تحریر: شکیل احمد بازغ
جمہوری نظامِ دنیا میں دو جماعتی سیاست رائج ہے۔ ایک جدت پسندی و ترقی کا علم لہرائے ہوئے ہے جسے کالا رنگ دیا گیا ہے۔، جبکہ دوسرا اخلاقیات، نظریات، اور مذہب پسندوں کیساتھ کھڑے ہونے کا دعوٰی کر رہا ہے جسے سفید رنگ دیا گیا ہے۔، باقی کی چھوٹی سیاہ یا سفید جماعتیں دراصل بڑی پارٹیوں کیساتھ عددی اکثریت بنانے یا عدم اعتماد کی تحریک لانے کیلئے سہولتکاری کیلئے ایوانوں میں موجود رکھا جاتا ہے۔ یوں کاروبارِ سیاست چل رہا ہے۔ اور یہ دونوں بیچ کے نظریہ الحاد و مادیت جس کا رنگ گرے یعنی سیاہ و سفید کا آمیزشی رنگ گرے(GRAY) کیلئے کام کر رہے ہیں۔
یہ کہانی دیس دیس کی ہے۔ آپ دنیا بھر میں دیکھ لیں، جہاں ایک غالب ہے تو دوسرا غالب آنے کی تگ و دو میں ہے۔ اور یوں ہر ملک کے عوام بنیادی طور پر دو نظریات میں بٹے ہیں، اور تقسیم کے اسی فارمولا کے تحت جمہوریت چل رہی ہے۔ کہیں صدارتی نظام ہے تو کہیں پارلیمانی نظام کہیں ڈکٹیٹرشپ ہے تو کہیں بادشاہ یا کوئین کے ماتحت پارلیمنٹ چل رہی ہے۔ دنیا بھر میں چھ یا سات آبزرونگ سٹیٹس ہیں،جو جمہوریت سے ہٹ کر ہیں، دیگر تمام دنیا کے عوام اب جمہوری نظام میں جکڑے جا چکے۔ جن کو مشترکہ دو نکاتی سیاسی بیانیہ دے دیا گیا، یا جدیدیت یا قدامت پسندی، اور دونوں کے علم لہرانے والے یہ جانتے ہیں کہ ایک کاز کیلئے کام کرنا ہے اور وہ ہے۔ لادینیت۔
بھارت میں گنگا الٹٰی بہہ رہی ہے۔ وہاں غالب جماعت ہندوتوا نظریئے کی کٹر مذہبی جماعت بی جے پی ہے جو معیشت کا علم اٹھا کر اپنی کامیابیوں کا جشن منا رہی ہے۔ جبکہ بائیں بازو کی جماعت کانگریس مادیت کے بجائے اقلیت خصوصا” مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرتی رہتی ہے۔
مودی نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ میں نے دس سال پہلے بھارت کو پاکستان کی نظر سے دیکھنا بند کر دیا ہے۔ بھارت بہت آگے بلکہ چاند تک پہنچ چکا ہے۔ اور پاکستان اپنا آٹا پورا کر لے یہی کافی ہے۔ پھر ایک اور وڈیو دیکھی جس میں بھارتی وزیر اعظم مودی لوک سبھا میں کھڑے ہو کر کہہ رہا تھا کہ بھارت والو دیکھ لو پاکستان نے الگ ہوکر کتنی غلطی کر دی۔ ستر سال بعد پاکستان کے ہاتھ میں بھیک کا کشکول ہے۔ یہ تھا بھارت کی مذہب پسند یعنی دائیں بازو کی جماعت بی جے پی کا بیانیہ،
اب دیکھتے ہیں بھارت کے بائیں بازو کا بیانیہ۔
بھارتی کانگریس کے قائد راہول گاندھی نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر امن کا نعرہ لگایا اور اس کے لئے مسلمانوں کے محبوب نبی اکرم ﷺ کی شانِ کریمی کا بیان کیا۔ راہول گاندھی نے ملک میں تشدد کے خاتمے کےلیے پیغمبراسلام اور قران کا حوالہ دیا،،، پیغمبراسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پردرود پڑھا،،، راہول نے کہا نریندر مودی اور آر ایس ایس ہندو نہیں ہیں۔۔۔
راہول گاندھی کو اسلام یا مسلمانوں سے پیار نہیں بلکہ انکی سیاست کا بیانیہ اقلیت کو اکثریت پر غالب نہیں تو کم از کم برابر لا کھڑا کرنا ہے۔ کل بالفرض ماضی کی طرح کانگریس یعنی اقلیتوں کی خود ساختہ پارٹی حکومت بنا لیتی ہے۔ تب کانگریس معیشت کا نعرہ لگا کر ترقی کی گردان بلند کرے گی۔ اور دبے لفظوں میں اقلیت کی بات جاری رکھے گی۔ جبکہ بی جے پی ہندوتوا سوچ کو پروان چڑھانے میں ہر حد تک جائے گی۔ لیکن معیشت اس کا بھی خدا بنی رہے گی۔
ان دو مثالوں سے جو ہم سمجھے ہیں وہ یہ کہ کوئی دائیں بازو کا ترجمان بنا ہو یا کوئی بائیں بازو کا ترجمان بنا ہو۔ دونوں دراصل اپنی اپنی جگہ عالمی سیاست کے محور لادینیت کو غالب کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ اور معیشت اور مادی ترقی کو اولین ترجیح و نعرہ بنا کر اسی کے سہارے اقتدار پانے یا سرکار گرانے کی اپنی اپنی باری پر کوشش کرتے رہیں گے۔
معیشت کا کوئی مذہب نہیں یہ عالمی جمہوری نظریہ ہے۔ جسے اقوام متحدہ کا بنیادی نظریہ کہا جاتا ہے۔ پوری دنیا کے جمہوری ممالک کا مرکزی ایوان اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل ہے۔ جہاں بیٹھ کر تمام دنیا کو ہدایات دی جاتی ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں چاہے اپوزیشن ہو یا اقتدار کی جماعتیں ہوں۔ تمام جدیدیت کے سامراجی (طاغوتی ) نظریئے کو پروان چڑھانے میں لگے ہیں۔ اور الیکشنز 2024 میں مذہب پسند اسلامی جماعتوں کو منصوبہ بندی کے تحت ایوانوں سے باہر رکھا گیا ہے۔ تاکہ سامراج کی پالیسیز کے نفاذ میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔
عملا” اب دنیا میں کوئی اسلامی ملک باقی نہیں رہا بجز افغانستان اور فلسطین کے۔ عرب اپ رائزنگ کے ذریعے مطلق العنان اسلامی نظریات کے حامل بادشاہوں اور حکمرانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، شام مصر عراق لیبیا وغیرہ کے بخیئے ادھیڑ کر وہاں جمہوریت پسند مغرب نواز حکمرانوں کو ماورائے شفاف پولنگ اقتدار دے دیا گیا۔ جمہوریت عوام کی حکمرانی کا نظام نہیں۔ بلکہ عوام کو طاغوتی صیہونی قوتوں کے چنگل میں پھنسانے کا نظام ہے۔ یہ اور بات کہ قدامت پسند اسلامی ممالک میں جب عوامی جذبات و نظریات سیاستدانوں سے نہ بدلے یا کچلے جا پا رہے ہوں تب فوج کو اقتدار دے کر گاجر کے بجائے چھڑی سے کام نکالا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں ایک جماعت ہمہ وقت تگ و دو میں ہے۔ عیسائیوں کی غیر جمہوری کیتھولک پادریوں کی جماعتیں، اسرائیل یعنی یہودیوں کی غیر صیہونی ربیز کی جماعتیں، اور پاکستان میں تحریک لبیک جیسی قدامت پسند بنیاد پرست جماعت۔ ان جماعتوں کا حقیقی نظریہ اپنے اپنے مذاہب کو بغیر لچک بغیر کسی ساز باز کے خالصتا” اپنے نظریہ کی بنیاد پر جمہوری نظام کے برخلاف اقتدار میں لانا ہے۔ جمہوری نظام دنیا کے مجموعی بڑے نظریئے کی ایک ذیلی اور چھوٹا سا فریب ہے۔ حقیقتا” دنیا میں دو ہی نطریات ہیں۔ ایک حق اور ایک باطل۔ ایک مادیت یعنی ترقی مشین کاروبار اور ردِ مذہب کیلئے ہے۔ اور دوسرا اسلام ۔ یہ دونوں باہم متصادم تا قیامت رہیں گے۔
جسے علامہ اقبال نے اپنے اس ایک شعر میں بیان کر دیا۔
اللہ کو پامردیءِ مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا۔واللہ اعلم۔۔(شکیل احمد بازغ)..