youtube ki kamai se ghar banwane wali youtuber

یوٹیوب کی کمائی سے گھر بنوانے والی یوٹیوبر۔۔

خصوصی رپورٹ۔۔

بجلی کا کوئی پتا نہیں کب آئے اور کب جائے۔ انٹرنیٹ پر بھی بھروسہ نہیں کہ کس وقت چلنا بند ہو جائے۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود رابعہ ناز شیخ روزانہ ایک ویڈیو بناتی ہیں اور یوٹیوب پر اپنے فیشن چینل پر اپ لوڈ کرتی ہیں۔یوٹیوب رابعہ کے شوق کے ساتھ ان کی آمدن کا ذریعہ بھی ہے۔ جہاں پاکستان میں بہت سے لوگوں کے لیے اپنا گھر تعمیر کرنا کسی خواب سے کم نہیں وہیں رابعہ یہاں سے ہونے والی آمدن کے ذریعے دو کمروں کا اپنا ایک گھر تعمیر کروانے میں کامیاب ہو رہی ہیں۔روزگار کے اس ذریعے نے ان کی زندگی تبدیل کر دی ہے۔

سندھ کے ضلع خیرپور کے قصبے راہوجا میں رہائش پذیر 25 سالہ رابعہ ناز نے ایک سال قبل یوٹیوب پر ’فیشن ایڈکشن‘ کے نام سے ایک چینل بنایا جس کے اب ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زیادہ سبسکرائبرز (صارفین) ہو چکے ہیں۔ اس پر یوٹیوب نے ان کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک سلور پلے بٹن سے نوازا ہے۔

رابعہ ناز نے انٹر تک تعلیم حاصل کی اور ان کے بقول اس کے بعد انھوں نے پڑھائی کا سلسلہ اپنی مرضی سے منقطع کر دیا۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ انھیں یوٹیوب کا بہت شوق تھا اور وہ بچپن سے ہی انٹرنیٹ پر بڑے شوق سے یوٹیوب دیکھتی تھیں۔ پاکستان میں رابعہ سمیت کئی نوجوان گوگل کو اپنا استاد مانتے ہیں۔ایسے میں رابعہ کو خیال آیا کہ کیوں نہ وہ اپنا یوٹیوب چینل بنائیں اور ایسی چیزوں سے لوگوں کو آگاہ کریں جو ان کے لیے دلچسپی کا باعث ہیں۔

یوٹیوب پر ویڈیوز بنانے کے لیے میں نے زیادہ تر انٹرنیٹ سے سیکھا ہے۔ وہاں پر مدد اور تربیت دستیاب ہے۔ میرے بھائیوں نے مجھے ویڈیو ایڈیٹنگ سکھائی اور باقی سارا کام میں نے خود ہی کیا اور اپنا دماغ لگایا۔رابعہ ناز بتاتی ہیں کہ انھوں نے سلائی سیکھی تھی اور انٹرنیٹ سے ڈیزائن دیکھ کر اپنے اور گھر والوں کے کپڑے بناتی تھیں۔ اس سلائی کے شوق کی وجہ سے ان کا فیشن انڈسٹری سے تعلق بنا اور انھوں نے فیشن چینل شروع کیا۔

رابعہ ناز روزانہ ایک ویڈیو بناتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ویڈیو کی تیاری سے قبل جو فیشن چینل چل رہے ہیں ان کے کام دیکھتی ہیں کہ ان کا کیا موضوع ہے۔اس کے بعد یہ دیکھتی ہیں کہ جو خواتین کے کپڑوں کے برانڈز ہیں وہ کس طرح کے ڈیزائن دکھا رہے ہیں، یعنی کپڑوں میں کس طرح کی کٹنگ ہے، اس کے بازو، پائنچے وغیرہ کس سٹائل میں ہیں اور آج کل کے فیشن میں کیا زیادہ مقبول ہے۔ان سب کاموں کے لیے کسی مشہور فیشن کمپنی کے پاس تو ہزاروں کا عملہ ہوتا ہے، لیکن رابعہ اپنے چینل کے لیے ’ون مین آرمی‘ ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’پہلے میں مختلف سائٹس پر جا کر تصاویر ڈاؤن لوڈ کرتی ہوں۔ اس کے بعد سکرپٹ لکھتی ہوں کہ کیا بولنا ہے۔ اگلے مرحلے میں وائس اوور کرتی ہوں۔ان تمام چیزوں کو سافٹ ویئر کی مدد سے تصاویر سے جوڑتی ہوں اور ایڈٹنگ کرتی ہوں۔ اس پورے عمل میں دو ڈھائی گھنٹے آسانی سے لگ جاتے ہیں۔ پھر کام مکمل ہونے کے بعد اس ویڈیو کو یوٹیوب پر اپ لوڈ کر دیتی ہوں۔

اپنے چینلز کی ویڈیو بنانے کے لیے رابعہ ناز کے پاس عام سا سمارٹ فون دستیاب ہے جو شاید آج کل قریب ہر کسی کے پاس ہوتا ہے۔ان کے پاس نہ اپنا کمپیوٹر ہے اور نہ ہی کوئی ٹیبل کرسی۔ وہ بس چارپائی پر بیٹھ کر، دیوار سے ٹیک لگا کر یہ کام کرتی ہیں۔چینل شروع کرنے کے بعد رابعہ کو مشکل وقت سے گزرنا پڑا تھا اور ایک ایسا وقت بھی تھا جب وہ اپنے چینل کی کامیابی کے بارے میں مایوس ہو گئی تھیں۔ لیکن پھر یوٹیوب پر ان کی ایک دوست نے ان کی مدد کی اور ایک نیا راستہ دکھایا۔

رابعہ ناز بتاتی ہیں کہ ’ابتدا میں میں ویڈیوز میں میوزک لگاتی تھی اور جب تصاویر لیتی تو انھیں جوڑ کر ویڈیو بنا کر میوزک لگا دیتی تھی۔اس کے باعث رابعہ کی ویڈیوز کے ناظرین تو ہزاروں میں ہو گئے لیکن ان کا چینل مونیٹائیز یعنی ان کے لیے پیسے نہیں بنا پا رہا تھا جس کی وجہ سے رابعہ کی اپنے کام میں دلچسپی کم ہوتی گئی۔لیکن پھر یوٹیوب پر ان کی ایک دوست نے بتایا کہ ’جب تک وہ وائس اوور نہیں کریں گی، پیسے نہیں بنیں گے۔یہ سُن کر مجھے بہت افسوس ہوا کہ اتنے عرصے سے ویڈیوز بنا کر اپ لوڈ کیں لیکن انھیں ڈیلیٹ کرنے کا مطلب یہ تھا کہ ساری محنت ضائع ہو جائے گی۔

وہ کہتی ہیں ’لیکن میں نے ہمت نہ ہاری اور تمام ویڈیو ڈیلیٹ کر کے دوبارہ سے وائس اوور کر کے نئی ویڈیوز ڈالیں۔ اس پورے عمل کے بعد ویڈیوز کی مدد سے مونیٹائز یعنی آمدنی حاصل کرنے میں ایک سال لگ گیا۔۔جب یوٹیوب کسی کا چینل مونیٹائیز کرتا ہے تو بذریعہ ڈاک ایک کوڈ بھیجتا ہے جس کی مدد سے رقم کی ادائیگی ہوتی ہے۔ میرا وہ کوڈ نہیں آرہا تھا۔ ہم نے مقامی پوسٹ آفس کے متعدد چکر لگائے مگر ڈاک نہیں آئی۔ اس کے بعد میں نے یوٹیوب کو متعدد بار ای میل کی تو بالآخر انھوں نے میرے قومی شناخت کارڈ کو قبول کر کے رقم جاری کر دی۔یوٹیوب سے تصدیق کے بعد اگلا مرحلا بینک اکاؤنٹ کا تھا اور یہ بھی آسان نہ تھا۔رابعہ ناز کے مطابق جب وہ اپنے علاقے کی تحصیل ہیڈکواٹر پیرجو گوٹھ میں واقع نجی بینک میں اکاؤنٹ کھولنے پہنچیں تو مینجر نے اس کی وجہ معلوم کی۔جب رابعہ نے انھیں بتایا کہ ان کے باہر سے پیسے آئیں گے اور یوٹیوب بھیجے گا تو اس نے حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ یوٹیوب سے کیسے آمدنی ممکن ہے اور انھوں نے پہلے تو کبھی نہیں سُنا کہ یوٹیوب ادائیگی کرتا ہے۔رابعہ نے مینیجر کو کہا کہ ’آپ بس اکاؤنٹ کھولیں، پیسے آ جائیں گے اور جب پیسے آئے تو انھیں بہت حیرانی ہوئی۔

رابعہ ناز بتاتی ہیں کہ انھیں اپنے چینل سے ماہانہ 40 سے 50 ہزار روپے آمدنی ہو جاتی ہے جس کی مدد سے انھوں نے اپنے لیے دو کمروں کا گھر بنوایا ہے جو ابھی زیر تعمیر ہے لیکن چھت اور دیواریں کھڑی ہو چکی ہیں۔رابعہ کے بقول اُن کی خواہش تھی کہ ان کا اپنا گھر ہو اور وہ اپنے گاؤں کی پہلی لڑکی ہیں جس نے اپنا گھر خود تعمیر کرایا ہے۔رابعہ ناز مشترکہ خاندانی نظام میں رہتی ہیں جس میں ان کے ساتھ ان کے چچا اور اُن کا خاندان بھی شامل ہیں۔

رابعہ ناز کا کہنا ہے کہ بجلی اور انٹرنیٹ کا کوئی بھروسہ نہیں ہے اور کبھی ان کے گاؤں میں بجلی نہیں ہوتی یا کبھی انٹرنیٹ نہیں چلتا۔وہ رات کو موبائل چارج کرنے کے بعد ویڈیو بنا لیتی ہیں اور جیسے ہی انٹرنیٹ بحال ہوتا ہے اور رفتار بہتر ہوتی ہے، تو وہ اپنی ویڈیو کو اپ لوڈ کر لیتی ہیں۔انٹرنیٹ سرفنگ اور ویڈیو کی تیاری کے علاوہ گھر کے کام کاج بھی ان کی ذمہ داری میں شامل ہیں۔(بشکریہ بی بی سی)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں