تحریر: خرم علی عمران
یونانی میتھالوجی میں پینڈورا کی کہانی بہت مشہور و معروف ہے جس کے تحت جب پینڈورا نامی دیوی سزا کے طور پر زمین پر بھیجی گئی تو اسے دیوتاؤں کی طرف سے ایک باکس دیا گیا تھا اور اسے کھولنے سے منع کیا گیا تھا، مختصراً یہ اسے کھولنا نا گزیر ہوگیا۔ اس وقت یہ دنیابہت پر امن اور خوشیوں کا گہوارہ تھی، جنت نظیر تھی، یہاں کے باسی دکھ تکلیف اور مصیبتوں سے نا آشنا تھے، جب پینڈورا کا باکس کھولا گیا تو اس میں سے یک لخت مصیبتیں،دکھ بیماریاں پریشانیاں اور طرح طرح کی بلائیں نکل پڑیں اور ساری دنیامیں پھیل گئیں اور تب سے یہ دنیا دکھوں اور تکلیفوں کا گہوارہ بن کر رہ گئی ۔ مگر پینڈورا کے باکس سے ان سب نحوستوں، بلاؤں، مصیبتوں اور بیماریوں کے ساتھ ہی ساتھ دیوتاؤں کے تحفے کے طور پر ایک بہت اچھی اور خوشگوار چیز بھی برآمد ہوئی اور وہ تھی،امید، ٹھنڈی، میٹھی،پیاری سی امید۔۔
کہنے کو یہ ایک فرضی حکایت ہے اور ایسی حکایتیں اور روایتیں تقریباً تمام قدیم تہذیبوں یعنی ہندو، لاطینی و رومن تہذیب یہاں تک کہ مسلم تہذیب میں بھی تخلیق کی گئیں مگر یہ حکایت ہمارے یعنی مسلم تہذیب کے مزاج کی بھی بہترین عکاسی کرتی ہے اور جس طرح کتاب اللہ میں اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونے کی ہدایت، اور ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہونے کا مژدہ سنایا گیا ہے، اور کسی بھی حال میں ہمت نہ ہارنے کا سبق دیا گیا ہےیہ حکایت اس کی بہترین تر جمانی کرتی ہے اور جدوجہد کا اور عمل کا درس دیتی ہے۔
تو جناب والا، مشکلات سے ڈریے نہیں بلکہ لڑیے، اپنی پوری کوشش اور سعی سے ان سے نبرد آزما ہو جائیے، کیسے ہی خراب حالات و واقعات سے آپ گزر رہے ہوں امید کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے نہ چھوڑیے۔اگر آپ نے اس پر عمل کیا اور خوش امیدی کو سامنے رکھ کر چلے تو آپ دیکھیں گے کہ ہر آنے والا دن اور وقت آپ دیکھیں گے کہ بہتر سے بہتر ہوتا چلا جائے گا اور راستے کھلتے چلے جائیں گے۔ قسمت بھی ہمیشہ بہادروں اور لڑنے والوں کا ساتھ دیتی ہے، مایوسوں اور بزدلوں کا نہیں۔ امید ہمارے اندر مثبت سوچ پیدا کرتی ہے اور ہمیں الجھنوں مشکلوں اور بدترین حالات میں بھی مثبت سوچ کی زبر دست طاقت عطا کرتی ہے۔ امید اپنے اندر ایک زبردست انرجی ایک ناقابل تسخیر طاقت رکھتی ہے، یہ سوچ اور فکرکہ اگر ہم کوشش کریں گے تو سب ضرور ٹھیک ہوجائے گا آنے والا وقت بہتر ہوگا، حالات بہتر ہوجائیں گے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ” تندیء بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب۔۔ یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے۔۔
دنیا بھر کے سیلف میڈ لوگوں کے حالات زندگی پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم انہیں کامیابیوں کی جن بلندیوں پر دیکھتے ہیں وہ بلندیاں انہیں پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملیں بلکہ بڑی کٹھنائیوں، مشکلات، رکاوٹوں اور مصیبتوں کا سامنا کرکے اور ان پر قابو پاکر ملی ہیں۔ بہت سے اہل اللہ کا بڑا مشہور قول ہے کہ” لوگ ہماری انتہا دیکھتے ہیں ابتدا نہیں” دنیا کے تمام بڑے لوگوں میں چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم چند خصوصیات مشترک ہیں اور ان میں سے ایک خوش امیدی بھی ہے وہ اپنی جد و جہد کے دنوں میں مشکل سے مشکل حالات پیش آنے پر بھی کامیابی کے حصول لیے پر امید رہے اور مثبت سوچ سے اپنی منزل کی جانب گامزن رہے اور بالاآخر کامیابی نے انکے قدم چومے، ہم انبیاء علیہم السلام کی بات نہیں کرتے کہ وہ تو بہت ہی ارفع و اعلیٰ ہستیاں ہیں اور اور اللہ کی مدد و طاقت ان کے ہم رکاب ہوا کرتی تھی مگر ان سے ہٹ کردنیا کے بڑے بڑے قائدین، مصلحین، فالاسفرز، سائنسدان، موجدین، ادیب، شعرا، فاتحین اور تاریخ انسانی کے بے شمار بڑے لوگ جنہوں نے اس دنیا کے تاریخ پر اپنے دائمی نقش ثبت کر دیے کی زندگیوں کو دیکھیں،انکی ابتدا ایسی نہیں تھی جیسی ان کی انتہا، ان کی ابتداء جہد مسلسل سے عبارت تھی،انہیں بھی طرح طرح کی مشکلات پریشانیاں رکاوٹیں اپنے اپنے شعبوں میں پیش آئیں مگر وہ ڈرے یا گھبرائے نہیں بلکہ مثبت سوچ کے ساتھ مشکلات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مثبت سوچ اور خوش امیدی کے سہارے آگے بڑھتے گئے اور اپنا مقصد حاصل کر کے ہی دم لیا۔
یہ بڑے لوگ کوئی آسمان سے نہیں اترے تھے ہماری اور آپ کی طرح کے انسان تھے اور جن اصولوں اور طریقوں اور تراتیب پر چل کر وہ دنیا کے بڑے لوگوں میں اپنا شمار کرانے میں کامیاب رہے ان ہی پر چل کر کوئی بھی اپنے اپنے شعبے میں کیا بڑا آدمی نہیں بن سکتا؟کیوں نہیں؟ ضرور بالضرور بن سکتا ہے۔ بس اسے خوش امیدی اور مثبت سوچ کے ساتھ سفر کا آغاز کرنا ہوگا اور محنت وجہد مسلسل کو اپنا شعار بناکر اپنی منزل و مقصد کی جانب چلنا ہوگا اور جلد یا بدیر وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچ جائے گا، مایوسی، ناامیدی، بزدلی اور احساس بے بسی کامیابی کے لیے زہر قاتل ہیں اور اگر کامیابی چاہتے ہو تو ان سے ایسے بھاگو جیسے شیطان لاحول سے اور مجرم کوتوال سے بھاگتا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو ہر طرح کی کامیابی عطا فرمائے۔(خرم علی عمران)