تحریر: علی عمران جونیئر۔۔
یوسف بیگ مرزا میڈیا انڈسٹری کا ایک بڑا نام ہے۔۔ کئی چینلز لانچ کرچکے۔۔مارکیٹنگ کے کنگ مانے جاتے ہیں۔۔ ان کے متعلق مشہور ہے کہ جس چینل میں جاتے ہیں وہاں اشتہارات کی بارش ہوجاتی ہے۔۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ پبلک نیوز کی لانچنگ کو ایک سال ہونے کا آرہا ہے اچھا خاصا چینل چل رہا تھا، پی بی اے کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کی لٹیا ڈبونے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔۔
نیب نے تین ادوار میں یوسف بیگ مرزا کی پی ٹی وی میں تعیناتی اور 2 ارب روپے سے زائد بدعنوانی کی تفتیش شروع کر دی ہے۔ یوسف بیگ مرزا وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے میڈیا ہیں۔ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔۔دو ارب روپےسے زائد کے غیرقانونی اخراجات کئے،یعنی کرپشن کی۔۔غیرشفاف طریقے سے پی ٹی وی میں بھرتیاں کیں۔۔ اور قومی خزانے کا بے دریغ استعمال کیا۔۔اس سے ملتاجلتا کیس ڈاکٹر شاہد مسعود کا بھی تھا۔۔آپ کو شاید ہوکہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا انہیں ہتھکڑیاں لگا کر عدالتوں میں پیش کیا جاتا تھا۔۔ کچھ بے چارے سپاہیوں نے جیل میں انہیں ریلیف دینے کی کوشش کی اور انہیں آسانیاں فراہم کرنی چاہیں تو انہیں بھی ٹرانسفر کردیاگیا، ان تمام معاملات سے بددل ہوکر ڈاکٹر شاہد مسعود نے ملک چھوڑا، لیکن پھر انہیں منا کر واپس لایاگیا۔۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ احتساب سب کاکے نعرے کے تحت اب میڈیا کے خلاف آپریشن شروع ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔۔میڈیا مالکان جو مصنوعی ڈرامہ بازیوں کے تحت حکومت کو نیچا دکھانے میں لگے ہوئے ہیں اب صرف چیخ و پکار ہی کرتے نظر آئیں گے کیوں کہ ثبوت و شواہد کے ساتھ ان پر ہاتھ ڈالا جائے گا۔۔ کئی مالکان کی فائلیں تیار پڑی ہیں۔۔منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری سمیت کئی سنگین الزامات کے تحت انہیں عدالتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔۔
بات ہورہی تھی یوسف بیگ مرزا اور اور ان کے نوزائیدہ چینل پبلک نیوز کی۔۔ پبلک نیوز کا بہت برا حال ہے۔۔یہ چوتھا مہینہ ہے جو ورکرز بغیر تنخواہ کے گزار رہے ہیں۔۔ڈائریکٹر نیوز کو پتہ ہے نہ ہی کنٹرولر نیوز کو کہ تنخواہیں کب ادا کی جائیں گی۔۔ گزشتہ ہفتے لاہور میں سینٹرل ڈیسک سمیت دیگر شعبوں کے کارکنان نے پانچ سے سات بجے شام دوگھنٹے کی ہڑتال کی اور کوئی کام نہیں کیا،اس دوران چھ بجے والا بلیٹن بھی نہ ہوسکا۔۔ٹکرز تک نہیں چلے۔۔ جس پر ایم ڈی صاحب نے دو ہفتے میں تنخواہوں کی ادائیگی کی یقین دہانی کرائی۔۔لیکن اطلاعات ہیں کہ جو لوگ ہڑتال میں پیش پیش تھے ان کی فہرستیں بھی تیار ہورہی ہیں تاکہ انہیں نکال دیا جائے اور آئندہ کے لئے مزید کوئی ہڑتال نہ ہوسکے۔۔اسلام آبادمیں دوسرے میڈیاچینلزکے مائیک اٹھانے والے لیڈربھی اس معاملے پرچپ سادھ کے بیٹھے ہیں ۔۔سب سے براحال کراچی بیوروکاہے جہاں کوئی پرسان حال نہیں۔۔تین ڈی ایس این جی آپریٹرکوفارغ کرکے ایک پائی تک ادانہیں کی گئی جب کہ مزیددوڈی ایس این جی آپریٹرکوفارغ کیے جانے کی جلداطلاعات ہیں۔۔بیورومیں اب مشکل سے ہی کوئی مستقل طورپرآرہاہے ۔۔ورکرزکوگنے کی طرح نچوڑکررکھ دیاگیاہے جن کاکہناہے کہ پیٹرول کے پیسے ہی نہیں تودفترکس منہ سے جائیں ۔اگرکوئی آبھی جاتاہے تودس دس بیس بیس روپے چندہ کرکے کھانے کے پیسے جمع کیے جاتے ہیں ۔۔ہردوسرے دن کہاجاتاہے منگل کوسیلری اکاونٹ میں منتقل ہوجائے گی اوریہ عمل پچھلے تین ماہ سے جاری ہے مگرنہ جانے وہ کونسامنگل ہے جوآنے کانام ہی نہیں لے رہا۔حیرت انگیزامریہ ہے کہ جب سے کراچی بیورونے کام شروع کیاہے نہ توڈائریکٹرنے یہاں کادورہ کیانہ ہی کسی اورنے ۔۔ملازمین سخت پریشانی کی حالت میں بس دہائیاں اورسیٹھوں کوکوستے ہی نظرآرہے ہیں۔۔پپو کا کہنا ہے ستر لاکھ کا چیک کراچی بیورو آیا تھا لیکن پتہ نہیں چل رہا کہ وہ کہاں گیا کیوں کہ کارکنوں کو تو ابھی تک تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں۔۔ کراچی آفس میں کوک اسٹوڈیو کا شوٹ بھی چل رہا ہے، پچھلے دوماہ سے یہ سلسلہ جاری ہے، اور کرایہ ایک لاکھ روپے یومیہ لیاجارہا ہے، اس طرح دو ماہ کے ساٹھ لاکھ روپے تو یہی بن گئے لیکن تنخواہوں کا کچھ پتہ نہیں۔۔ پپو کے مطابق اے پلس کراچی آفس کو فروری کی سیلری ادا کردی گئی لیکن پبلک نیوزکے ساتھ سوتیلے پن کا سلوک کیاجارہا ہے۔۔ہفتہ کے روز ایک ڈرائیور نے کراچی کے بیوروچیف کو کھری کھری سنادیں، پپو کے مطابق جب بیوروچیف نے اس سے پوچھا کہ دو دن کیوں نہیں آئے توڈرائیور نے بے نقط سناناشروع کردیں ،شور اتنا مچا کہ کوک اسٹوڈیو کی ریکارڈنگ کے لئے آنے والے پریشان ہوگئے۔۔ڈرائیور اتنا پریشان تھا کہ بیورو چیف کو کہنے لگا۔۔تین ماہ کی بقایا تنخواہ اور دو ماہ برطرفی والی تنخواہ دے کر مجھے لات مار کر نکال دو۔۔
پپو نے اس امر پر حیرت کا مظاہرہ بھی کیا ہے کہ پی بی اے کے اراکین کے چینلز میں ایسی صورتحال ہوتو چلو مان لیتے ہیں کہ وہ حکومت کو ٹینشن دینے کے لئے صحافیوں کو حکومت کے خلاف کررہے ہیں لیکن یوسف بیگ مرزا تو خود حکومت میں ہیں اور وزیراعظم کے مشیر ہیں اور مشیر بھی برائے میڈیا تو پھر کیا وجہ ہے کہ خود ان کے ادارے میں کارکنوں کے ساتھ بدترین سلوک کیا جارہا ہے اور اسے بیگار کیمپ بنایاہوا ہے؟؟؟ اگر یوسف بیگ مرزا یا پبلک نیوزانتظامیہ کی جانب سے کوئی ترجمان یا کوئی بھی شخص ہماری ان باتوں سے اختلاف رکھتا ہے تو وہ اپنا موقف ہمیں لکھ کر بھیج سکتا ہے ہم اسے بھی ضرور شائع کریں گے۔۔(علی عمران جونیئر۔۔)