تحریر: میاں محمد ندیم۔۔
اسلام علیکم ایک دوست خیریت دریافت کرنے کے لیے غریب خانے پر تشریف لائے دوران گفتگو انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی جمع پونجی یوٹیوب چینل میں ضائع کرچکے ہیں۔دکھ ہوا ایک ایماندار کارکن صحافی کے لیے چند لاکھ بھی بہت بڑی رقم ہے اسی طرح کے کئی کیس میرے علم میں ہیں ہم کسی بھی معاملے میں بنیادی وجہ کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔یوٹیوب چینل میں سمجھا جاتا ہے کہ پیسے خرچ کرکے مونٹائزیشن کروا لو اور پھر اندھا دھند ویڈیوز ڈالتے جاو تو ڈالروں کی برسات شروع ہوجائے گی ایسا ہرگز نہیں۔دنیا میں ہزاروں افراد ایسے سوشل میڈیا چینل چلا رہے ہیں جنہیں ان کے ویوورز چندے کی صورت میں پیسے دیتے ہیں اور یہ لوگ یوٹیوب وغیرہ سے کہیں زیادہ پیسے کماتے ہیں۔کیا وجہ ہے کہ لوگ ان کی ویڈیوز بھی دیکھتے ہیں اور پیسے بھی دیتے ہیں؟ جواب ہے کونٹینٹ ہمارے ہاں کسی سیٹلائٹ چینل پر ایک خبر چلتی ہے تو اسی ڈھول کو سارے پاکستان کا ڈیجیٹل میڈیا پیٹنے لگتا ہے اپنا کوئی کونٹینٹ ہے نہ ہی ریسرچ یہی حال بڑے بڑے سیٹلائٹ چینلز کا بھی ہے۔ریسرچ، اچھا کونٹینٹ،اس کے بعد پروڈکشن،امریکا کے ایک ریٹائرڈ پروفیسر کے یوٹیوب چینل کی جتنی سبسکریشن اور ویوز ہیں ہمارے بڑے بڑے کامیاب ترین یوٹیوب چینل اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے ایک ٹوٹے پھوٹے ٹریلر ہوم میں وہ ویڈیوز بناتے ہیں اور ہفتے میں مشکل سے 2 ویڈیوز ہونگی مگر ہر ویڈیو پر ویوورز کی تعداد ملین ز میں۔۔موضوع کا انتخاب،کونٹینٹ اور ریسرچ یہ اس کی کامیابی کا سب سے بڑا گر ہے جبکہ ہمارے ہاں موضوع،کونٹینٹ یا ریسرچ وغیرہ کا تصور ہی نہیں۔یہی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہے کسی ویڈیوز پر “اوریجنل والے” چند ہزار ویوز آجائیں تو یار لوگ پھولے نہیں سماتے۔یہاں کامیابی چندہ سو ڈالر ماہانہ کی کمائی کو سمجھا جاتا ہے جبکہ دنیا میں لاکھوں کمانے والے ہیں اسی کام سے۔۔تحقیق، کونٹینٹ، کوانٹتی نہیں کوالٹی کے اصول کے تحت کام کریں پھر کمال دیکھیں بھیڑ چال میں رہیں گے تو ناکامی کے چانس 90 فیصد سے زیادہ کامیاب ہو بھی گئے تو نہ آپ کا کام ریفررنس بنے گا نہ ہی چند سو ڈالر ماہانہ سے آگے بڑھ پائیں گے۔۔۔میاں محمد ندیم ایڈیٹر اردو پوائنٹ ڈاٹ کوم