تحریر: ناصر جمال
یہ تمام حکمران ایک جیسے ہیں۔ پیکا اور ڈیجیٹل نیشن بل نئے نہیں، یہی کچھ عمران خان اور اس سے پہلے والے بھی کررہے تھے۔ نیا کیا ہے۔ان کو بھی منہ کی کھانی پڑی تھی یہ بھی کھائیں گےہر طاقتور کو سوال ،تنقید اور آواز بُری لگتی ہے۔ اور بطور خاص جب حکومت، بندوق کی نوک پر رقص کررہی ہو اور وہ بھی بے ہنگم رقص ہو، تو پھر وہ جواب میں ،گولی مارنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔
میڈیا کو مادر پدر آزادی نہیں ہونی چاہئے۔یقیناً نہیں ہونی چاہیے تو پھر اسٹیبلشمنٹ، سیاستدانوں، بابوئوں، منصفوں اور اشرافیہ کو یہ حق کیسے دیا جاسکتا ہے۔ میڈیا، یہی تو کہتا ہے کہ سب کو ایک آئین اور قانون کے تابع ہونا چاہئے۔ آپ ’’فیک نیوز‘‘ کی آڑ لیکر قید اور بیس لاکھ جرمانہ چاہتے ہیں۔اور فیک نیوز کی تشریح بھی خود ہی کرنا چاہتے ہیں۔ویسے جو نیوز، ثابت شدہ ہو۔ اس پر ایکشن کی بھی تو بات کریں۔اس ملک میں معلومات اکٹھی کرنا۔بھوسے کے ڈھیر میں سے سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہے ۔آج میڈیا، ہزاروں اسکینڈل ثابت کرچکا ہے۔ پھر ان کا کیا کرنا ہے۔۔۔۔؟ ایک اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملانے کے بعد تمام لچھن اور کرتوت ہوا میں کیوں تحلیل ھو جاتے ہیں۔
مہمنڈ ڈیم اسکینڈل سے لیکر سرے محل، چینی، گندم، غیرملکی جائیدادیں،جزیرے،فارمز کس، کس کی بات کریں۔ایئر پورٹس پر مفرور مجرموں کے پروٹوکول کیا میڈیا، مہیا کرتا ہے۔
نوابزادہ نصر اللہ خان نے مشرف مارشل لاء کے بعد، قلم کار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاتھا کہ ’’فوج نے آنا ہے تو وردی اتار کر آئے۔ آج قلم کار کہتا ہے، جس نے آنا ہے۔ وہ بھی اپنی ’’کھال‘‘ اتار کر آئے۔عوام کی عدالت میں بندوق نہیں دلائل اور ثبوتوں کے ساتھ بات کرے۔ کسی اور کی ویاگرا پر اترانا، خود کو بے وقوف بنانے کے مترادف ہے۔
بطور رپورٹر اور قلم کار کے، میں چاہتا ہوں کہ میڈیا کے ہر شعبے میں ضابطے ہونے چاہئیں۔ میر شکیل الرحمٰن سمیت اس کے یا کسی کے ہرکارے کو مادر پدر آزادی نہیں ہونی چاہئے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ جیسے ہمارے ادارے کسی آئین، قانون، ضابطے، اقدار، روایت، اخلاقیات، پروفیشنل ازم، کو نہیں مانتے۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے اناڑی بھی مادر پدر آزاد ہیں۔میڈیا اور سوشل میڈیا کے پیراشوٹرز ایک جیسے ہی ہیں۔یہ گناہ پروفیشنل صحافیوں نہیں اسٹیبلشمنٹ اور حکمرانوں کے ذمہ آتاہے۔
آج ہمیں یہ بات بھی ماننا ہوگی۔ روایتی میڈیا نے دنیا بھر میں بلعموم اور پاکستان میں بلخصوص، انتہائی مجرمانہ اور غیر مہذب کردار کردار ادا کیا ہے۔ اس نے اپنا غیر جانبدارانہ کردار چھوڑ کر اس ملک میں دھندہ اور ایجنڈا پروموٹ کیا ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور سیٹھوں کے حرم میں لیٹی، اپنا سب کچھ انھیں سونپ چکی ہے۔ اس کا ہر کسی کو صرف ایک نعرہ سنائی دیتا ہے۔ مینوں نوٹ وکھا میرا،موڈ بنے۔گزشتہ روز ایک گھی میڈیا والوں کے بیورو افس میں گیا۔ہم نے وہ ویرانی اور گیا گزرا آفس دیکھا جو اج سے 15 سال پہلے روزنامہ خبریں میں دیکھی تھی۔اندازہ تو تھا۔مگر یقین بھی ھو گیا کہ ڈبہ( نیوز۔ٹی۔وی)پر نزع کا عالم ہے
ایک ایسے ملک میں جہاں، آپ عمران خان کا نام نہیں لے سکتے۔ وہاں پر ’’آزادی اظہار رائے‘‘ کے ڈھنڈھورے پیٹنا، انتہائی شرمناک ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عمران خان بھی اپنے مخالفین کے لئے، ایسا ہی ماحول چاہتے تھے۔ ان کا اس حوالے سے بہت کچھ ریکارڈ پر ہے۔وہ مزید رہتے تو یہ سب کچھ کر ہی گذرتے۔ ان بعد آنیوالوں نے بھی وہیں سے سفر شروع کیا۔ جہاں وہ چھوڑ کر گئے تھے۔ جب عمران واپس آئیں گےتو وہیں سے زبان بندی کا سفر شروع کریں گے۔ جہاں سے ”باؤجیز“چھوڑ کر جائیں گے۔ایک ایسے وقت میں جب بندروں کے ہاتھ، سوشل میڈیا نامی اُسترا، ہاتھ آیا۔تو انہوں نے تباہی مچا دی۔ پہلے طاقتوروں نے ان بندروں سےمراعات کی چھڑی اور مایہ کے ڈمبروں کی آواز پر خوب تماشے لگائے۔ پھر جب ان کی رسی، دوسرے مالکان کے ہاتھ میں آئی تو انھوں نے مخالف کرتب دکھانا شروع کر دیئے۔ پھر یہ بندر، اناڑی سے نیم کھلاڑی یعنی ریلو کٹے بن گئے۔ انھوں نے بھی اپنے آقائوں کی طرح کسی آئین، قانون، ضابطے اور اخلاقیات کی پرواہ نہیں کی۔
بہت پہلے اخبارات کو کنٹرول کرنے کے لئے، طاقتوروں نے بہت زور لگایا۔ پر وہ کامیاب تو ہوئے۔ مگر مزاحمت اُن کو برابر ملتی رہی۔ پھر الیکٹرونک میڈیا میں انھیں، بھر پور موقعہ مل گیا۔ سیٹھ اور پیراشوٹرز کروڑ سے ارب پتی بنتے چلےگئے۔ الیکٹرونک میڈیا کے سیٹھوں نے اپنے ایجنڈے دینے شروع کردیئے۔ ان کے ذہن میں خناس سما گیا کہ حکومتیں، وہ بدلتے ہیں۔ طاقتوروں نے نہ صرف یہاں بے تحاشا لوگ پے رول پر لئے، اس کے ساتھ، انھوں نے پلان بی کے تحت سوشل میڈیا کو بطور ٹول استعمال کرنا شروع کیا اور خوب کیا۔ نیا میڈیم تھا۔نئی نسل کی بھر دلچسپی نے انہیں بہترین نتائج دئیے۔برادر فواد چوہدری ان پر کبھی آئی ایس پی آر کی طرح صدقے اور واری تھے۔ پھر وہاں پر بھی تصادم شروع ہوگیا۔ گھمسان کا رن پڑا ہے۔ پیسہ ہی پیسہ ہے۔اس کے لئےہر حد پار کرلی گئی ہے۔
آگ گھر تک آئی تو ،فائر وال سمیت، ہر تجربہ ناکام ہورہا ہے۔ ایلون مسک کا خطرہ سامنے کھڑا ہے۔ انھیں سمجھ نہیں آرہا۔ وہ چلنا امریکہ کے ساتھ چاہتے ہیں۔ مگر عوام کے لئے نظام، چین والا چاہتے ہیں۔ جبکہ اپنے لئے، اختیارات ایم بی ایس والے چاہتے ہیں۔وہ (ن) لیگ، پیپلز پارٹی متحدہ اور دوسرے اتحادیوں کی شکل میں کیمونسٹ پارٹی، عدالتوں میں بادشاھت چاہتے ہیں۔ بس ان کی غیر متنازعہ واحد حکومت اور جماعت ہو۔اس کے لئے، طاقت کا بدترین استعمال کیا گیا ہے۔ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ہے۔
سوشل میڈیا سے دنیا بھر میں، غیر اخلاقی، غیر آئینی، غیر قانونی حکومتیں تو خوفزدہ ہیں ہی۔۔۔۔ ان کے ساتھ، ساتھ ہائبرڈ ماڈل حکومتیں اور ریاستیں بھی پریشان ہیں۔ جبکہ اس میڈیم کو ’’ٹول‘‘ بنا کر مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے والے بھی فکر مند ضرور ہیں۔ ایک بات طے ہےکہ اس نے ایک روز ’’بیک‘‘ ضرور مارنا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’ریاست پاکستان‘‘ کو کیا واقعی سوشل میڈیا سے خطرات ہیں یا یہ خطرات حکومتوں، شخصیات، ناجائز کاروباریوں، ذاتی مفادات اور ظالمانہ نظام کو ہیں۔
قارئین !!!پاکستان کے لوگ انتہائی اچھے ہیں۔ وہ ظلم اور غاصب کی کبھی حمایت نہیں کرتے۔ وہ ملک میں قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں۔ ان کا 35 سال میں موٹرویز پر رویہ دیکھ لیں۔ وہاں وہ ہمیشہ قانون پسند شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔کیونکہ وہاں انھیں یکساں قانون اور سلوک ملتا ہے۔ ملک میں سو گھنٹے کا ’’بلیک آئوٹ‘‘ ہوتا ہے۔ ایک چوری اور ڈاکہ نہیں لگتا۔ اور آپ کیسے عوام چاہتے ہیں۔؟
جب آپ یہ چاہیں گے۔ آپ تو ہر آئین، قانون، ضابطے سے آزاد ہوں۔ لیکن باقی سب پر ان کا نفاذ ہو۔ یہ نہیں ہوسکتا۔ آج ریاست کے ستون ، یونہی تو پوری دنیا میں جگ ہنسائی کا باعث نہیں بنے ہیں۔ اس پر کیوں نہیں سوچتے۔ ایک ستون یا ادارہ تو بتائیں جو میرٹ، آئین، قانون اور ضابطے پر چل رہا ہو۔
ملک کو ایک نئے سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت ہے۔ ایک نئے انتظامی ڈھانچے اور نئے لوگوں بلکہ نئی نسل کی ضرورت ہے۔ شریف،ذرداری،مولانا، بابو کریسی اور فوجی جنتا والی نسل ناکام ہوچکی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں آئین، قانون اور عوام کی حکمرانی ہو۔ جہاں بندوق نہیں، اخلاقیات، روایت اور تہذیب کی حکمرانی ہو۔ جہاں ہسپتال نہیں، گرائونڈز اور پارک آباد ہوں۔ جہاں تعلیم کاروبار نہ ہو اور کاروبار صرف عام لوگ کررہے ہوں۔ اور انھیں ضابطے توڑنے کی سوچ سے ہی خوف آئے۔
جہاں آزادی اظہار رائے، قواعد و ضوابط کے اندر ہو اور وہ قواعد و ضوابط عوام کے حقیقی نمائندے، اسٹیک ھولڈرز کے ساتھ ملکر معاشرے کی امنگوں کے تحت بنائیں۔گو کہ یہ خواب ہے۔ طاقت کبھی، مہذب راستے نہیں لیتی۔ اور جب تک طاقت معاشرے کے سامنے سرنڈر نہیں کرتی، بات ہوتی رہے گی۔ یہی قانون فطرت ہے۔ زباں بندی کے موسموں کو ہمیشہ ہی شکست ہوئی۔ یہی تاریخ اور دیوار کا لکھا ہے!(ناصر جمال)۔۔