کالم : علی عمران جونیئر
دوستو، آج یوم عاشور ہے، ایک ایسا دن جو قیامت تک مسلمان کبھی بھلا نہیں سکتے۔۔ محرم الحرام اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہوتا ہے جو قربانی سے شروع ہوتا ہے اور اسلامی کیلنڈر کے آخری مہینے میں بھی قربانی کے ساتھ ہی سال کا اختتام ہوتا ہے۔۔ یوم عاشور یعنی دس محرم الحرام زمانہ جاہلیت میں قریشِ مکہ کے نزدیک بڑا محترم دن تھا، اسی دن خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے، قیاس یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کچھ روایات اس کے بارے میں ان تک پہنچی ہوں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ قریش ملتِ ابراہیمی کی نسبت سے جو اچھے کام کرتے تھے، ان کاموں میں آپ ان سے اتفاق واشتراک فرماتے تھے، اسی بنا پر حج میں بھی شرکت فرماتے تھے، اپنے اس اصول کی بنا پر آپ قریش کے ساتھ عاشورہ کا روزہ بھی رکھتے تھے، لیکن دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیتے تھے، پھر جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے اور یہاں یہود کو بھی آپ نے عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا اور ان کی یہ روایت پہنچی کہ یہ وہ مبارک تاریخی دن ہے، جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نجات عطا فرمائی تھی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرقاب کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کے روزے کا زیادہ اہتمام فرمایا اور مسلمانوں کو بھی عمومی حکم دیا کہ وہ بھی اس دن روزہ رکھا کریں۔۔
یوم عاشورہ بڑا ہی مہتم بالشان اور عظمت کا حامل دن ہے، تاریخ کے عظیم واقعات اس سے جڑے ہوئے ہیں، چناں چہ مورخین نے لکھا ہے کہ۔۔ یوم عاشور میں ہی آسمان وزمین، قلم اور حضرت آدم علیہما السلام کو پیدا کیاگیا۔ اسی دن حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کی توبہ قبول ہوئی۔ اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا۔ اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر لنگرانداز ہوئی۔ اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ،،خلیل اللہ‘‘ بنایا گیا اور ان پر آگ گلِ گلزار ہوئی۔ اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔ اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی۔ اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔ اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم واستبداد سے نجات حاصل ہوئی۔ اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔ اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت واپس ملی۔ اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت بیماری سے شفا نصیب ہوئی۔ اسی دن حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے۔ اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے اوپر سے عذاب ٹلا۔ اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔ اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے نجات دلاکر آسمان پر اٹھایاگیا۔ اسی دن دنیا میں پہلی بارانِ رحمت نازل ہوئی۔ اسی دن قریش خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے۔ اسی دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا۔ اسی دن کوفی فریب کاروں نے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جگر گوشہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کو میدانِ کربلا میں شہید کیا۔ اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔۔
اسلامی تاریخ میں اس دن ایک بہت دردناک واقعہ بھی پیش آیا۔دس محرم الحرام 61ہجری کو جنت کے نوجوانوں کے سردار اور حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم کے نواسے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو میدانِ کربلا میں شہید کیا گیا۔ اس ماہ کے آتے ہی اس واقعہ کی یاد تازہ ہو کر ہر مسلمان کی آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے اوربرصغیر میں یہ مہینہ اس واقعہ سے ہی شہرت پا گیا ہے۔اس حوالے سے ایک غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یوم ِ عاشور کی فضیلت شہادتِ حسین کی وجہ سے ہے اور اسی واقعہ کی وجہ سے یہ دن مقدس او ر حرمت والا بن گیا ہے۔ یہ بات صحیح نہیں ۔اس لیے کہ اس دن کو تو نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بھی مقدس مانا جاتا تھا‘جبکہ حضرت حسین کی شہادت کا واقعہ تو نبی اکرمصل اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے تقریباً ساٹھ سال بعد پیش آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دن کی فضیلت ماقبل بیان کردہ وجوہات کی بنا پر ہے ‘ البتہ اس دن حضرت امام حسین کا شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوناان کی فضیلت کی ایک اور دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی شہاد ت کے لیے اتنے مقدس دن کا انتخاب کیا۔
محرم الحرام کا پہلا عشرہ غم کا عشرہ ہے۔ رتن ناتھ سرشار کے ’فسانہ آزاد‘ میں محرم کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔۔’’ماتم داری لکھنو پر ختم ہے۔ عاشورہ کی رات تو نچوڑ کا دن تھا۔ جدھر جاتے ہیں آواز گریہ وزاری۔ جسے دیکھتے ہیں صرف اشک باری۔ رات تو زیارت میں بسر ہوئی۔ عاشورہ کے دن پو پھٹنے کے وقت تعزیے نکلے۔ رانگے کا تعزیہ، جو کا تعزیہ، موم کا تعزیہ، انڈوں کا تعزیہ، نوگزہ تعزیہ، لاکھوں تعزیے تال کٹورے کی کربلا میں دفنائے جاتے ہیں۔‘‘
لاہور میں مغلوں کی آمد کے بعد عزاداری کی ابتدا ہوئی اور عہد جہانگیری میں ملکہ ہند نورجہاں نے ایرانی طرز پر لاہور میں عزاداری کی مجلسوں کی سرپرستی شروع کی مگر مجالس عزاداری کیلئے باقاعدہ امام بارگاہوں کا قیام مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور 1825۔28ء کی دہائی میں شروع ہوا۔ امام بارگاہ اس مقام کو کہاجاتا ہے جہاں فقہ جعفریہ سے تعلق رکھنے والے افراد محرم الحرام کے مہینے میں مراسم عزاداری سرانجام دیتے ہیں۔ امام بارگاہ میں واقعہ کربلا کا تذکرہ علماء و ذاکرین اپنے مخصوص انداز میں پیش کرتے ہیں۔ امام بارگاہ کے لغوی معنی امام عالی مقام کی یادگار یعنی ایسی جگہ یا مقام جو حضرت امام حسین کے نام پر وقف ہو۔ امام بارگاہ کی عمارت میں مجالس و محافل کیلئے ایک وسیع ہال تعمیر کیا جاتا ہے جس کی دیواروں پر شہدائے کربلا کے نام کندہ ہوتے ہیں اور یہاں تعزیہ بھی رکھا جاتا ہے۔ امام بارگاہ کا منتظم ’’متولی‘‘ کہلاتا ہے جس کے پاس مجالس اور جلوس نکالنے کا سرکاری لائسنس ہوتا ہے۔ امام بارگاہ کے علاوہ عزاداری منعقد کرنے کیلئے مختلف گھروں کو ’’عزاخانہ‘‘ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے جہاں صرف ایام عزا میں مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔۔لیکن یہ بات بھی سو فیصد حقیقت ہے کہ کربلا کی تاریخ کو سب سے زیادہ ذاکروں نے مسخ کیا۔ داد ، ماتم اور آہوں کے ساتھ ساتھ پیسوں کے تمنائی زاکروں نے کربلا کو مذاق بنا دیا ہے۔جیسے ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک مشہور و معروف شیعہ ذاکر کے ایسے کلپ وائرل ہیں جس میں ایک جگہ وہ دعویٰ کررہے ہیں کہ نیپال میں ہندو نوجوان عاشوروالے دن صبح گھرسے نکل کر چھریوں کا ماتم کرتے کرتے مرجاتے ہیں اور شام کو زندہ ہوکر گھروں کو واپس چلے جاتے ہیں، اسی طرح ایک اور کلپ میں موصوف فرماتے ہیں کہ ۔۔فرانس کے بادشاہ نپولین نے انگریزوں کے خلاف آخری جنگ میں حضرت امام حسین سے مدد مانگی اور امام عالی مقام کی شان میں فرنچ میں ایک نظم بھی لکھی پھر وہ اس نظم کا اردو ترجمہ حاضرین کو سناتے ہیں۔۔
کربلا تاریخ کا مکمل باب ہے۔ کسی قسم کے اضافے اور کمی کی اس میں مگر ضرورت نہیں۔ جو ہوا جیسے ہوا اور جن کے ساتھ ہوا اسے تاریخ جھٹلا نہیں سکتی۔ کربلا ایک فرقہ نہیں ہے ، کربلا شاید ایک مذہب بھی نہیں ہے۔ آپ کو کسی فرقے سے نفرت ہے تو ضرور کیجئے۔ آپ کو کسی کا طریقہ کار پسند نہیں تو آپ اس کا حق رکھتے ہیں۔ کسی کو آپ کی پسند ناپسند سے فرق نہیں پڑتا۔۔لیکن بس اتنا خیال رکھیئے کہ کسی کے عقیدے کو چھیڑیں مت اور اپنا عقیدہ چھوڑیں مت۔۔سب کو اپنی قبر میں جانا ہے اور اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔۔اپنے اعمال درست رکھیئے۔۔جس طرح نبی کریم کی مقدس ذات سے عشق کرتے ہیں، اہل بیت سے بھی اسی شدت سے عشق کیجئے۔۔ ۔شاید اللہ پاک اسی عشق کے نتیجے میں آپ کی عاقبت سنوار دے۔