تحریر: علی حسن۔۔
نجاب میں صوبائی اسمبلی کی بیس نشستوں پر 17جولائی بروز اتوار ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج سامنے آگئے ہیں۔ پندرہ نشستوں پر عمران خان کی تحریک انصاف کے نامزد امیدوار کامیاب ہو گئے ہیں۔ چار نشستوں پر ن لیگ کے امید وار کامیاب قرار پائے ہیں اور ایک آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ انتخابات ان نشستوں پر کرائے گئے ہیں جنہیں تحریک انصاف سے منحرف ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دیا تھا۔ منحرفین کو ن لیگ نے اس زعم میں ٹکٹ دے دیا تھا کہ ن لیگ عوام میں مقبول ہے جسے چاہے ٹکٹ دے کر کامیاب کرا سکتی ہے۔ ان انتخابات میں کامیابی پر مختلف تبصرے کئے جارہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ہمارا مقالہ پی ٹی آئی سے نہیں بلکہ مہنگائی سے تھا۔ ن لیگ کے لندن میں بیٹھے ہوئے قائد میاں نواز شریف اسے مشکل فیصلوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ نواز شریف پاکستان کی سیاست کے لئے سپریم کورٹ سے ناہل قرار دئے جا چکے ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں پارٹی کے تجربہ کار رہنماﺅں کی موجودگی کے باوجود نواز شریف نے اپنی بیٹی مریم نواز کو اپنی سیاسی جماعت ن لیگ کی سینئر نائب صدر نامزد کر دیا تھا ۔ جس کے بعد مریم نے بھی اپنے سیاسی تجربہ سے کہیں آگے بڑھ کر اپنی حیثیت کو استعمال کیا۔ انہیں پارٹی رہنماﺅں نے عوام کے لئے کشش رکھنے والی رہنماءسمجھ کر قبول کر لیا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ مریم پی ڈی ایم ہو یا ن لیگ کے جلسوں میں عوام کے لئے باعث کشش ضرور تھیں لیکن عوام نے صرف اسی حد تک قبول نہیں کیاکہ ان کی معروضات پر عمل کرتے ۔
یہ ضمنی انتخابات پنجاب تک محدود تھے ۔ اس میں کامیابی یا ناکامی کو ایک علامت سمجھنا چاہئے۔ ن لیگ یا منحرفین کو ووٹ نہ پڑنے کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں لیکن اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ عوام نے لاہور جیسے شہر میں جہاں ”میاں کے نعرے“ لگنے کا دعوی کیا جاتا تھا ، عوام نے ن لیگ کے امیدواروں کو چار میں سے تین حلقوں میں اتنا ووٹ نہیں دیا کہ وہ کامیاب ہو سکتے ۔ ویسے لاہور کے عوام ووٹ ڈالنے بھی نہیں نکلے ۔یہ رجحان ظاہر کرتا ہے کہ عوام کسی سیاسی جماعت یا رہنماء کے غلام نہیں ہیں۔
ایساکیوں ہوا ؟ عوام نے سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کی اقتدار کے حصول کے لئے غیر سیاسی خر مستیوں اور رسی کشی سے برہم ہو کر فیصلہ دیا ہے۔ عوام نے منحرفین کو کامیابی کے لئے ووٹ نہ دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ انہیں ان کے ووٹوں کی قدر نہ کرنے والوں کو اعتماد نہیں رہا ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو۔ کسی بھی حلقے میں عوام جس امیدوار کو کامیابی کو ووٹ دیتے ہیں ، انہیں یہ بات کبھی پسند نہیں آتی ہے کہ ان کا منتخب کر دیا امیدوار اقتدار کی دوڑ میں کیس کا آلہ کار بن کر فروخت ہو جائے۔ آئین میں تو درج ہے کہ سیاسی جماعت سے انحراف کرنے والے نا اہل تصور کئے جاتے ہیں لیکن یہ دوسری بات ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے اقتدار کے دیوانے قائدین آئینی پابندیوں پر عمل در آمد نہیں ہونے دیتے ہیں۔ وہ عوام کو اپنا ملازم ہی تصور کرتے ہیں۔ عمران خان اپنے چار سالہ دور اقتدار میں عوام کے لئے زندگی کو کو سہل نہیں بنا سکے تھے ، وہ اصولی طور پر سیاست میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکے تھے، ملک کی معاشی مشکلات کو حل نہیں کر سکے تھے ۔ پھر عوام نے یہ رد عمل کیوں دیا۔ عوام کو سندھ ہاﺅس میں کھیلے جانے والا کھیل پسند نہیں آیا۔ عوام کو یہ رنج ہوا کہ جن امیدواروں کو انہوں نے اپنا ووٹ ”بلا معاوضہ “ دے کر منتخب کرایا، انہوں نے ووٹ ”فروخت “ کر کے ان کے اعتماد کو دھوکہ دیا۔ اعتماد کو دھوکہ دینا اعتماد کو قتل کرنے کے برابر ہوتا ہے۔ کوئی بھی منتخب نمائندہ کسی بھی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر منتخب ہونے کے بعد اگر اس سیاسی جماعت سے کسی بھی وجہ سے انحراف کرتا ہے تو اسے کیوں نہیں اپنی نشست سے مستعفی ہو کر اس سیاسی جماعت سے علیحدگی اختیار کر لینا چاہئے اور اپنی پسند کی کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر لینا چاہئے۔ لیکن منتخب نمائندوں سے مستعفی ہونے کے بعد انتظار کی تکلیف برداشت کرنا نہیں آتی ہے۔ اگر منحرفین کو عمران خان کی سیاسی پالیسیوں سے اتفاق نہیں تھا کہ انہیں کیوں کر سندھ ہاﺅس میں جا کر بیٹھنا چاہئے تھا؟ ضمنی انتخابات کے نتائج تو یہ بتاتے ہیں کہ ووٹروں کی اکثریت نے ”لوٹا کریسی“ کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ انہوں نے لوٹوں کو دفن کر دیا ہے۔ مستقبل میں انحراف کرنے والوں کے لئے ضمنی انتخابات میں سبق موجود ہے۔
سپریم کورٹ نے منحرفین کے بارے میں واضح فیصلہ دیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ اپنی پسند کے قابل وکیل کی خدمات حاصل کر کے اس فیصلے کو پوری طرح پڑھیں، سمجھیں اور عمل کر نے کی نیت کریں۔ لیکن پاکستانی سیاست کا تو المیہ ہے کہ سیاسی جماعت کو اس کی قیادت ایک طرف تگنی کا ناچ نچاتی ہے۔ پوری سیاسی جماعت کٹھ پتلی بنا دی جاتی ہے۔ اس کی مجلس عاملہ برائے نام ہوتی ہیں، اس کے مرکزی عہدیدار بھی برائے نام ہوتے ہیں۔ کیا یہ جمہوری سیاست ہے کہ والد وزیر اعظم ہوں، بیٹا وزیر آعلی ہو۔ کیا یہ جمہوریت ہے کہ خود قومی اسمبلی کے رکن ہوں، بیٹا بھی قومی اسمبلی کا رکن ہو، ہم شیرائیں صوبائی اسمبلی کی رکن ہوں ، بااختیار بھی ہوں، وزیر بھی ہوں۔ بہنوئی ، اس کا چھوٹا بھائی بھی اسمبلی کے رکن منتخب ہوں۔ عوام نے اس رجحان کی مزمت کرتے ہوئے اپنے غصے کا اظہار کیا ہے۔اگر سیاست کو چلانا ہے اور ملک میں کوئی بہتری لانی ہے تو انتخابی اصلاحات متعارف کرانا انتہائی ضروری ہے۔ اسمبلیوں کو رشتہ داروں کا ”نانی واڑہ“ نہ بنایا جائے۔ منحرفین کے لئے کسی بھی حالت میں کوئی گنجائش نہ ر کھی جائے۔ مہنگائی نے عوام کو ضرور پیس کر رکھ دیا ہے لیکن جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے بچوں کو کسی قسم کی کوئی سہولت حاصل نہیں ہے لیکن ان کے ( میں تو نام نہاد سمجھتا ہوں ) سیاسی رہنماءہر قسم کی سہولتوں سے لدے ہوئے ہیں۔ ان کے ایک ایک لباس منہ سے بولتے ہیں کہ وہ بہت مہنگے ہیں۔ عوام سوچتی ہے کہ ان کے گھر والوں کے پاس ڈھنگ کا دوپٹہ بھی نہیں ہوتا ہے ، اور ان کی شال کی قیمت ہی لاکھوں میں ہوتی ہے۔ یہ لوگ بیرون ملک سے منگایا گیا پانی پینے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لوگ اندھے تو نہیں ہیں۔ سیاسی رہنماءکیوں سمجھتے ہیں کہ لوگ کسی رد عمل کا اظہار نہیں کریں گے۔ کیا عوام سے ان کے غصے پر ”خاموش“ رد عمل کا اظہار کرنے کا بھی اختیار کون چھین سکتا ہے۔ اس وقت سے ڈرنا چاہئے جب کسی اور طرح کا سخت رد عمل ظاہر کریں۔ (بشکریہ جہان پاکستان)