تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، بچپن سے سنتے آرہے ہیں، تندرستی ہزار نعمت ہے۔۔ یعنی ’’تن درستی‘‘ کو ہزار نعمت قرار دیاگیا ہے۔۔ یہ جس نے قرار دیا وہ یقینی طور پر ’’زن درستی‘‘ سے لاعلم ہوگا۔۔ ہمارے محترم دوست عبدالحکیم ناصف جو کہ معروف مزاحیہ شاعر بھی ہیں انہوں نے تندرستی کی ٹکر پر ’’زن درستی‘‘ کو متعارف کرایا ہے۔۔ بقول عبدالحکیم ناصف صاحب کہ۔۔انتخاب اس کا سوچ کر کیجو، ورنہ ہستی مری قیامت ہے۔۔تن درستی کی فکر چھوڑ ابا، ’’زن درستی‘‘ ہزار نعمت ہے۔۔ہم چونکہ حکیم صاحب کے متاثرین میں شامل ہے اس لیے آج ’’زن درستی‘‘ پر کچھ اوٹ پٹانگ باتیں کی جائیں گی۔۔
جب کوئی عورت یہ کہے اس دنیا کے سارے مرد جھوٹے اور بے وفا ہیں کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا اس نے دنیا کے سارے مردوں کو آزما لیا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے جس شخص کو آزمایا وہ اکیلا اس کے لیے پوری دنیا کے برابر تھا۔۔اسی پرایک واقعہ یاد آگیا، ہمارے پیارے دوست اپنی گرل فرینڈ سے رومانٹک موڈ میں کہہ رہے تھے، مجھے تمہاری آنکھوں میں پوری دنیا نظر آرہی ہے۔۔پاس سے گزرنے والے نوجوان نے جو شاید فیصل آبادی تھا درمیان میں دخل درنامعقولات کرتے ہوئے بول پڑا۔۔ میری جوتی دیکھنا جو کل مسجد سے ’’گواچی‘‘ گئی تھی۔۔۔ایک ڈھول والا شادی میں ڈھول بجا رہا تھا ،ڈھول کے دونوں طرف دو مختلف عورتوں کی تصویریں تھیں۔۔یہ دیکھ کر ایک بزرگ نے اس سے پوچھا ۔۔خوبصورتی کے پجاری لگتے ہیں ۔۔ڈھول والا مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔پجاری جیسی کوئی بات نہیں۔۔ڈھول کے ایک طرف میری ساس کی تصویر ہے،دوسری طرف آپ سمجھ گئے ہوں گے، گھر میں یہ موقع نہیں ملتا، اس لیے یہاں دے دھنادھن۔۔۔ساسوں سے متعلق یہ نظریہ عام ہے کہ انہیں اپنی بیٹیاں،بیٹیاں لگتی ہیں اور بہوئیں ’’غلام‘‘، ساس کبھی بہو کو بیٹی تسلیم ہی نہیں کرتی، (یہ ہم اکثریت کی بات کررہے ہیں) حالانکہ ساس بھی کبھی بہو تھی۔۔شوہروں سے پوچھوتو وہ بتاتے ہیں کہ ساس ہی اپنی بیٹی کو خوب سکھاتی ہے۔۔
بیگم صاحبہ کسی بھی گھر کی ’’وزیرداخلہ‘‘ ہوتی ہے، یعنی ’’دخول ‘‘ کے تمام معاملات انہی کے سپرد ہوتے ہیں،کس کا گھر میں داخلہ ہوگا کس کا داخلہ ممنوع ہے، کس بچے کا کون سی کلاس میں داخلہ کرانا ہے، کس رشتے دار سے ملنا ہے،کس کی انٹری بند ہے، کس بچے کا خرچہ بند کرنا ہے، ایسے کئی مسائل پر بیگم صاحبہ کی کافی گہری نظر ہوتی ہے، ایک بیگم صاحبہ نہایت گڑگڑا کر اور بہت ہی خشوع و خضوع سے رب تعالیٰ کی بارگاہ میں دعاگو تھی کہ۔۔ یااللہ میرے شوہر کو بہت سارا پیسہ دے، اچھی سی گاڑی دے، بہترین سے بنگلہ دے، باقی اس سے لینا میرا کام ہے۔۔ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ ۔۔ دعاؤں میں ہیرپھیر نہیں کرنی چاہیئے ،صدق دل سے جو دعا کی جائے اللہ تبارک و تعالیٰ ضرور سنتا ہے اور اسے پوری بھی کرتا ہے۔۔ایک لڑکی نے بہت عقیدت و احترام سے نماز پڑھی پھر دعا کی کہ۔۔یااللہ میں اپنے لیے کچھ نہیں مانگتی بس میری امی کو ایک خوب صورت اور امیروکبیرداماد عطا فرما۔۔کچھ دنوں کے بعد دعا قبول ہوئی اور اس کی چھوٹی بہن کی شادی ہوگئی۔۔اسی لیے ہمارے پیارے دوست کا کہناہے کہ جو دل میں ہو وہی دعامانگو۔
ایسا ہی ایک بیوی کے ہاتھوں ستایا ہوا شوہرکسی کے بتانے پر ایک ’’آستانے‘‘ گیا، جہاں سات ملنگ سات چٹائیوں پر لیٹے ہوئے تھے،مظلوم شوہر نے سب سے بڑے ملنگ سے کہا، باباجی میری بیوی بہت لڑاکا ہے،کوئی حل بتادیں۔۔اس ملنگ نے سب سے چھوٹے ملنگ کو آواز دی۔۔چھوٹو ایک چٹائی اور بچھا دے۔۔کچھ بیویاں اتنی بے حس ہوچکی ہوتی ہیں کہ جب فلیٹ کے دروازے پر دستک ہوئی،اندر سے عورت نے آوازدے کر پوچھا۔۔کیابات ہے، کون ہے؟؟۔۔ باہر سے آواز آئی۔۔بی بی ہم پولیس والے ہیں،آپ کے شوہر کی لاش لے کرآئے ہیں، ان کے اوپر سے روڈ بنانے والا’’بلڈوزر‘‘ گزرگیا تھا۔۔ خاتون کی آواز آئی، تو پھر مجھے دروازے پر بلانا ضروری ہے کیا ،دروازے کے نیچے سے اندر کھسکا دو۔۔بیوی نے گھبرائی ہوئی آواز میں شوہر سے کہا کہ شادی کی رات جو سونے کی انگوٹھی آپ نے مجھے تحفے میں دی تھی ، وہ آج کہیں گم ہو گئی ،جس پر شوہر نے کہا،اچھا ، عجیب اتفاق ہے کہ آج میرے کوٹ کی جیب میں سے بھی پانچ ہزار کا نوٹ غائب ہے،مگر مجھے نوٹ گم ہونے کا اتنا غم نہیں۔۔بیوی نے چونک کے پوچھا، کیوں ؟ ۔۔۔شوہر نے جواب دیا،اس لیے کہ تمہاری کھوئی ہوئی انگوٹھی مل گئی ہے، بیوی خوشی سے نہال ہوکر بولی، واقعی ؟ کہاں سے ملی۔۔شوہرنے کہا، میرے کوٹ کی جیب میں تھی جس میں سے پانچ ہزار روپے غائب ہوئے تھے۔یہ تو خیر ایک لطیفہ تھا۔ مگر اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایسی بہت سے بیویاں ہیں کہ جو اپنے شوہروں کی جیب پر ہاتھ صاف کرتی رہتی ہیں۔ زیادہ کمانے والا شوہر ہو تو جیب سے پیسے غائب ہونے کا اتنا زیادہ پتا نہیں چلتا اور اگر اندازہ ہو بھی جائے تو شوہر کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ ہاں اگر شوہر کوئی ملازمت پیشہ ہو یا کم آمدن ہو اور بیوی ایسی مل جائے تو بس پھر اس بیوی کی خیر نہیں، آئے دن لڑائی جھگڑے اس گھر کا مقدر بن جاتا ہے۔ بسا اوقات یہ لڑائی جھگڑے بڑھتے بڑھتے علیحدگی تک پہنچ جاتے ہیں۔۔ویسے یہ بات بھی اپنی جگہ تلخ حقیقت ہے کہ آج کل کی بیویاں اپنے شوہر نامدار کی درجن بھر گرل فرینڈز تو برداشت کرلیتی ہیں لیکن ’’حلال‘‘ سوکن نہیں۔۔
طنزومزاح جہاں سنجیدگی سے کیاجانے والا تخلیقی عمل ہے وہیں یہ ذہانت اور فطانت کا کام بھی ہے۔۔ ایک لطیفہ یوں ہے کہ دوزخ میں چند عورتیں مستیاں کررہی تھیں۔ شیطان نے حیرت کا اظہار کیا کہ یہ کون ہیں جو یہاں بھی خوش ہیں؟ فرشتہ نے جواب دیا۔ یہ سسرال میں ستائی ہوئی بہوئیں ہیں۔ دوزخ میں آتے ہی ایڈجسٹ ہوجاتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ بالکل سسرال والا ماحول ہے۔کہاجاتا ہے اوریہ عالمی سچائی بھی ہے کہ ۔۔لڑکیاں زندگی کے ہرموڑ پر ڈرتی ہیں،اکیلی ہوں تو سنسان راستے کا ڈر، بھیڑ میں لوگوں کا ڈر، بازار میں نوجوان لڑکوں کا ڈر، بچپن میں والدین کا ڈر، جوان ہوں تو بھائیوں کا ڈر، وہ تب تک ڈرتی رہتی ہیں جب تک کوئی جیون ساتھی نہیں مل جاتا اور یہی وہ شخص ہوتا ہے جس سے وہ اپنے سارے پرانے بدلے چکاتی ہیں۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔آنسو چھپانے میں مسکراہٹ ہی ہمیشہ مدد دیتی ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔