nakafi hein lafazian

یہ صحافت ہے؟

تحریر: شکیل بازغ۔۔

ٹی وی جرنلزم کی بات کررہا ہوں۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ معلومات فراہم کرنے کے بہانے عوام کی “خاص نکات اور ایجنڈے” پر ذہن سازی کرنے والا پاکستانی میڈیا ریٹنگ میں سبقت لے جانے کی وجہ سے بچگانہ حرکتیں کرنے کا عادی یوچکا ہے وہ قوم کا معیار دنیا میں بلند کرتا۔۔ صحافت کے جومعیارات کتابوں میں درج ہیں۔ مانا کہ کسی بھی شعبہ میں عملاً کتابی ضابطہ قابل عمل نہیں ہوتا۔ لیکن صحافت کے بنیادی اصول تو کم از کم ادارہ کبھی نہ چھوڑے۔ نہایت سنجیدہ اور پڑھے لکھے سینئرز کو بھی چار و ناچار صحافتی قواعد و ضوابط معیارات کو پس پشت ڈال کر بھیڑ چال کا حصہ بننا پڑتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ مداری تماش بینوں کو اپنی جانب جلدی مائل کرلیتا ہے۔ جبکہ مہذب استاد کا وعظ سننے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ اسکی دلیل ابھی لیجیئے۔ بالفرض آپ سرمایہ اکھٹا کرکے کتابوں میں وضع کردہ صحافتی اقدار کے عین  مطابق ملک و قوم کی دیانتداری سے فلاح و بہبود پر مبنی حق سچ پر ذہن سازی کرنے کیلئے ایک چینل کھولیں۔ آپ کو کمرشل ہی نہیں ملنے وجہ یہ کہ اگر آپکو نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز ایسا روایات اور اچھی باتوں سے لبریز چینل کھولنا ہے تو آپ ناظرین کی عدم دلچسپی پر ریٹنگ میں اتنے پیچھے رہ جائیں گے کہ آپکو یا تو اپنی سرمایہ کاری ڈوبتی دکھے گی یا پھر آپ اسے خیراتی ادارے کے طور پر اخلاقیات پر مبنی چینل بنا ڈالیں گے۔ ایسا اس لیئے ہے کہ ٹی وی میڈیا نے لوگوں کی سوچ کا معیار بلند کرنے کیلئے باہم مل کر چلنا تھا۔ لیکن ہوا اسکے برعکس ہے۔ کانٹینٹ ڈیزائننگ میں ہونا یہ چاہیئے تھا کہ اپنی شناخت و روایات سے جڑی سوچ کے مثبت معیارات اجاگر کرکے نفیس مہذب قوم بنائی جاتی۔ میڈیا تماش بینیوں میں یہ کہہ کر کود پڑا کہ وہ دکھاو جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں۔ لوگوں کی بطور مہذب قوم ذہن سازی کا شرف میڈیا سے چھِن چُکا کیونکہ میڈیا اونرز سرمایہ دار سیٹھ بن گئے جنکا مقصد نفع کمانا ہے قوم ملک سلطنت سے اسے کچھ لینا دینا نہیں۔ چند معاشرتی و مذہبی حدود مزاحم نہ ہوتیں تو ہم سکرینز پر اس کانٹینٹ کی جھلک بھی inverted commas میں دیکھتے جو لوگ فی الوقت کھُلے بندوں نہیں دیکھتے۔ یہ تو بھلا ہو جمہوری حکومتوں کا جو اسلامی ملک پاکستان کی بنیادیں کھوکھلی کرنے پر گامزن ہے اور میڈیا کو آہستگی سے چھوٹ دے رہی ہیں۔ وگرنہ معیار تو کسی شے کا رہنا ہی نہیں تھا۔ آپ موجودہ نیوز چینلز کو ہی دیکھ لیں کانٹینٹ گھٹیا کیونکہ بِکتا ہے۔ پروڈکشن حیا باختہ کیونکہ بکتا ہے۔ لوگ تماشے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اینکرز کتنے ہیں جو قومی زبان اردو اسکے مقام پر بولنے کا حق ادا کرتے ہیں۔؟ علمیت و خبریت کا حال آپ لوگوں سے چھپا نہیں۔ ٹی وی دیکھ کر معاشرہ مہذب ہورہا ہے یا بگڑ رہا ہے؟ ملکی سیاست کے گھٹیا معیارات میڈیا ہی طے کررہا ہے۔ بڑھکیں جگتیں دشنام طرازی بھانڈپن پر عبور حاصل کرانے کیلئے ان خصوصیات کے حامل سیاستدانوں کو ذوق و شوق سے سکرین پر بار بار دکھایا جاتا ہے۔ اور نمودو نمائش اور شہرت کے حریص سیاستدان ان گھٹیا معیارات میں اپنا مینار سب سے اونچا بنانے پر تُلے ہیں۔ جب سیٹھ ملک و قوم کے بجائے محض نفع کمانے کا ہی سوچے گا تو پھر ملک و قوم کی شناخت ثقافت اہمیت مٹانے کے درپے عالمی قمار باز تجوریوں کے منہ کھول دیں گے۔ پھر نہ کانٹینٹ کا معیار ہوگا نہ کانٹینٹ پریذینٹر کا نہ علمیت ہوگی نہ اخلاقیات بلکہ بچگانہ تماشے دکھائے جائیں گے اور قوم مہذب نہیں بلکہ تماش بین سے بھانڈ بنے گی۔میڈیا ملازمین مالکان کو زیادہ سے زیادہ نفع سمیٹنے کے گُر سکھا کر اپنی موجودگی کو ناگزیر ثابت کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔ کس میں ہمت ہے کہ اقدار کے بل پر میڈیا مالکان سے بحث مباحثہ کرے؟

میڈیا سے منسلک مالکان سے لیکر ہر ہر میڈیا ملازم تک کو ظرف اخلاقیات علم ادب تہذیب قومی شناخت و اوقات مدنظر رکھ کر کام کرنا ہوگا۔ اپنی نظریاتی حقیقی اساس کی ترجمانی ترویج و عکاسی کرنا ہوگی۔  تب جاکر بنے گا حقیقی اسلامی ملک پاکستان اپنی روایات سے جُڑا زندہ شادباد چمکتا روشن پاکستان۔ کیونکہ لوگ جو دیکھنا چاہتے ہیں اسکے بجائے انہیں بار بار وہ دکھایا جائے جو انسانی معیارات کی بنیاد پر ہو۔ اگر نہیں تو نہ ملک رہے گا نہ قوم اور نہ یہ زعم کہ ہم دنیا کی افضل قوم ہیں۔ (شکیل بازغ)۔۔

انسٹاگرام  اب فیس بک جیسا فیچر متعارف کرائے گا۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں