا۔ معلوم ہوا کہ تعریف اور مدح کے اثرات جلدی ختم ہوجاتے ہیں جبکہ منفی اور نفرت انگیز جملوں یا باتوں کا اثر بہت دیر تک رہتا ہے۔یہ تحقیق 80 خواتین پر کی گئی ہیں جس سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جیسے ہی ہم ہتک بھرے الفاظ سنتے ہیں تو فوری طور پر دماغ اس کا معنی اخذ کرتا ہے اور سماجی لحاظ سے طے کرتا ہے کہ کہنے والا کیا کہنا چاہ رہا ہے۔مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر آپ کے سامنے کوئی آپ کی بجائے کسی اور کی بھی بے عزتی کرے یا اسے دھتکارے تو بھی صرف سننے والے پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ لیکن جسے بولا گیا ہو وہ اس کے منفی احساس کو جھٹک نہیں سکتا۔ماہرین نے کہا ہے کہ منفی بات سن کر ہمارا دماغ عین وہی ردِ عمل دکھاتا ہے جو زوردار تھپٹر لگنے پر ہوتا ہے اوریہی وجہ ہے کہ اسے ماہرین نے ’باتوں کا طمانچہ‘ کہا ہے جو گالوں پر نہیں بلکہ دماغ پر لگتا ہے۔ یہ دماغ کی توجہ ہٹادیتا ہے اور دماغ میں طویل عرصے تک گھر بنالیتا ہے۔ماہرین نے کہا ہے کہ انسان اور دماغ کو لفظی گھاؤ سے ہونے والے جذباتی نقصان کا ازالہ کرنے میں بہت وقت لگ جاتا ہے اور وہ اسے بھلانے کی بہت کوشش بھی کرتا ہے۔اگلے مرحلے میں مردرضاکاروں پر اس کے اثرات معلوم کئے جائیں گے۔ طویل عرصے سے سائنس دانوں کے زیرِ بحث رہنے والے سوال کہ آیا زبردستی چہرے پر تاثرات لانا ہمارے جذبات کو متاثر کرسکتا ہے یا نہیں، سے متعلق اہم انکشاف ہوا ہے۔امریکی ریاست کیلی فورنیا کی اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے سائنس دان کی رہنمائی میں کام کرنے والی محققین کی عالمی ٹیم نے 19 ممالک کے 3878 افراد کا ڈیٹا اکٹھا کیا۔محققین نے تمام شرکاء کو تین برابر گروپس میں تقسیم کیا۔ ایک گروپ کو منہ میں قلم رکھنے کا کہا گیا، دوسرے گروپ کو تصاویر میں مسکراتے ہوئے اداکاروں کی طرح مسکرانے کے لیے کہا گیا اور آخری گروپ کو ان کے ہونٹوں کے کناروں کو کانوں کی جانب حرکت دینے اور گالوں کو چہرے کے پٹھوں کی مدد سے اٹھانے کے لیے کہا گیا۔ہر گروپ کے نصف شرکاء نے بتایا گیا عمل بلی کے بچوں، پھولوں اور آتش بازی کی خوشگوار تصاویر دیکھتے ہوئے انجام دیا جبکہ باقی نصف نے یہ کام ایک سادہ اسکرین دیکھتے ہوئے کیا۔ان شرکاء کو چہرے کے سپاٹ تاثرات رکھتے ہوئے بھی انہی اقسام کی تصاویر دیکھنے کے لیے کہا گیا۔ انہی کاموں میں محققین نے متعدد دیگر کام بھی شامل کیے اور شرکاء کو سادہ سے ریاضی کے سوالات حل کرنے کے لیے کہا۔ہر کام کے بعد تحقیق میں شامل افراد نے بتایا کہ وہ کتنا خوش محسوس کر رہے ہیں۔حاصل کیے جانے والے ڈیٹا کے تجزیے سے یہ معلوم ہوا کہ مسکراتی تصاویر کی نقل کرنے یا اپنے ہونٹوں کو کانوں کی جانب پھیلانے سے ان شرکاء کی خوشی میں واضح اضافہ ہوا۔ایسا کرنے کا اثر اگرچہ نسبتاً تھوڑا تھا، لیکن خوشی کے احساس میں اضافہ ویسا ہی تھا جو سپاٹ تاثرات کے ساتھ خوشگوار تصاویر کی جانب دیکھتے ہوئے ہوا تھا۔جرنل نیچر ہیومن بیہیویئر میں شائع ہونے والی تحقیق میں محققین کی ٹیم کا کہنا تھا کہ 19 ممالک کے 3878 افراد سے اکٹھا کیا گیا ڈیٹا اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ چہرے کی نقل یا قصداً چہرے کے تاثرات دینا دونوں عمل ہی خوشی کا احساس پیدا کر سکتے ہیں۔ مذکورہ بالا دونوں تحقیقات کا نچوڑ آپ لوگوں کے سامنے پیش کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ کسی کی دل آزادی نہ کیجئے بلکہ کوشش کریں کہ اپنے آس پاس کے لوگوں کے لیے خوشیوں کی فراہمی کا باعث بن سکیں۔ چلئے تو پھر اسی بات پر کچھ ہلکی پھلکی مگر اوٹ پٹانگ باتیں ہوجائیں۔۔باباجی فرماتے ہیں کہ ۔۔عورت کا دل توڑدو وہ تمہیںمعاف کردے گی، مگر کبھی اسکے جہیز کے ڈنرسیٹ کی پلیٹ مت توڑنا۔۔بسوں کے پیچھے دلچسپ جملے لکھے ہوتے ہیں، ایک روز باباجی اور ہم سڑک پار کررہے تھے کہ کہ ایک منی بس کے پیچھے لکھادیکھا۔۔جلنے والا کا منہ کالا۔۔ باباجی نے یہ فقرہ باآواز بلند پڑھ کر ہمیں سنایا اور اس جانب توجہ بھی مبذول کرائی ساتھ ہی ارشادفرمایا۔۔اگر جلنے والے کا منہ کالا ہوتا توہمارے سارے رشتے دار حبشی ہوتے۔۔باباجی کو ایک روز اداس بیٹھے دیکھا تو وجہ پوچھ لی۔۔باباجی اپنے موبائل فون ہمیں دکھاتے ہوئے فرمانے لگے۔۔ سارا ’’پلے اسٹور‘‘ چھان مارا ،وہ گیم نہیںملی جو اس نے میرے ساتھ کھیلی تھی۔۔پچھلے دنوں کراچی میں اچانک اسنیپ چیکنگ کچھ سخت کردی گئی، جگہ جگہ پولیس ناکے لگا کر شہریوں کی تلاشیاں لینے لگی۔۔باباجی نے یہ سب دیکھ کر ایسا کچھ کہہ دیا جو تاریخ کے ’’پنوں‘‘ میں نارمل انداز سے لکھے جانے کے قابل ہے۔۔باباجی کہنے لگے۔۔کوئی اربوں کھا گئے کوئی کھربوں باہر لے گئے،لیکن پکڑے وہی جاتے ہیں جو موٹر سائیکل کے کاغذات گھر بھول جاتے ہیں۔۔حالات حاضرہ یعنی ہمارے گردوپیش کے حالات ہم پر کس طرح اثرانداز ہوتے ہیں، اس کا ایک مظاہرہ پچھلے دنوں ہمارے پیارے دوست کو پیش آیا۔۔ ہمارے پیارے دوست اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ لانگ ڈرائیو پر نکلے تو ایک ٹریفک سگنل پر خواجہ سرا نے گاڑی کا شیشہ بجا دیا۔۔ہمارے پیارے دوست نے اسے ڈانٹا تو وہ تالی بجا کر بولا۔۔’’اللہ کرے، تواڈی وڈیو وی لیک ھو جاویوے ‘‘۔۔ہماری نوجوان نسل انٹرنیٹ کی کتنی عادی ہوچکی ہے۔۔ اس کا رزلٹ ملاحظہ کیجئے ۔۔مسجد میں جمعہ کے لیے بیٹھا تھا،ہمارے ساتھ بیٹھے ایک نوجوان نے اچانک کان میں سرگوشیانہ انداز میں پوچھا۔۔مسجد کے وائی فائی کا پاس ورڈ کیا ہے؟ ۔۔ہم نے اُسے جھاڑتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔اللہ سے ڈر۔۔وہ نوجوان پوچھنے لگا کہ۔۔اسپیس کے ساتھ یا بغیر اسپیس کے؟۔۔چار جواری پکڑے گئے تو اُن کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ پہلا جواری بولا۔۔ جج صاحب میں تو ہسپتال داخل تھا یہ دیکھیے میرا میڈیکل سرٹیفیکیٹ۔۔دوسرے جواری نے عرض کی۔۔دوسرے جواری نے کہا۔۔میں تو بیوی کو لینے سسرال گیا ہوا تھا، بے شک آپ میرے سسرال والوں سے انکوائری کرسکتے ہیں۔۔تیسرے جواری کا بیان تھا کہ۔۔ جج صاحب یہ دیکھیے میرے آفس کا حاضری رجسٹر میں تو کام پہ تھا۔ ۔جج نے مڑ کر باقی بچ جانے والے چوتھے جواری کی جانب دیکھا تو وہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا۔۔ جج صاحب تسی وی سیانے بندے او، کوئی اکیلا کیسے جوا کھیل سکتا ہے؟؟ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ہم اتنی سست الوجود قوم ہیں کہ آج تک ’’جاپانی پھل‘‘ کا پاکستانی نام نہیں رکھ سکے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔