زنانہ نفسیات۔۔(طنزومزاح)
تحریر: سید عارف مصطفی۔۔
کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی کام ناممکن نہیں بشرطیکہ کام خواتین کی نفسیات کو سمجھنے کا نہ ہو ، ہزارہا سال سے حضرت آدم کے نہایت سیانے فرزندوں نے بھی جس گتھی کو سلجھانے میں ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھا ہے وہ عورت کو سمجھنے کی ہی ہے۔ یہ موضوع ایک طرح سے حیرتوں کا وہ بحرالکاہل ہے کہ جس میں کل دنیا بھر کے مرد ماہرین ہمیشہ سے الٹے سیدھے غوطے لگاتے رہے ہیں لیکن انکے ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا بلکہ اس تحقیق کے دوران اکثر ہاتھ آئی ہوئی خاتون سے بھی ہاتھ دھونا پڑجاتے ہیں۔ اردو ادب میں البتہ اس حوالے سے بہت کام ہوا ہے بلکہ شاید باقاعدہ یہی ایک کام ہوا ہے اور اسی کے سبب بہتیرے نامراد عاشقوں کا بالآخر کام تمام ہوا ہے لیکن خدا ہم سے راضی ہو کیونکہ خواتین کو سمجھنے کی یہی کوشش اس وقت اس مضمون میں ہم بھی کررہے ہیں ۔ بس خدشہ یہ ہے کہ اس جوکھم کے بعد کہیں وہ ہمیں سمجھ لینے کی نہ ٹھان لیں ۔
ویسےاس ضمن میں کسی حد تک کامیابی اپنے یوسفی صاحب کو حاصل بھی ہوئی ہے اور وہ کم ازکم یہ پتا لگانے میں تو کامران رہے ہیں کہ مرد کی زندگی کا پتا اسکی نگاہ اور عورت کی حیات کا پتا اسکی زبان سے چلتا ہے ، لیکن ہماری تحقیق مزید یہ کہتی ہے کہ کسی عورت کے منہ میں اس کی زبان کو رواں رکھنے کے لیے صرف نرم تالو و گرم دہانہ ہی ہونا کافی نہیں ہیں ، کوئی نا کوئی چغلی دستیاب رہنا بھی لازم ہے پھڑکتی سی ہو تو طرز ادا میں چٹخارہ بھی بڑھ جاتا ہے ۔۔۔ چغلی کو آپ ‘فنون عفیفہ’ کا ناگزیر حصہ جانیے اور غیبت تو گویا اس آرٹ کی عوامی مگر تجریدی شکل ہے، غیبت دراصل کسی کا کسی دوسرے کے بارے میں دی گئی وہ رائے یا گرما گرم اطلاع ہوتی ہے جو صرف پیٹھ پیچھے ہی دی جا سکتی ہے سامنے اور منہ در منہ کی گئی ایسی کوئی کوشش آخری کاوش بھی ثابت ہوسکتی ہے – اسے ایک کلیہ سمجیھے کہ کسی غیبتی بیان میں حکایات کتنی ہی الجھی ہوئی کیوں نہ ہوں لیکن مقصد بالکل الجھا نہیں ہوتا ایکدم صاف اور واضح ہوتا ہے یعنی کم سے کم لفظوں میں کسی کی زیادہ سے زیادہ رسوائی ۔۔۔ تاہم چغلی ہو یا غیبت ، اگر کبھی کوئی زنانہ آئین مرتب ہوا تو ان دونوں کسب ہائے ہنر کو حقوق نسواں کا درجہ ضرور مل جائے گا کیونکہ یہ دونوں درحقیقت خواتین کی ازلی مجبوریاں ہیں اور خواتین کے لیئے انکی اہمیت آکسیجن جیسی پر تسکین ہی ہے اور کسی خاتون کو اس مفت کے ذریعہء تسکین سے محروم کرنا اسکے منہ پہ تکیہ رکھ کر سانس روکنے جیسا قبیح فعل ہے۔۔۔ تاہم نظام فطرت خواتین کیلئے انکی نشوونما و افزائش کے ایسے وافر مواقع تا عمر دستیاب رکھتا ہے۔
کوئی خاتون کبھی کیف و سرور کے عالم میں گہری گہری سانسیں لیتی دکھائی دیں تو بدگمان نہ ہوں زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ ابھی اک طویل غیبت سے فارغ ہوئی ہے- ہم مرد لوگ تو کسی نڈھال سی خاتون کے پژمردہ چہرے پہ یکایک اک تازگی سی دوڑجانے اور لہجے میں اچانک شادابی بڑھ جانے سے ہی یہ سب قیاس کرسکتے ہیں۔۔
شہری اور دیہی خواتین البتہ اس غیبتی آرٹ میں یکساں مہارت کی حامل نہیں ہوتیں ۔۔۔ دیہی خواتین نہایت گونجتی ہوئی زناٹے دار غیبت پہ یقین رکھتی ہیں کہ جو کم ازکم آس پڑوس میں وہاں تک ضرور سنی جاسکےکہ جہاں پہ انکا ‘ معتوب ‘ موجود ہے۔۔۔ اسی لیئے اکثر مضر اثرات بھی فوری ہویدا ہوتے ہیں اور ہلکی پھلکی بیت بازی کے بعد اکثر تھوڑی دیر بعد ہی فریقین گلی کے وسط میں اک دوسرے کا چونڈا پکڑے دھوم دھڑکے سے ‘غزلاتے’ نظر آتے ہیں ،جبکہ شہری خواتین بالعموم اس نفاست سے یہ کام کرجاتی ہیں کہ ‘نشانہ’ بننے والے کو بھی بعد ہی میں سمجھ آتی ہے ۔ بعضے ناسمجھدار اہداف تو ایسی شہکار چاند ماری کے پہلے مرحلے میں دوہرے ہو ہوکر غیبت کنندہ کا شکریہ ادا کرتے بھی دیکھے جاتے ہیں- سیانے کہتے ہیں کہ عورت کو سمجھانے کی کبھی کوشش نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ اسے کیا سمجھنا ہے یہ آپ ہرگز نہیں سمجھ سکتے اور خصوصاًًًا گر وہ آپکی بیوی ہو ۔ یہاں آکر سبھی لغات و تشریحات دم توڑ دیتی ہیں ،، کیونکہ آپکی کس بات سے کس وقت وہ کیا مراد لے گی ، ابتداء سے انتہا تک یہ معاملہ صرف اسکے اور خدا کے بیچ رہتا ہے۔
کسی خاتون کے نزدیک کسی لفظ کے اصلی معنی کیا ہیں اسکی تفصیل صرف اس لغت میں ہوتی ہے کہ جو ساری عمر اٙن دیکھی رہتی ہے لیکن جو ہر وقت اسکے اوراسکے اہل میکہ کے زیر استعمال رہتی ہے ۔
سیانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی خاتون سے خصوصاً اپنی بیوی سے ہرمعاملے میں فوراً متفق ہوجانا خاصا احمقانہ عمل ہے اور کسی طور خطرے سے خالی نہیں ، کیونکہ ایک تو اس سے اسکے جہادی عزائم کی صحیح طور پہ تسکین نہیں ہوپاتی اور برسوں سے حاصل کردہ صلاحیت فساد ماند پڑنے کا خدشہ رہتا ہے تو ساتھ ہی اسے صحیح طور پہ یہ اندازہ بھی ہونے لگتا ہے کہ آپ اس میں اب دلچسپی نہیں لے رہے ہیں یا کم دلچسپی لے رہے ہیں کیونکہ اختلاف کے اظہار ہی کو وہ محبت کی علامت سمجھتی ہیں ۔۔۔ انکے خیال میں جلدی اتفاق کرلینا ‘جلدی جان چھڑانے کی خواہش کے عملی اظہار کے مترادف ہے ،خواتین یا بیویوں سے گفتگو کرتے ہوئے مردوں کو جو ایک بڑا مسئلہ درپیش رہتا ہے وہ یہ ہے کہ عام طور پہ ان کی گفتگو میں سراسر مقامی تشبیہات و علاقائی تراکیب استعمال کی جاتی ہیں ، لیکن معانی و مفاہیم کا دائرہ اکثر بین الاقوامی نوعیت کا ہوا کرتا ہے اور تشریح کی باگیں بھی انہی کے اپنے ہاتھوں میں رہا کرتی ہیں، تاہم انکے الفاظ کے معانی کا سرچشمہ یا خاص منبع کوئی اور نہیں وہی ان دیکھی ‘اندرونی’ لغت ہوتی ہے کہ جسکی بانی انکی والدہء محترمہ اور نانی ہوا کرتی ہیں اور ہر امن پسند مرد کو بالخصوص شوہر کو ان باکمال ہستیوں کو علم و فضل اور ذہانت کا اک ایسا بیکراں سمندر سمجھنا چاہیئے کہ جہاں سارے سینہ گزٹ علوم کی ندیاں اور افلاطونی دانش کے دریا آن گرتے ہیں ۔
دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ایسے لوگ کہ جو سخت عاقبت نا اندیش ہیں اور اسی وصف خاص کے سبب ، اسی خاتون سے شادی کربیٹھتے ہیں کہ جس سے محبت کرتے رہے ہوں تو انہیں ایک عجب صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔۔ شادی سے قبل کے دنوں میں ادل بدل کر نئے نئے پیرائے سے بار بار یہ بات پوچھی جاتی ہے کہ ” تم بعد میں کہیں بدل تو نہ جاؤ گے” گویا نسوانی مغالطہ یہ ہے کہ کوئی بھی عاشق ، اپنی اندرونی بناوٹ کے لحاظ سے ایسا چغد بدرجہ اؤل واقع ہوا کرتا ہے کہ ایسی ہلکی بات کے نتیجے میں فوراً اپنے ہرجائی پن کے سارے بھاری منصوبے کا پورا پلان اور شیڈول اسی وقت کمال معصومیت سے اس عفیفہ کے سامنے کھول کے رکھ دے گا، اور اپنا کمینہ پن اس پہ پوری طرح اجاگر کرنے کے بعد فرط ندامت سے وہیں کان پکڑ کر مرغا بن جائے گا، لیکن شادی کے فوراً بعد ایسی ہر بدگمانی کو از خود یقین میں بدل کر اکثر یہ ارشاد ہوتا ہے، ” آپ پہلے سے کتنا بدل گئے ہیں “۔۔ گمان سے یقین تک کا یہ سفر طے کرنے میں اکثر مرد کا کوئی خاص کردار نہیں ہوتا ، سوائے اسکے کہ اسکی احتیاط اور چوکنے پن میں کہیں اک ذرا سی چوک ہوجائے یا پچھتاوے کی ٹھنڈی سانس ذرا زور سے لے لی جائے ۔۔ یا کوئی غمگین گانا دہرا کے سن لیا جائے تو بس پھر اک ایسا ملامتی راگ بزبان زوجہ بالاقساط جاری ہوکے رہتا ہے کہ جسکی ہر قسط کے بول تو یکساں ہوتے ہیں لیکن انترے اور پینترے روز بدلتے رہتےہیں
خواتین کو سمجھنے کے سلسلے میں یہ جاننے کے لیئے کہ وہ کونسی باتیں اور افعال ہیں جو ان کو بہت مرغوب ہیں تو ابتک اسکی کوئی حتمی لسٹ دنیا میں کہیں بھی مرتب نہیں ہوسکی ہے کیونکہ خواتین خود بھی اس پہ پوری طرح متفق کبھی بھی نہیں ہوپائی ہیں اسی طرح یہ بھی یقین سے نہیں بتایا جاسکتا کہ کونسی چیزیں یا کام خواتین کو مشتعل کرنے کا سب سے زیادہ یقینی سبب بنتے ہیں کیونکہ اگر سائنسی بنیادوں پہ یہ وجہ معلوم ہوجائے تو ستائے گئے لوگوں اور خواتین کی فطری افزائش و نمو کے اعددوشمار بہت حد تک خطرے میں پڑ سکتے ہیں ۔ ویسے تو یہ معاملہ بھی بہت بڑا اچنبھا ہی ہے کہ کبھی کبھی معمولی سی بات بھی کسی خاتون کو آمادہ پیکار کردیتی ہے تو کبھی بڑی بڑی غلطیوں پہ بھی غافل پائی جاتی ہیں ، تاہم اس مد میں خواتین کی دلچسپیوں کی بابت ابتک جو اندازے لگائے جاسکے ہیں انکے مطابق خواتین کی تعریف نہ کرنا ہر حالت میں زنانہ آئین میں سنگین ترین آفاقی جرم ہے اور اگر یہ آئین کہیں نافذ ہوجائے تو اس جرم کے بدبخت مرتکبین کو کم ازکم ایک پھانسی کی سزا تو یقینی ہے۔ ہر بالغ مرد کو اس بھیانک جرم سے بچنا چاہیئے اور کوئی خاتون اگر اسکے سامنے کوئی خاص ڈش پکا کر لائے تو اسے اپنے منہ کو کھانا کھانے سے زیادہ فوراً اسکے ذائقے کی مدح و ستائش کیلئے وقف کردینا ہی عین دانشمندی ہے ، منہ سلامت رہے تو کھانوں کی کیا کمی ہے ، زیادہ درست طور پہ سمجھا جائے تو یہیں سے باقی ماندہ ازدواجی حیات میں (اگلی ڈش تک) راحت و سکون کے رستے کھلتے ہیں ۔۔۔ لیکن صرف تعریف ہی کافی نہیں ، اپنی پائی ہوئی عزت کو فوراًً ہی نہ کھودینے کیلیئے ضروری ہے کہ آپ ضبط کرنا سیکھیں اور کھانے کے چند ہی لمحوں کے اندر واش بیسن میں کچھ تھوکتے یا کوئی سیال انڈیلتے نہ پکڑے جائیں ۔۔۔
یہ بھی جان رکھنا بیحد ضروری ہے کہ کسی خاتون کا دل جیتنے کیلئے صرف اسکے پکائے کھانے ہی کی تعریف ہی لازمی نہیں ہے ، بلکہ وہ تمام چیزیں جو اسکی ذات سے جڑی ہوئی ہیں ان سب پہ پورا دھیان دینے اور باری باری حسب موقع ان سب کی تعریف کو ناگزیر سمجھا جانا چاہیئے اس میں بس اک سہیلیوں کی تعریف ہی داخل مستثنیات ہے، بلکہ لائق سزا ہے ، حالانکہ یہ خاصا سہل بھی ہے اور مناسب حد تک خوشگوار بھی، ہر عورت کے خیال میں ہرمرد کو دنیا کے عظیم ، کامیاب اور قابل فخر لوگوں کے گروہ کی رفاقت نصیب ہوسکتی ہے، بشرطیکہ وہ اس سے شادی کرلے جسکے باعث اسے ہمالیائی عظمت کے حامل سبھی نادر و نایاب لوگ سسرال والوں کی صورت میں ایک ہی خاندان میں اکٹھے ہی مل جائینگے، ازدواجی خوشیوں کی بلا تعطل سپلائی یقینی بنائے رکھنے کیلئے لازم ہے کہ سسرالیوں کی تعریف اٹھتے بیٹھتے کی جائے اور ہر آن اپنی خوش قسمتی پہ سجدہء شکر بجالاتے رہنا ہر خاوند پہ نا صرف واجب ہے بلکہ فرض عین کے درجے میں ہے۔ یہ نہ ہو تو ازدوجی زندگی عین غین ہی رہتی ہے-
اسی طرح یہ بھی لازم سمجھیئے کہ اگر آپکی بیگم یا بیگم نما خاتون کسی تقریب کے موقع پہ یا ویسے ہی کبھی سج سنور کے آپکے سامنے آئیں تو تاریخی و دیرینہ روایت کی رو سے لازم ہے کہ آپ انہیں دیکھتے ہی پوری مستعدی کے ساتھ مارے حیرت کے پورا منہ کھول لیں اور اپنی تمام سانس اس طرح یکایک اندر کھینچ لیں کہ اس سے ناز و مسرت کے سوا کوئی اور تاثر نہ ابھرتا ہو ، اور کچھ دیر کےاس حبس دم کےبعد جب یہ پھولی ہوئی سانس خارج کریں تو ساتھ میں بہت سے پھولے ہوئے تعریفی کلمات کا ریلا بھی باہر آجائے۔۔۔ ان کلمات کی ادائیگی بھی اک خاص طرزادا کا تقاضا کرتی ہے لہٰذا جھوم جھوم کر ادائیگی ہی مجرب ہے اور اس کیلئے اپنے ذہن میں پہلے سے متعدد اسلوب کے فقرے تراش رکھیں یا پھر رضیہ بٹ کے ناولوں اور پرانی بھارتی رومانی فلموں سے مواد لیں ۔ اسکا تردد مطلق نہ کریں کہ اس وقت آپ سچائی سے کتنی دور ہیں ، کیونکہ کبھی کبھی سچائی سے ایسے بھیانک نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں کہ آپ آئندہ مزید سچ بولنے بلکہ کچھ بھی بولنے کے قابل ہی نہیں رہتے ۔ اسے بھی ایسا ہی ایک موقع سمجھیں ۔۔ بعد میں بے شک استغفار کرلیں ، اللہ غفورالرحیم ہے اور مجبوروں پہ ترس کھانا اسکی صفت ہے۔۔
یہ بھی پلے سے باندھ لیجیئے کہ ایسے موقع پہ خاتون کی آنکھوں کی جانب ممکنہ حد تک دیدہ دلیری سے دیکھنا چاہیئے کیونکہ نظریں چرا کر بولے جانے والا سچ بھی ایک مستند جھوٹ سمجھا جاتا ہے۔اس میں بڑے گُر کی بات یہ ہے کہ کم ہمت لوگ بھی اس موقع پہ یہ جسارت کرسکتے ہیں کیونکہ جب وہ طویل توصیفی کلمات کی باڑھ مارتے ہوئے اپنی خاتون کی آنکھوں کی جانب دیکھیں گے تو انہیں کمال نشاط کے باعث خاصا خمار آلود پائینگے جو کہ افراط سرور سے غشی کی سی کیفیت میں تقریباً نیم وا ہی ہونگی اور ایسے میں مخاطبہ کی جانب سے سچ اور جھوٹ کی جانچ کا کوئی خدشہ باقی رہ پانا ممکن ہی نہیں رہتا ۔۔۔ اسے ایک آزمودہ سچ جانیئے کہ کسی دائم نشئی کو کوئی گاڑھا نشہ بھی وہ کیف نہیں دے پاتا کہ جو کسی خاتون کو جم کےدھڑلے سے ، منہ در منہ بولے گئے، تعریف کے 4-6 بول آن کی آن دے جاتےہیں ۔(سید عارف مصطفی)