mamnooa funding ka faisla or kaptaan ka mustaqbil

ضمنی جیت اورعمران خان کی خواہش

تحریر:  جبار چودھری

پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کو مبارک ہو کہ انہوں نے پنجاب میں ضمنی الیکشن کا معرکہ واضح مارجن سے جیت لیاہے۔وہ اس جیت کو عمران خان کے سازشی بیانیے کی جیت کہیں یا حقیقی آزادی حاصل کرنے سے تعبیر کریں ان کی مرضی اور منشا ہے لیکن حقیقت میں یہ سیاست ہے اور سیاست ہی رہے گی۔ میں اس کو اس نظریے سے دیکھتا ہوں کہ پنجاب میں حمزہ شہبازکی وزارت اعلیٰ کی بنیاد ہی غلط رکھی گئی تھی آئین کے خلاف رکھی گئی تھی اورجس عمارت کی  بنیاد غلط ہو، اسے گرنا ہی ہوتا ہے اگر خود سے نہ گرے تو اس کوبنانے والے گرادیتے ہیں۔سواگریہ عمارت گربھی جائے تو کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہئے۔ پنجاب میں اپنے ووٹ پورے نہ ہونے پر پی ٹی آئی کے پچیس ارکان سے ووٹ لینا ہی آئین کی منشا کے خلاف تھا جو جنہوں نے آئین کے خلاف کام کیا اس کی سزاانہیں عوام نے دے دی۔

یہ بیس کی بیس نشستیں بحرحال پی ٹی آئی کی تھیں جو ساری کی ساری انہیں واپس ملنی چاہیے تھیں لیکن اس میں سے بھی پانچ کم ہوگئیں۔ یہ کیوں کم ہوئیں یہ سوچنے والی بات ضرورہے لیکن الیکشن میں ایسی اونچ نیچ ہوجاتی ہے۔ لیکن ایک حکومت میں  ہوتے ہوئے ضمنی الیکشن میں اس طرح کے نتائج آنا ن لیگ کے لیے سوچنے کو مقام اور موقع ضرور ہے۔آپ جتنے بھی پیارے ہوں لیکن بھوکے کے سامنے انتخاب روٹی ہی ہوگا آپ چاہے سونے کے بھی بن جائیں آپ بھوکے کا انتخاب نہیں ہوسکتے۔ اس وقت ملک میں مہنگائی تینتیس  فیصد کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ پٹرول  تاریخ کی بلندترین قیمت پر میسر ہے۔ڈالر نیچے آنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کی خبر آگئی لیکن قرضہ ابھی ملا نہیں ہے۔کھانے پینے کی ہر چیز دگنے دام تک چلی گئی ہے ایسے میں ووٹ دینے والے اپنا غصہ نہ نکالیں تو کیا کریں۔ پھر یہ تو وہی رجحان ہے جو پہلے سے چلا آرہا ہے کہ  پی ٹی آئی کے دورحکومت میں چودہ حلقوں میں ضمنی الیکشن برپا ہوئے اور ایک کے علاوہ تمام کے تمام ہی حکمران جماعت پی ٹی آئی ہار گئی تھی اور وجہ اس وقت بھی یہی مہنگائی ہی تھی۔ لوگ حکمرانوں سے مہنگائی میں کمی کی توقع رکھتے ہیں اور یہ ان کا حق بھی ہے کہ جس حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں وہ ان کے لیے آسانیاں بھی پید اکرے۔ اگر کوئی حکومت ایسا نہیں کرے گی تو وہ ووٹ سے بدلہ لینے کا پورا حق رکھتے ہیں۔

چلیں پنجاب میں الیکشن ہوگیا۔ پی ٹی آئی نے جیت لیا لیکن کیا عمران خان کی منشا یہ پنجاب میں دوبارہ حکومت حاصل کرنا تھا۔نہیں ہرگز نہیں۔ وہ پنجاب میں نہیں پورے ملک میں دوبارہ حکومت چاہتے ہیں اور حکومت بھی  ایسی کہ ان کو دوتہائی اکثریت میسرآجائے۔ خیر رہتی دنیا تک اس تقسیم کے ساتھ اب دوتہائی اکثریت کے خواب بس  خوابوں تک ہی اچھے لگیں گے،عملی طورپر دوتہائی اکثریت ممکن ہی نہیں رہ گئی۔ کسی کو سادی اکثریت مل جائے تو یہی بہت ہے۔سوال یہ ہے کہ عمران خان کو دوبارہ حکومت کیسے ملے گی۔ یہ بات بھی لکھ کر رکھ لیں کہ اگر کسی کی یہ سوچ ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں پنجاب میں کوئی سیاسی استحکام آجائے گا تو غلط ہے۔ پنجاب میں سیاسی عدم استحکام کم ہونے کی بجائے بڑھے گا۔ ابھی بائیس تاریخ تک چار دن پورے باقی ہیں۔پرویزالہٰی سکون سے وزیراعلیٰ بن پائیں گے اس کی بھی کوئی گارنٹی ابھی تک نہیں ہے۔ کیا ن لیگ اس ہار کے بعد خاموش ہوکر بیٹھ جائے گی یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔اب کوئی مزید منحرف  نہیں ہوگا یہ گنجائش کیاختم ہوگئی ہے یہ سوال بھی ادھر ہی ہے۔

خیر ہم آگے کے منظرنامے کی بات کرتے ہیں تو آگے عمران خان کو فوری عام انتخابات کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے دور حکومت کی ناکامیوں۔ مہنگائی۔بیڈ گورننس اور عثمان بزدار جیسی نابغہ روزگار ہستیوں کے ذکر سے بچے رہیں اوراسی طرح حقیقی آزادی اورغیرت کا چورن بیچتے ہوئے اگلے الیکشن کی مہم چلالیں۔وہ عام انتخابات انہیں کیسے ملیں گے یہ ہے ملین ڈالر کا سوال۔ کیا وہ پرویزالٰہی کو وزیر اعلیٰ بنواکر اگلے ہی دن اسمبلی تحلیل کروالیں گے۔ جواب ہے نہیں۔ پرویزالٰہی کہہ تو رہے ہیں کہ وہ پانچ سیکنڈ نہیں لگائیں گے اور اسمبلی تحلیل کردیں گے لیکن کیا یہ اتنا ہی سادہ ہوگا۔ اگر پنجاب کی اسمبلی تحلیل کرتے ہیں تو یہ دوشرائط پر ہوگی۔ایک تو پرویز الٰہی عمران خان سے یقین دہانی لیں گے کہ عام انتخابات کے بعد اگلے سیٹ اپ میں بھی پرویزالٰہی ہی پنجاب کے وزیراعلیٰ بنیں گے۔ عمران خان کسی اور وسیم اکرم کو تلاش نہیں کرے گا۔ اس کے بدلے پرویزالٰہی خود اگلا الیکشن پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر لڑیں گے۔یا انہیں مجبوری میں لڑنا پڑے گا تاکہ پی ٹی آئی کے لیے پرویزالٰہی کو قابل قبول بنایاجاسکے۔ دوسری یقین دہانی یہ ہوگی کہ پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے سے ملک میں عام انتخابات کا راستہ ہموار ہی نہیں بلکہ لازمی اس طرف جائے گا۔

پہلی یقین دہانی تو ممکن ہے کہ پرویز الٰہی اقتدار کے لیے بھائی تو کیا ماں باپ کو بھی چھوڑ سکتے ہیں پارٹی چھوڑکر پی ٹی آئی میں جاناتو چھوٹی سی بات ہے لیکن مسئلہ دوسری یقین دہانی کا ہوگا۔یہ بات طے ہے کہ ملک میں عام انتخابات صرف دوصورتوں میں ہوسکتے ہیں ایک یہ شہباز شریف کی حکومت گرجائے  اتحادی نکل جائیں اور صدر فوری طورپرانہیں اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ دیں۔ نمبرپورے نہ ہوں شہبازشریف اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام ہوجائیں ان کی حکومت تحلیل ہوجائے اورعام انتخابات ہوجائیں۔ دوسری صورت صرف یہ ہے کہ شہبازشریف خود عام انتخابات میں جانے کا فیصلہ کرلیں۔کیایہ دوسری صورت ممکن ہے تو آج کے دن تک کا جواب یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ ن لیگ کے لیے یہ سراسر نقصان کا سودا ہے۔ لوگ مہنگائی کا ذمہ داران کو سمجھتے ہیں۔ پٹرول اب عمران خان نے نہیں شہبازشریف نے مہنگا کیا ہے۔لوگ عمران خان کی مہنگائی بھول چکے اب انہیں اس حکومت کی مہنگائی یاد ہے۔ یہ سو وضاحتیں کریں کہ ملک ڈیفالٹ سے بچایا یا عمران خان کے معاہدے کی وجہ سے مہنگائی ہوئی ہے کام نہیں بنے گا۔ اس وضاحت کا نتیجہ ضمنی الیکشن میں آچکا ہے۔ اگر اس وقت عام انتخابات نہیں ہوتے توپھر عمران خان کو یہ الیکشن جیتنے کا کیا فائدہ ہوگا؟

سوال  یہ بھی ہے کہ کیا پنجاب میں پی ٹی آئی کے ہوتے مرکز میں شہبازحکومت چلتی رہے گی تو جواب ہے کہ مشکل ہوگا لیکن چلتی رہے گی۔اگر حکومتوں نے مدت پوری کی تو پھر عمران خان کویہ الیکشن جیتنے اورنعرے بازی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ انہیں فوری الیکشن چاہئیں اور یہ ممکن صرف اس صورت ہوسکتے ہیں کہ عمران خان اپنی اناکابت توڑیں۔ اس حکومت کے ساتھ بات کریں۔ انہیں سمجھائیں کہ ملک ایسے چلنا ممکن نہیں ہے۔ کچھ لے دے کر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کیا جائے۔ گرینڈ ڈائیلاگ کیا جائے۔ اگر عمران خان کی ترجیح یہ ملک پاکستان ہے تو انہیں ایسا کرنا چاہئے اگر ترجیح صرف اپنی ذات ہے تو پھر لگے رہیں۔(جبار چودھری)۔۔

chaar hurf | Imran Junior
chaar hurf | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں