تحریر: محمد نواز طاہر۔۔
یہ یاد رکھنے کی ضرورت نہیں کہ میں کب سے میڈیا انڈسٹری کے ساتھیوں کا ضمیر جھنجھوڑ رہا ہوں، بس اتنا کافی ہے کہ ضمیر کی نیند گہری ہے اور سلانے یا نیند گہری کرنے کے لئے ”لوریاں“ دینے والوں کو میری حوصلہ شکنی میں اتنی بُری طرح سے ناکامی ہوئی ہے کہ وہ اب صرف ایک لفظ ”پاگل اے“ کہہ کر اپنا ’کام‘ چلا لیتے ہیں یعنی وہ کارکنوں کو گمراہ رکھنے کی ’مراعاتی ڈیوٹی ‘پوری کرلیتے ہیں ۔ ضمیر جگانے یا جھنجھوڑنے کے لئے اب مرنا لازم ہے ہوگیا ہے ، وقتِ معینہ سے پہلے مر نہیں سکتا اور خود کشی کرونگا نہیں ، البتہ ہمارے ساتھیوں کے پے در پے اموات ( شہادتوں) نے سوشل میڈیا کی حد تک ضمیر کو تھوڑا سا ہلایا ہے ، یہ بھی سوشل میڈیا پر’ ریٹنگ ‘ کی دوڑ کی مہربانی ہے، جو بھی ہے ، آواز اُٹھ رہی ہے ۔ دو ،ڈحائی درجن گھنٹے پہلے جب میں ایک جنازے میں شریک تھا اور ارد گرد کی عمارتوں سے اندازہ لگارہا تھا کہ اسی کی دہائی کے اوائل میں ان میں سے کس کے مالک نے سوچا ہوگا کہ یہاں گھر بھی بن سکتا ہے ؟ خیر یہ تو لاہور کی زمین پر قبضوں، ملکیت اور شہر کے پھیلاﺅ کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی کا المیہ ہے اس پر بعد میں بات کریں گے ، ابھی تو اس نوجوان کا چہرہ آنکھوں سے ہٹانا ایک مسئلہ بنا ہوا ہے ، جو میں ہٹانا بھی نہیں چاہتا لیکن اس کا آنکھوں کے سامنے رہنا ذہنی کرب میں کمی کی کوئی تدبیر بھی کارگر نہیں ہونے دیتا ۔ مجھے لگ رہا تھا جیسے میں اپنے بیٹے کی میت کے پاس ساکت کھڑا ہوں ، یہ رضوان ملک تھا جسے میں پہچانتا تو تھا لیکن اس کے انتقال سے پہلے تک یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ ہمارے ہم پیشہ کن دوبھائیوں شہزاد اور شہباز ملک کا بھائی بھی ہے،اسے کچھ دیر کے بعد سپردِ خاک کیا جانے والا تھا ، وہاں ہجوم تھا ، جنازے میں شرکت کے لئے آنے والوں کہ ’فرض‘ کی ادائیگی میں بڑی جلدی تھی ،جنازہ اُٹھا کلمہ شہادت کی آواز نے خاموشی توڑی ،،، تب تک میں یہاں پہنچنے سے پہلی سنی جانے والی باتوں کے بارے میں رضوان ملک کے سینئر ساتھیوں سے کئی باتیں کرچکا تھا جن کا ان کی باتوں کے مطابق مطلب یہ تھا کہ ادارے کے مالک نے میٹنگ میں کسی ملازم کو بھی قطعی طور پر” ڈرایا دھمکایا ‘نہیں ۔۔۔میں نے وقتی طور پر تسلیم کرلیا کہ رضوان اس میٹنگ کو ’سیریس ‘ لے گیا اور کمزور دِل ہونے کی وجہ سے ’سٹریس‘ برداشت نہ کرسکا اور اپنے والد کی طرح ہارٹ کا ’شکار‘ ہوگیا۔ورنہ مالکان کی سیریس میٹنگز میں نوکری رہنے یا نہ رہنے کے خدشات کونسی نئی بات ہے ؟
سنگھ پورہ کے ’چشتیہ پارک‘ میں جنازے کے وقت رضوان ملک کے جائے روزگار کے مالک محسن نقوی اور سینئر جونئرساتھیوں کی بڑی تعداد موجود تھی ، اس جواں موت کو سٹی فورٹی ٹو چینل کے نیوز بلیٹن میں نمایاں جگہ دی گئی ، مالک کو افسردہ بھی دیکھا البتہ جب مقامی ایم پی اے کے ساتھ جپھی ڈالتے ہیں آنکھوں میں چمک دیکھی تو بہت عجیب لگا۔ایم پی اے شہباز چودھری وہی ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب خبریں گروپ کے ایک کارکن نے تنخواہ نہ ملنے پر خود کشی کی تھی تو اہلِ خانہ کو ’چُپ‘ کروانے کے لئے انہی صاحب نے اپنا کلیدی کردار ادا کیا تھا ، جنازے کے بعد واپس لوٹا تو پریس کلب میں اس جواں سال موت کے اسباب زیرِ بحث تھے۔اس موت کا ذمہ دار سٹی ٹو میڈیا گروپ کے سربراہ محسن نقوی کو ٹھہرایا جارہا تھا، میں نے اس ادارے کے ساتھیوں سے ہونے والی گفتگو سے احباب کو آگاہ کیا لیکن اس پر کسی نے اطمینان کا اظہار نہ کیا ۔ سوشل میڈیا پر’ ضمیر‘ جاگنے کے بعد بحث بڑھ گئی ، میں نے اسی ادارے کے ایک ذمہ دار برادرم عامر رضا کی پوسٹ بھی پڑھی جنھوں نے شکوک و شبہات اور تحفظات کا اظہار کرنے والوں کے خیالات کی نفی کی ہے اور ساتھ ہی اسے سٹی فورٹی ٹو کے خلاف انتخابی بغض قراردیا ، اور کہا کہ جن لوگوں نے لاشوں پر سیاست کی ہے درحقیقت انھیں پریس کلب کے الیکشن میں سٹی فورٹی ٹو گروپ سے ووٹ نہیں ملے تھے اس لئے وہ اپنا ’ساڑ‘ نکال رہے ہیں ، میں نے وہاں کمنٹ کیا کہ لاشوں پر سیاست درست نہیں ، ایسا نہیں ہونا چاہئے اورساتھ ہی یہ استفسار بھی کیا کہ اس ادارے کے ذمے کارکنوں کی کتنی تنخواہیں واجب الادا ہیں ؟ میں نے یہ بھی لکھا کہ ادارے کے ایک ذمہ دار کی حیثیت سے جو بتایا جائے گا اسے درست تصور کیا جائے گا لیکن اس کا جواب نہیں دیا گیا جبکہ اسی ادارے کے کچھ ساتھیوں سے میں پہلے ہی تفصیل حاصل کرچکا تھا جنھوں نہ چاہتے ہوئے بھی تھوڑا بہت سچ بتا دیا اور جس انداز سے ’دو مہینے ‘ کے الفاظ ادا کیے وہ لگ رہا تھا وہ خوفزدہ ہوکر بتارہے ہیں اور شائد مدت بھی کم بتارہے ہیں لیکن ان پر اعتماد لازم ہے، محسن نقوی سے میٹنگ کے بارے میں وہ کچھ نہیں بتارہے تھے ، کتنی دیر نہ بتاتے ؟ میں نے دوتین الٹے سیدھے سوال کیا تو انہوں نے میٹنگ کے کچھ کچھ’ احوال کی تصدیق کردی ، سوال ایسے تھے جیسے میں میٹنگ میں خود شریک تھا اور انہیں میٹنگ یاد کروارہا تھا ، اور وہ جان چھڑانے میں ناکامی محسوس کررہے تھے ۔ اس گفتگو حاصل ” ملک پریشان تھا ، وہ دل پر لے گیا ، خائف تھا کہ اب نوکری نہیں رہے گی ، جسامت اور حوصلہ ایسا نہیں کہ ڈولفن بائیک چلا سکے جبکہ نوکری اُسی صورت میں رہے گی جب ڈولفن چلائی جائے گی “
اس سے پہلے سیٹی فورٹی ٹو کے لوگوں سے گفتگو ہوئی تھی اس کے مطابق ” محسن نقوی کیمرہ مینوں کو رپورٹروں سے آزاد کرنا چاہتے ہیں ، ان کی استعدادِ کار بڑھانا چاہتے ہیں ، کیمرہ مین اپنے کیمرے یا موبائل فون سے فوٹیج بنائے گا اور اور جوکچھ دیکھا سنا ہوگا اس سے ڈیسک کو آگاہپ کرے گا ، ڈیسک اُسی مواد کی بنیاد پر خود مسودہ تیارع کرے گا اور اس کیمرہ مین کی رپورٹ کے طور پر نشر کرے گا ،مزید بڑی بائیک لائی جائی جائیں گی اور کیمرہ مینوں کے حوالے کی جائیں گی “
دو مختلف آرا میں مشترک بات ایک سو پچاس سی سی موٹربائیک جسے ڈولفن بائیک کہا جا رہا ہے وہ ’ مشترکہ اور مستند قرار پاتی ہے ‘ جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے یا غیر مبہم قراردی جاسکتی ہے کہ جب کیمرہ مینوں کی میٹنگ کے دوران محسن نقوی نے واضح کر دیا کہ اب کیمرہ مین وہی رہے گا اس کے تیار کیے گئے پلان کے مطابق ڈولفن بائیک پر ڈیوٹی کرے گا یعنی وہ کیمرہ مین بھی ہوگا اور رپورٹر بھی ہوگا ، رضوان ملک کی جسامت اس ڈولفن سے کافی کم تھی ، اسے احساس ہوگیا کہ میں یہ ڈولفن بائیک نہیں چلاسکتا ، وہ ذہنی دباﺅ میں رہا ۔،کمزور دل تھا اور رات کو جب ماحولیاتی آلودگی کم ہوئی تو اسے میٹنگ کی بازگشت دوبارہ سنائی دی ، دباﺅ بڑھا جس سے کمزور دل نے کمزور جسامت پر ایسا حملہ کیا کہ اسے بے حس کردیا ۔۔۔۔۔
اب اس میں محسن نقوی کا کتنا قصور ہے ؟ یہ فیصلہ جو چاہے اپنے طور پر کرلے ۔۔۔ دفتری ماحول ، میٹنگ ،نوکری باقی نہ رہنے کا تھریٹ اور انڈسٹری میں بے روزگاروں کا سیلاب۔۔۔ ایک کمزور جسامت ، کمزور دل کا کارکن مرے گا نہیں تو ۔۔۔۔۔ ؟
ایسے حالات میں جواں مرگ پر اگر کوئی بات کرتا ہے ، تحفظات کا اظہار کرتا ہے تو اسے لاشوں پر سیاست قرار دینا مناسب الفاظ ، سوچ اور رویہ قرارنہیں دیا جاسکتا ۔۔ برادرم عامر رضا خاں پی یو جے کے ایک ذمہ دار عہدیدار رہے ہیں ، جب میں پی ایف یو جے کا سینئر نائب صدر تھا ، تب یہ ایگزیکٹیو کونسل کے رکن تھے ( اور پی ایف یو جے کے آئین کی نفی کرتے ہوئے پاکستان ہاکی فیڈریشن کے میڈیا مینیجرکی حیثیت سے نوکری بھی حاصل کرلی تھی )، اور خبریں گروپ میں تھے ، اپنے ادارے کے ساتھ انتہائی مخلس اور وفادار تھے ، اُس زمانے میں خبریں گروپ کے مالک امتنان شاہد نے ایک کمزور ساتھی مستحسن ندیم کو اس بنا پر تپھڑ مارا تھا اور گالیاں بکیں تھیں کہ وہ دلبرداشتہ اپنے آنسو بھی نہیں پونچھتا تھا ، اس بابت جب پی ایف یو جے کی فیڈرل ایگزیکٹیو کونسل ( ایف ای سی ) کا پشاور میں اجلاس ہوا ، وہاں انہوں نے خبریں گروپ کی وکالت اور مستحسن ندیم کی مخالفت کی تو باقی میٹنگ باہر بیٹھ کر ایک معطل رکن کی حیثیت سے دیکھی تھی ۔ اس لئے اب اگر برادرم عامر رضا خان دوستوں کے تحفظات پر اپنے ادارے کی وکالت کرتے ہیں تو یہ ان کی اپنے ادارے سے وفاداری ہے ، اس وفاداری پر ہمیں کیا اعتراض ہے لیکن اس وفاداری میں اگر وہ دوستوں کے جاگنے والے ضمیر کو لاشوں پر سیاست قراردیں تو تو یہ قابلِ اعتراض بات ہے ۔
رضوان ملک کی جگہ دوسرا کیمرہ مین کام شروع کرچکا ہوگا ، رضوان اپنی قبر میں ہے جیسے اس سے پہلے والے ساتھی جو قلیل عرصے میں میڈیا انڈسٹری کے حالات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ، اپنی اگلی منزل پر ہے ، سوال تو یہ ہے کہ انڈسٹری میں کام کرنے والوں کے ضمیر جاگتے کیوں نہیں ؟ کیا انہیں جگانے کے لئے کوئی قبر سے آواز دے گا ؟ اگر ایسا ہے تو میں تمام شہدا سے درخواست کرتا ہوں کہ ذرا قبر سے آواز دینا میرا ضمیر سورہا ہے ،شائد جاگ جائے ۔۔اللہ تمام مرحومین کے بشری خطائیں معاف فرمائے ، ان کے درجات بلند فرمائے ، پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور ان کے حالات سازگار بنائے۔۔ آمین۔۔(محمد نوازطاہر)۔۔
(مصنف کی تحریر کے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔