تحریر: احسن اقبال، ایبٹ آباد۔۔
طویل فاقوں اور رذیل غربت سے متاثر شخص مارا مارا پھر رہا تھا کہ اس کا گذر وقت کے عظیم حکمران کے محل کے پاس سے ہوا۔ چند لمحو ں کے لئے اس کے قدم رک سے گئے، اس کی نظر عالیشان محل کے اطراف کا محاصرہ کرنے لگی، دل میں اس محل کے رہائش پذیر لوگوں کے پر ستائش زندگی کے خیالات نے ڈیرے ڈال دیے۔ چنانچہ ان تما تر احساسات کے بعد وہ محل کی دیوار کی طرف بڑھا، اور اس دیوار پر کچھ تحریر کرنے لگا۔ ابھی یہ اپنی لکھائی میں مصروف ہی تھا کہ وقت کے حکمران کی نظر جو بطور تفریح ہر آنے جانے والے کی زیارت میں مگن تھااس شخص پر پڑی ، کچھ غور کیا تو تو معلوم ہوا یہ شخص محل کی دیوار پر کچھ لکھائی کر رہا ہے، پس حاکم ِ وقت نے فوراً اپنا ایک غلام بھیجا کہ اس شخص کو پکڑ کر میرے پاس لاؤ اور دیکھو یہ دیوار پر کیا لکھ رہا ہے۔ چنانچہ اس غلام نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس شخص کو حراست میں لیا اور دیوار پر لکھی تحریر پر نظر ڈالی جو چند اشعار پر مشتمل تھی، جن کا مفہوم کچھ یہ تھا: “اے محل تجھ میں نالائق اور کمینے لوگ رہتے ہیں، تیرے در و دیوار میں الّو کب آشیانہ بنائے گا، جس روز الّو تیرے کسی حصہ میں گھر بنائے گا وہ دن میری خوشی کا پہلا دن ہوگا”۔ جیسے ہی غلام اسے پکڑ کر لے جانے لگا تو غریب شخص نے اس کی منت سماجت کرتے ہوئے کہا، مجھے حاکم کے پاس مت لے جاؤ، دیکھو میں ایک غریب ، اور لاچار انسان ہوں، اگر حاکم کو ان اشعار اور ان کے محرّر کا پتہ چلا تو وہ مجھے زمین میں زندہ گاڑھ ڈالےگا۔ دیکھو مجھ پر ررحم کرو اور مجھے جانے دو۔ اس تمام آہ و زاری کے باوجود غلام نے اس شخص کو گرفتار کر کے حاکمِ وقت کی خدمت میں پیش کیا، اور تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔ وہ شخص یہ سب دیکھ کر خوف کے مارے کانپنے لگا۔ موت اسے سامنے دکھائی دینے لگی۔
چنانچہ حاکمِ وقت اس شخص کی طرف متوجہ ہوا، اور اس دل جلی تحریر کی وجہ دریافت کی۔ اس غریب کے دل و دماغ میں طرح طرح کے خیالات آنے لگے، لیکن بالآخر اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا جو ہونا ہے سو ہو کر رہے گا، لہذا اب حق گوہی کے علاوہ کچھ کہنا سود مند نہیں۔ اس نے اپنے دل کو مضبوط کیا، اپنے حواس پر قابو پایا اور کہنے لگا: اے امیر المؤمنین! اس محل میں بہت سے خزانے اور جواہرات ہیں، کھانے میں عمدہ خوراک، رہن سہن کا خوبصورت اور دلنشین سامان، پہننے کو عمدہ لباس ، بچھانے کو اعلی بستر، حسین لونڈیا ں ، غرض ہر وہ قیمتی چیز جو حضور کے علم میں ہے ، اس کی تعریف سے بندہ کی زبان عاجز ہے۔ لیکن میرا درد یہ نہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ آپ نے مجھے اپنے حضور پیش کر کے مجھ سے وجہ دریافت کی تو اے امیر المؤمنین! سنیے میں بھوک کا مارا کھانے کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہوں، ان فاقوں سے مجبور ہو کر سوچ رہا ہوں کہ ایسا کیا کیا جائے کہ ان مصائب سے نجات پا لوں۔ لیکن اسی دوران میرے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ عالیشان محل کتنا آباد ہے، اس میں رہنے والے کیسی پر ستائش زندگی گزار رہے ہیں، جبکہ میرا اس مال و دولت میں تھوڑا سا بھی حصہ نہیں کہ میں اپنا پیٹ ہی بھر سکوں۔ کاش یہ محل ویران و سنسان ہی ہو تا، اور میرا یہاں سے گذر ہوتا، تو مجھے اس کا کم ازکم اتنا فائدہ تو ضرور ہوتا کہ میں اس کا ملبہ اور لکڑیاں جمع کر کے، اپنی پیٹھ پر لاد کر اسے بازار میں فروخت کر کے اپنے لئے کچھ نوالے خرید پاتا۔
خدا امیر المؤمنین کو سلامت رکھے، لیکن کیا آپ نے یہ نہیں سن رکھاجب کوئی کسی کے مال و دولت سے فائدہ حاصل نہیں کر پاتا، تو وہ اس مال و متاع کی بربادی چاہتا ہے۔ اور یہ تمنا حسد کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک امید کی وجہ سے ہوتی ہے وہ یہ کہ کاش اس مال کو کوئی اور مالک مل جائےجس سے فائدہ حاصل ہو سکے۔
حاکمِ وقت نے بڑے صبر و تحمل سے اس غریب کی گفتگو آخر تک سنی اور پاس کھڑے غلام سے کہا اس شخص کو ایک ہزار درہم دلوا دو۔ پھر اس غریب کی طرف متوجہ ہوا اور کہا یاد رکھنا جب تک یہ محل آباد ہے، اس میں رہنے والے شاد اور بامراد ہیں۔ اور ہاں تمہارا یہ وظیفہ بھی جاری رہے گا۔ یہ سن کر غریب کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا، اور رقم لے کر دعائیں دیتا ہوا محل سے رخصت ہو گیا۔
یہ حاکم خلیفہ مامون تھا، جس نے غریب کی غربت کا مذاق نہیں بنایا، بلکہ اپنے مال و متاع میں سے ایک حصہ دے کر اس کا پیٹ بھرا، اور رویہ بھی کیا خوب تھا کہ لبوں پر بدعا کے تیر لے کر آنے والا دعاؤں کے پھول برسا کر رخصت ہوا۔
اس واقعہ کا جب نظر سے گذر ہوا تو تاریخ کے متعلق کسی کہنے والے کا اک قول یاد آیا کہ تاریخ ، گاڑی کے سائیڈ شیشوں کی طرح ہے، جن شیشوں میں انسان پیچھے دیکھ کر آگے کے متعلق بہتر فیصلہ کر نے میں کامیاب ہوتا ہے۔ لیکن شاید ہمارے معاشرے میں ان شیشوں پر پڑی گرد کی تہ دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔جسے صاف کرنے والوں کی تعداد بہت کم جبکہ گرد اڑا کر ماحول کو آلودہ کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اپنے مطلب کے دلائل اور حجتیں ہم چٹکی میں پیش کر لیتے ہیں، لیکن سب کے مطلب کی چیز سے آنکھیں چندیا جاتی ہیں۔
خیر بات ہو رہی تھی خلیفہ مامون کے مذکورہ رویہ کی۔ لیکن ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے؟ اگر میں کسی اعلی عہدہ و اختیار کے مالک سےآغاز کروں تو یہ ناانصافی ہوگی۔ کیوں کہ ہمیں بہت دور جا نے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں اپنے ارد گرد کچھ ایسے لوگ ضرور ملیں گے، جن کی سوچ و فکر ان کی اپنی فلاح و بہبود سے ایک قدم بھی آگے بڑھنے سے قاصر ہے۔ جنہیں اپنے بچوں کی ہلکی سے سسکی بھی دل پر لگے کسی تیر کا احساس دلاتی ہے، لیکن غریب کے گھر کا بچہ چلاّ چلاّ کر بھی ان کو خواب خرگوش سے جگا نہیں پاتا۔ان کے دسترخوان پر امیروں کے لئے بہت کچھ ، لیکن غریب کے لئے ایک رسوا کن جملے سے زیادہ کچھ نہیں۔ ان کی دعوتوں پر کھاتے پیتے لوگوں کا ہجوم دکھائی دیتا ہے ، جبکہ فاقوں کا مارا ایک لقمہ بھی عزت سے حاصل نہیں کرپاتا۔
انہیں کچھ ایسا حاصل کرنے کا جنون ہے جو ان کے سامنے بکھری عظیم نعمتوں کی تحقیر کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ وہ لوگ موجودہ نعمتوں پر شکر نہیں کر پاتے ، اس لئے کہ کسی نعمت کی موجودگی کا احساس انسان کو شکر پر آمادہ کرتا ہے ، لیکن جن پتھر دل لوگوں کے نزدیک نعمتوں کا ہونا نہ ہو نا برابر ہو ان سے کیا کہنا۔
انہی گمنام رویوں کی بدولت جو معاشرہ پروان چڑھ چکا ہے اس میں انسان کی عزت انسانیت کی بنیاد پر بہت کم کی جاتی ہے ، جبکہ جاہ و جلال کے نعرے میلوں دور سے سنائی دیتے ہیں۔ ایسے میں جو واحد چیز ہمیں ان بھٹکی راہوں سے واپس لا سکتی ہے وہ عظیم اسلامی تاریخ کےا وراق سے گرد اڑا کر انہیں اپنے دل و دماغ میں جگہ دینا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی منتخب رستہ ہمیں ناکامی کی گہری کھائیوں میں دھکیلنے میں بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے، جہاں سے واپسی کا گمان بھی دشواریوں کا سبب ہوگا۔( احسن اقبال ، ایبٹ آباد)۔۔۔