تحریر: امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب۔۔
کچھ دن ہوئے سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ برپا ہوا کہ لاہور کے عالمی کتاب میلے میں صرف 35کتابیں فروخت ہوئیں جبکہ1200شوارمے اور 800 بریانیاں خریدی گئیں۔۔۔اس “من گھڑت قصے” نے سرحد پار بھی جگہ بنالی اور پڑوسی ملک بھارت کے بڑے اخبار “ہندوستان ٹائمز”نے بھی “آئو دیکھا نہ تاؤ”اور اپنی ویب پورٹل پر بغیر تصدیق یہ یہ فیک نیوز شائع کر دی۔۔۔۔بھلا ہو برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کا اس نے 22اکتوبر کو اپنی ایک رپورٹ میں اس”اچھل کود”کو یہ کہہ کر “اپاہج”کر دیاکہ یہ کتاب میلہ تو اس سال فروری میں ہوا تھا۔۔۔۔25سے27اکتوبر کو لاہور پریس کلب میں سجے کتاب میلے سے بھی امید کی کرن پھوٹی کہ کتاب ابھی مری نہیں۔۔۔کتاب بین بھی ابھی زندہ ہیں۔۔۔۔لاہور پریس کلب کے اس کتاب میلے کا سلوگن تھا”کاغذ کی مہک میں بسی یہ صدی ہے کتابوں کی”۔۔۔لاہور پریس کلب لائبریری کمیٹی کے اعدادوشمار کے مطابق کتاب میلے میں لاہور کے 15 پبلشروں نے حصہ لیا اور کتابوں کی خریداری پر 50فیصد رعایت دی۔۔۔۔ تین روزہ کتاب میلے میں کتاب میلے میں مجموعی طور پر 1500کتابیں فروخت ہوئیں۔۔۔۔کتاب میلہ ہر روز دوپہر بارہ سے رات دس بجے ہوا۔۔۔اس طرح مجموعی طور پر30 گھنٹے میں 1500کتابیں بکیں اور ہر10 گھنٹے میں 500 کتابیں فروخت ہوئیں۔۔۔پبلشرز کے مطابق کتابوں کی یہ تعداد بڑی حوصلہ افزا اور شوارما بیانیے کے منہ پر طمانچہ ہے۔۔۔۔کتاب میلے کا افتتاح گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی خاتون وائس چانسلر کا اعزاز پانے والی پروفیسر ڈاکٹر شازیہ بشیر صاحبہ نے کیا۔۔۔سائنس کی استاد کے منہ سے قرآن و سیرت کے موتی بکھرے تو رشک آیا۔۔۔وہ ماہر اقبالیات بھی ہیں۔۔۔۔کہنے لگیں اپنے بچوں کو دنیا جہان کے علوم پڑھائیں لیکن ساتھ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی پڑھائیں تاکہ وہ بڑے آدمی کے ساتھ اچھے انسان بھی بنیں۔۔۔حکومت نے ایک روز پہلے انہیں گورنمنٹ ویمن یونیورسٹی کی سربراہی سونپ دی۔۔۔۔شہر اقبال کو اقبال شناس وائس چانسلر مبارک ہو۔۔۔۔۔لاہور پریس کتاب میلے کا دوسرا دن میرے لیے بڑا خوش گوار تھا۔۔۔سوچا کہ دفتر جانے سے پہلے کچھ دیر پریس کلب ٹھہرتا ہوں۔۔۔۔۔صبح پونے بارہ بجے ادھر پہنچا تو کلب مینجر جناب سلمان خان کے پاس ایک صاحب تشریف فرماتھے۔۔۔۔۔۔سلمان نے بتایا کہ یہ صاحب چئیرمین پیمرا جناب سلیم بیگ کے پروٹوکول افسر ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ سلیم بیگ صاحب بارہ بجے کتاب میلے کا وزٹ کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔میں نے کہا کہ مجھے تو ساڑھے بارہ بجے دفتر پہنچنا ہے۔۔۔۔۔۔میں نے سعید اختر صاحب کو فون کیا کہ آپ سلیم صاحب کو خوش آمدید کہہ لیں۔۔۔۔۔۔اتنی دیر میں پروٹوکول افسر نے بتایا کہ سلیم صاحب تو گیٹ پر آگئے ہیں۔۔۔۔۔اسی دوران جناب سعید اختر اور شہزاد فراموش بھی آگئے۔۔۔۔میں نے انہیں خوش آمدید کہا۔۔۔۔صدر روم بٹھایا اور چاہے کپ پیش کیا۔۔۔۔سلیم صاحب نے چائے کے کپ پر کیا ہی دل نشین گفتگو کی۔۔۔ان کی باتوں سے کتابوں کی مہک آٹھ رہی تھی۔۔۔۔۔کہنے لگے ٹیلنٹ مڈل کلاس سے ابھرتا ہے لیکن بدقسمتی سے مڈل کلاس مر گئی ہے۔۔۔۔۔اب نو دولتیے ہیں اور ان کا مسئلہ کتاب و قلم نہیں سنگ و خشت ہے۔۔۔۔۔ان کے پروٹوکول افسر نے انکشاف کیا کہ سلیم بیگ کی ذاتی لائبریری میں لاکھ سے زیادہ کتابیں ہیں۔۔۔۔۔میں نے انہیں لاہور پریس کلب کی جانب سے ایک کتاب گفت کی اور دفتر کے لیے رخصت لی۔۔۔۔۔رات نو بجے دفتر سے واپسی پر کتاب میلے کے بڑے سٹال بک ہوم پر رکا اور پوچھا کہ آج کا دن کیسا رہا؟بک یوم کے نمائندے نے کہا شاندار۔۔۔۔۔انہوں نے بتایا کہ کتاب میلے میں پولیس اہلکار بھی آئے اور پچاس فیصد ڈسکاؤنٹ پر کتابیں خریدیں۔۔۔کتاب میلے کی کامیابی کی اس سے بڑی گواہی کیا ہو سکتی ہے کہ پولیس اہلکار بھی کتابیں خرید لے گئے۔۔۔۔میں سوچنے لگا کہ جس ملک کے چیئرمین پیمرا کتابوں کے ایسے رسیا ہوں۔۔۔۔۔جس ملک کے پولیس اہلکار بھی کتابوں کے اتنے شیدائی ہوں وہاں کتاب کیسے مر سکتی ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟چیئرمین پیمرا جناب سلیم بیگ نے درست فرمایا کہ کتاب پڑھنے والی مڈل کلاس مر گئی۔۔۔۔لاہور پریس کلب کے کتاب میلے میں اس کی گواہی سنئیر صحافی جناب جاوید اقبال نے دی۔۔۔۔۔انہی کے قلم سے لکھی داستان غم پڑھیے ۔۔۔۔جاوید اقبال صاحب لکھتے ہیں:لاہور پریس کلب میں سجا کتاب میلہ اپنی پوری رونق کے ساتھ جاری تھا۔…میرا ایک دوست میرے پاس آیا…. مختصر سی گفتگو خریدی گئی کتابوں پر کرنے کے بعد ایک اجنبی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا یہ نوجوان ہر کتاب میلے میں نظر آتا ہے۔۔۔۔میں نے کئی بار اسے دیکھا ہے،کتابیں اٹھاتا ہے، ان میں کھو جاتا ہے، پڑھتا ہے، اور پھر انہیں واپس رکھ دیتا ہے مگر یہ کبھی کچھ خریدتا نہیں۔۔۔۔ شاید اس کی مالی حالت اسے اجازت نہیں دیتی۔۔۔میں نے اس کی بات سنی اور کہا چلو اس سے ملتے ہیں، کچھ باتیں کرتے ہیں۔۔۔۔اگر وہ کتابیں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا، تو کیوں نہ ہم باتوں باتوں میں اس کی پسندیدہ کتابیں تحفے میں دے دیں؟دوست نے محتاط لہجے میں کہا مگر ایسے خوددار لوگ اکثر تحفے قبول نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔میں نے جواب دیا کوشش کرنے میں کیا حرج ہے؟ شاید ہم کامیاب ہو جائیں۔۔۔۔جب ہم اس کے قریب پہنچے تو اس نے ہماری طرف دیکھنے کے بجائے اپنی نظریں کتاب پر مرکوز رکھیں۔۔۔۔وہ ایک گہری خاموشی اور سنجیدگی کے ساتھ کتاب کے صفحے پلٹ رہا تھا اور اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور علم کی پیاس واضح تھی۔۔۔۔ بک سٹال پر موجود لڑکا اسے غصے سے گھور رہا تھا، جیسے وہ اس کے وہاں ہونے کو ناگوار سمجھتا ہو، شاید اس لیے کہ وہ جانتا تھا یہ نوجوان کچھ خریدنے نہیں آیا، بلکہ صرف پڑھنے آیا ہے۔۔۔۔کچھ دیر بعد، ہم نے باتوں باتوں میں اس سے حال احوال پوچھا۔ ۔۔۔باتیں کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔وہ ہاں ہاں اور ناں ناں میں ہمیں ٹالنے کی کوشش کرتا رہا۔۔۔۔پہلے ہم نے اس سے اس کی پسندیدہ کتابوں کے بارے میں پوچھا جس کا اس نے کوئی جواب نہ دیا۔۔۔ پھر ہم نےنرمی سے پیشکش کی کہ ہم اس کی پسندیدہ کتابیں اسے تحفے میں دینا چاہتے ہیں۔۔۔۔ بس، جیسے ہی یہ بات کہی، اس کے چہرے پر ایسی خاموشی چھا گئی جیسے ہماری پیشکش نے اس کے دل پر پتھر مار دیا ہو۔۔۔۔اس کی آنکھوں میں خودداری کی لہر تھی۔۔۔۔ شاید یہ بات اس کی عزتِ نفس پر گراں گزری کہ ہمیں اس کی مالی بے بسی کا علم ہوگیا ہے۔۔۔۔اس نے کتاب واپس رکھی اور بغیر کچھ کہےخاموشی سے چلتا بنا۔۔۔ہم دونوں دوست دیر تک اس نابغے کو دیکھتے رہے اور وہ ہماری انکھوں سے اوجھل ہو گیا۔۔۔ میں نے اپنے دوست کی آنکھوں میں آنسو تیرتے ہوئے دیکھے اور خود بھی ایک ٹھنڈی آہ بھری۔ ۔۔۔میں نے دل ہی دل میں سوچا ایسے نگینے ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جن کے دلوں میں علم کی پیاس ہے۔۔۔۔ یہ وہ خوددار لوگ ہیں جو اپنی حالت کو فاش نہیں کرتے، مانگتے نہیں، مگر یہ بک سٹالوں یا پھر فٹ پاتھوں پر سجی کتابوں کو پڑھ کر اپنے علم کی پیاس بچھاتے ہیں۔۔۔۔
کف افسوس ملتے ہوئے میں اپنے دوست سے صرف یہ کہہ سکا کہ اگر ہم اس کے علمی شغل میں دخل اندازی نہ کرتے، ہو سکتا ہے وہ کتاب میلے کے تین دن نہ جانے کتنی کتابوں کی ورق گردانی کر کے اپنی علمی پیاس بجھا لیتا۔۔۔شومئی قسمت کہ وہ پھر تین دن کبھی نظر نہیں آیا۔۔۔۔میرے دل سے آہ بھرے صرف یہی الفاظ نکل سکے “کتابوں سے دوری دراصل خود سے دوری ہے، اور جب انسان اپنے آپ سے ہی کٹ جائے تو وہ چیزوں کا غلام اور انسانوں سے بے زار ہو جاتا ہے۔۔۔یہی بات لاہور پریس کلب کے جناب ارشد انصاری نے کتاب میلے کی اختتامی تقریب میں کہی کہ کتاب بغیر زندگی ادھوری ہے..وہی قومیں عروج پاتی ہیں جو کتاب کو سینے سے لگاتی ہیں(امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب)