aik tabah saath | Imran Junior

ذہین قوم۔۔

تحریر : علی عمران جونیئر

دوستو، آج ہم آپ سے ذہین قوم کے حوالے سے کچھ اوٹ پٹانگ باتیں کریں گے۔۔ اس قوم کی تعریف کے لیے ہمارے پاس الفاظ کی شدید قلت پڑگئی ہے۔۔ اور اس قلت کے آگے پٹرول کی وہ قلت کوئی حیثیت نہیں رکھتی جوپچیس روپے فی لیٹر سستا ہونے کے بعد دیکھنے میں آئی تھی۔۔ یہ ایسی ذہین قوم ہے جو جنگل کے ہر پودے کا عرق پی لیں گے، اسے ابال کر استعمال کرلیں گے لیکن کورونا سے بچنے کے لیے ماسک نہیں لگائیں گے۔۔آج چونکہ اتوار ہے، اس لیے چلیں آج تفریح سے بھرپور کچھ بے فضول سی باتیں کرتے ہیں۔۔ اور آپ کی ذہانت بھی چیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہمیں بھی پتہ چلے کہ آپ کو ہماری باتیں ہضم ہوتی ہیں یا نہیں؟؟

ایسی قوم سے ہوں جہاں ٹی وی خراب ہوتو کہتے ہیں بچوں نے کیا ہے، بچے خراب ہوں تو کہتے ہیں ٹی وی نے کئے ہیں۔۔جہاں ایک زمانے میں کھیلوں کے سب سے بڑے اسپانسرسگریٹ بنانے والی کمپنیاں ہوتی تھیں حالانکہ سگریٹ پی کر کھیلنا تو دور کی بات زندگی بھی نارمل نہیں رہتی، اور آج کل موسیقی کا سب سے بڑی پروموٹرایسی کمپنی بنی ہوئی ہے جسے پی کر آپ کا گلا گانے توکیا بولنے کے قابل نہیں رہتا۔۔مورخ جب اس قوم کی تاریخ لکھے گا تو اپنا سر پیٹ کر رہ جائے گا۔۔۔۔جس قوم کی تفریح اب فیس بک اور واٹس پر اپنے مخالفین کو لعن طعن کرنے کی حد تک رہ گئی ہے۔۔ایسی قوم سے ہوں جو لاکھوں میل دور چاند پر لکھا ہوا بہت کچھ پڑھ لیتے ہیں لیکن انہیں اپنے حکمرانوں کی کرپشن نظر نہیں آتی۔۔تاریخ دان لکھے گا،کہ ایک ایسی قوم بھی تھی جوروزانہ اپنے بہن بھائیوں کے جسم بم دھماکوں میں اڑتے دیکھ کرانجان بن کرخاموش رہتی تھی اورایک انجان ملک میں قتل عام پران کے جذبات بھڑک اٹھتے تھے۔۔جہاں لوگوں کی دائیں آنکھ پھڑکی تو اچھائی آرہی ہے ،بائیں آنکھ پھڑکی تو برائی آرہی ہے ،جراثیم سے چھینکیں آئی تو کوئی یاد کر رہا ہے۔۔جہاں لائٹ جانے کا ٹائم ہو اور لائٹ نہ جائے تب بھی ٹینشن ہو جاتی ہے ۔۔ایسی قوم سے ہوں جو پاکستان میں ہوں تو اٹالین، چائینز، تھائی فوڈ ڈھونڈتے پھریں گے اور اگر بیرون ملک جانا ہوجائے تو پھر یہی لوگ کہتے ہیں،’’ ایتھے دیسی ریسٹورنٹ کتھے ‘‘۔۔یہ ایسی ذہین قوم ہے جہاں ساٹھ ستر لاکھ کی گاڑی کے پیچھے دو کلاشنکوف بردار گارڈ اور بیچ میں دو ٹکے کا آدمی بیٹھا ہوتا ہے۔۔جسے گاڑی میں بیٹھ کر تمام انسان کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں۔۔یہ ایسی ذہین قوم ہے جو شدید سردی میں بھی نہانے میں آدھا گھنٹا لگادیتی ہے۔۔ نہانے میں تو صرف دو منٹ ہی لگتے ہیں،باقی اٹھائیس منٹ تو ٹھنڈے اور گرم پانی کو ’’بیلنس‘‘ کرنے میں لگ جاتے ہیں۔۔یہ ایسی ذہین قوم ہے کہ جب اگر کسی موٹرسائیکل والے کو پیچھے سے ہارن دو تو وہ راستہ دینے کے بجائے اپنی اسپیڈ بڑھادیتا ہے، راستہ نہ دینے پر اگر آپ اس پر غصہ کریں تو وہ آگے سے ایک ہی بات کرے گا، یہ سڑک تیرے باپ کی ہے؟؟۔۔

ایک روز دنیا کے ذہین ترین انسان حضرت باباجی قبلہ مرقدہ حفظہ کے ڈرائنگ روم میں محفل جمی ہوئی تھی، چائے کے دور پر دور چل رہے تھے۔۔ یہ پچھلی سردیوں کی بات کی شاید جنوری کا مہینہ تھا۔۔ہمیں لاہور چھوڑے ہوئے دوماہ ہوچکے تھے۔۔ باباجی نے اچانک سوال داغا۔۔ یار،لاہور کو لاہور کیوں کہاجاتا ہے؟؟باباجی کے سوال کے بعد محفل کا مرکز نگاہ ہماری ذات شریف تھی، کیوں کہ لاہور میں کافی عرصہ گزارنے کے بعد ہم پھر سے اپنوں میں تھے۔۔ہم چونکہ طویل عرصے سے باباجی کے زیرسایہ تھے اور ان کے رنگ میں رنگ چکے تھے اس لیے ہم نے بھی کوئی آسرا نہیں کیا اور شروع ہوگئے۔۔کہا جاتا ہے کہ پرانے زمانے میں ایک سلطان نے شادی کا ارادہ کیا تو اس نے تمام شہزادیوں کو جمع کر کے ان کو کچھ بیج دیئے اور کہا کہ تم میں سے جوبھی 6 ماہ بعد گلاب کا پھول لے کر آئے گی وہی میری زوجہ اور سلطنت کی ملکہ ہوگی 6 ماہ گزرنے کے بعد تمام شہزادیاں ہاتھوں میں پھول اٹھائے محل میں حاضر ہو گئیں،کچھ کے ہاتھ میں سرخ، کچھ کے ہاتھ میں پیلے غرض ہر ایک کے ہاتھ میں الگ ہی رنگ کے پھول تھے، سوائے ان میں سے ایک کے کہ جس کے ہاتھ میں کوئی بھی پھول نہیں تھا۔۔ بادشاہ نے اس سے دریافت کیا کہ تمہارے پھول کہاں ہیں؟ تو اس نے جواب دیا۔۔ سلطان معظم،آپ نے ہمیں جو بیج دیئے تھے وہ گلاب کے نہیں تھے۔۔ سلطان کو شہزادی کا جواب اور اسکی صداقت پسند آئی اور اس سے شادی کر کے اسے ملکہ سلطنت کے خطاب سے نواز دیا۔۔۔اور جہاں تک لاہورکا معاملہ ہے تو یقین جانیے اس کے بارے میںہمیں کچھ پتہ نہیں اور ساری زندگی اس بارے میں کوئی کہانی سنی بھی نہیں۔۔اس کے بعد تو گویا ڈرائنگ روم میں قہقہوں کی برسات ہونے لگی۔۔

اس ذہین قوم کی ذہانت کا ایک اور قصہ سن لیجئے۔۔ایک کروڑ پتی تاجرکو مچھلی کے شکار کا بہت شوق تھا، ایک دن وہ اپنے تام جھام کے ساتھ مچھلی کے شکار پر گیا تو ایک مچھیرے کو دیکھ کر بہت حیران ہوا جو مچھلیاں پکڑنے کی بجائے اپنی کشتی کوکنارے پرلگائے سگریٹ سُلگائے بیٹھا تھا۔۔تاجر نے اس سے پوچھا۔۔ تم مچھلیاں کیوں نہیں پکڑ رہے؟مچھیرے نے کہا۔۔ کیونکہ آج کے دن میں کافی مچھلیاں پکڑ چکا ہوں۔۔ تاجر نے اس سے کہا۔۔ تو تم مزید کیوں نہیں پکڑ رہے؟مچھیرے نے کہا۔۔مزید مچھلیاں پکڑ کر کیا کروں گا؟تاجر نے اسے سمجھایا۔ تم زیادہ پیسے کما سکتے ہو، پھر تمہارے پاس موٹر والی کشتی ہوگی جس سے تم گہرے پانیوں میں جاکر مچھلیاں پکڑ سکو گے،تمہارے پاس نائیلون کے جال خریدنے کے لئے کافی پیسے ہوں گے۔ اس سے تم زیادہ مچھلیاں پکڑو گے اور زیادہ پیسے کماؤ گے۔ جلد ہی تم ان پیسوں کی بدولت دو کشتیوں کے مالک بن جاؤ گے۔ ہوسکتا ہے تمہارا ذاتی جہازوں کا بیڑا ہو۔ پھر تم بھی میری طرح امیر ہو جاؤ گے۔۔مچھیرے نے کروڑپتی تاجر کو سرسے پیر تک دیکھا اور سگریٹ کا ایک لمبا سا کش لگا کرکہنے لگا۔۔ اس کے بعد میں کیا کروں گا؟تاجر بولا۔۔ پھر تم آرام سے بیٹھ کر زندگی کا لُطف اُٹھانا۔۔مچھیرے نے سگریٹ کی ’’گل‘‘ جھاڑتے ہوئے کہا۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے، میں اس وقت کیا کر رہا ہوں؟۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ رعایتی قیمت پر خریدی ہوئی غیر معیاری اشیاء کی خوشی عارضی اور غم مستقل ہوتا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

انسٹاگرام  اب فیس بک جیسا فیچر متعارف کرائے گا۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں