ye riyasat sirf tumhari nahi sabki hai

یہ ریاست صرف تمہاری نہیں، سب کی ہے !!!

تحریر:ناصر جمال

میڈیا، جب سے یہ ملک بنا ہے،ہر کسی نشانے پر ہے۔ یہ کسی حاکم اور طاقتور کو سوٹ ہی نہیں کرتا۔کیونکہ یہ ان کی اصل اپوزیشن ہے۔اس شعبے میں 28 سال ہوچکے ہیں۔ ایک مارشل لاء، بچپن میں، دوسرا جوانی میں دیکھا۔ سیاست دان اور ہائبرڈ سیاستدان بھی دیکھے۔ آنکھوں کا تارا، فوج بھی دیکھی اور پھر اُسے ہی نفرت کا استعارہ بھی بنتے دیکھا۔ لوگوں کو وردی والوں پر پھول نچھاور بھی کرتے دیکھا ور پھر اُسے ہی خوف کے عالم میں بھی دیکھا۔ طاقتور بیوروکریسی بھی دیکھی اور اُسے طاقتوروں کے گھر کی لونڈی کے طور پر بھی دیکھا۔ جبکہ اس ضمن میں بہت کچھ سنا اور پڑھا بھی تھا۔اور اب تک پڑھ رہے ہیں۔

فیض، فراز، جالب سے لیکر بابا نجمی، سجاد لاکھا اور نئی نسل کے نمائندہ شاعر بھی دیکھے۔ ضیاء الدین صاحب سے لیکر تنویر عباس نقوی،فاروق فیصل خان،نادر شاہ عادل، عباس اطہر، نذیر ناجی، نجم سیٹھی اور مشاہد حسین بھی دیکھے اور مطیع اللہ جان روف کلاسرا شہباز رانا، خلیق کیانی جیسے دیوانے بھی دیکھے۔ طلعت حسین انصار عباسی جیسے 180 ڈگری والے بھی دیکھے اور میر شکیل الرحمٰن کے قیدیوں سے لیکر آبپارہ کے اسیر بھی دیکھے۔شریفوں کے غلام تو سیٹھوں کے تابعدار ملازم بھی دیکھے۔

قلم کار کو بہت سے لوگ رابطے کرتے تھے۔ مگر اداروں کے ایما پر اس طرح کبھی دھمکیاں نہیں ملیں تھیں۔ میں بڑے فخر سے، سر اٹھا کر کہتا تھا کہ ’’مجھے کبھی اس لئے، کسی نے کچھ نہیں کہا کہ میں کسی ادارے یا سیاسی جماعت کے پے رول پر نہیں رہا۔وہ ہم جیسوں کو آزاد دیوانے تصور کرتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ آفرز نہیں تھیں۔ اور آفرز بھی عام  نہیں، انتہائی پرکشش تھیں۔ ہمیشہ سب کو کہا کہ کیریئر صحافیوں کی طرح کہا کہ میں بھی کیریئر صحافی ہوں۔ قلم کو امانت سمجھتا ہوں۔ خیانت کا سوال ہی ممکن نہیں ۔ کوہسار کے دامن میں، طاقتوروں نے پرکشش ترین پیکج اور میڈیا میں بلندی کے خواب، تعبیر تک بدلنے کی پیش کش کی۔اسے ٹھکرانے پر میرا ماتھا چوم کر سچے سپاہی نہیں کہا کہ کیریئر کے چوتھے آدمی ہو۔ وہ کرنسی والی کھلی سیف دیکھ کر بھی ہاں نہیں کی۔وہ کون سی قوت ہے جو تم جیسے لوگوں کو پگھلنے نہیں دیتی۔

قلم کار نے کہا کہ ماں باپ اور استادوں نے ”غلط تربیت“ کر دی ہے۔ مجھ سے پہلے بھی تو تین صحافی، یہ کام کرچکے ہیں۔ میںنے کونسا نیا کام کیا ہے۔وہ سب مانتے تھے کہ تم جیسے دیوانوں سے صحافت اور معاشرے کا بھرم قائم ہے۔

قلم کار کا مسئلہ دوسرا ہے۔ سیاست اور طاقت کے ایوانوں میں بہت کچھ ’’چھوڑا‘‘ ہے۔ قلم اور ضمیر کی حرمت پر سودی بازی نہیں کی۔ انسان بہت کمزور ہے۔ یہ رب، رسولﷺ اور بزرگوں کی نظرِکرم ہے کہ اپنی جگہ کھڑے رہے۔’’صحافتی اور مالی بلندی‘‘ کی قیمت، جو طلب کی جارہی تھی۔ نہیں دی۔ بہت سے دوستوں کے چھوٹے، چھوٹے، احسان لے لئے۔ حالانکہ، ایک جھٹکے کی بات تھی۔ پیسے بھی ہوتے۔ میڈیا میں نام بھی ہوتا۔ خبر کا پتہ ہے۔ بولنا آتا ہے۔ لہجہ صاف ہے۔ شعر و ادب سے واسطہ ہے۔ سیاست دانوں کی ٹاپ قیادت جانتی ہے۔ بابو اور پروفیشنل دوست ہیں۔کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔مگر !!! استادوں اور ماں باپ کی ’’غلط تربیت‘‘ کی وجہ سے ’’صحیح راستہ‘‘ نہیں چن سکے۔

آج بھی میرے گواہ ہیں۔ شوکت عزیز کیسے ہاتھ پکڑ کر، کہتے تھے۔ کیا بولنا ہے۔ بریف کرو۔ دو سے تین بار پرویز مشرف نے بلایا نہیں گیا۔نثار میمن اور ماروی میمن، شدید ناراض بھی ہوئے۔جب آپ کے دو، دو پرنسپل سیکرٹری دوست ہوں وہ بھی سترہ سال پہلے، آپ خبریں اخبار میں 2005 میں چالیس وزیروں کو 35 دن میں اپنے دفتر بلالیں۔درمیان میں حفظ و مراتب بھی حائل نہ ہوں۔ پھر مسئلہ کیا ہے۔۔۔

خوشامد، ضمیر فروشی، پائوں دبانے کا ہنر نہیں سیکھ پائے۔جب بھی لکھا، تپاک جاں سے لکھا۔ سوال ڈنکے کے چوٹ پر کئے۔ چوہدری شجاعت جیسے بندے نے کہا کہ یہ کبھی رعایت نہیں کرتا۔ ایک صحافی کا بھرپور کردارادا کرنے یہ نبھانے کی بھرپور کوشش ضرور کی۔

اسلام آباد میں پرامن سیاسی ورکرز کے قتل عام اور بہیمانہ سلوک اور اس سے ریاست اور معاشرے کو کیا نقصان پہنچے گا، پر میرا کالم، کچھ’’نادان دوستوں‘‘ کو بطور خاص ہضم نہیں ہوا۔ پہلے بھی بکواس کرتے رہتے تھے۔ اس بار واٹس ایپ گروپ میں باقاعدہ اٹھانے، ریڈ لائن کراس کرنے کی دھمکیاں دی گئیں ہیں۔خیر جوبھی ہے۔ دفعہ ماریں۔ مجھے افسوس ہے کہ میرے دوست احباب، فیملی، اس سے ڈسٹرب ہوئے۔ سوچتاہوں کہ اسے ہمیشہ کی طرح نظر انداز کرنا چاہئے تھا۔ میں اکثر تبصروں پر جواب نہیں دیتا۔ بعض اوقات رئوف کلاسرا والی بری عادت کے باعث کسی سے الجھ بھی پڑتا ہوں۔ بات انفرادی طور پر ہو تو میں نمبر بلاک کردیتا ہوں۔جس گروپ میں یہ دھمکیاں آئیں۔ وہ ہمارے سینئر مسعود اظہر کا گروپ ہے۔ کچھ دوستوں نے دو دن پہلےجعلی ٹالسٹائی کو آڑے ہاتھوں بھی لیا تھا۔ ہوسکتا ہے کوئی ’’انفرادی سیاسی‘‘ ہو۔ادارے کی اڑ لے رہا ہو اور اداروں کو بدنام کر رہا ہو۔یہ بات، سب کو معلوم ہے۔ قلم کار نے ہمیشہ اپنا مافی الضمیر ڈنکے کی چوٹ پر بیان کیا ہے۔ آج 28 سال کے بعد، صحافت کے کارزار میں ایسے تو نہیں ڈرایا جاسکتا۔

اگر ہم ڈر گئے تو اپنی نسلوں کے لئے کیا ورثہ چھوڑ کر جائیں۔ گے۔ ہمارے بزرگ آگ اور خوں کا دریا پار کرکے، اس ملک میں آئے تھے۔ یہ ملک ہمارا ہے۔ ہمیں یہ ملک، کسی ایوب خان، ضیاء الحق، مشرف یا عاصم منیر ،نواز شریف زرداری یا عمران خان نے نہیں دیا۔اور نہ ہی ہمیں کوئی، اس سے دستبردار کرسکتا ہے۔ ظلم، ناانصافی، ہوگی تو آواز بلند کریں گے۔ ریاست اور معاشرے کا وجود خطرے میں ہوگا تو قلم کار رکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اگر ہم جبر کے سامنے لیٹ جاتے تو، یہ ملک ہی نہیں بنتا۔ ہم کسی عمران خان، نواز شریف، زرداری، اچکزئی، کسی سردار وڈیرے، عاصم منیر یا عاصم ملک کو نہیں جانتے۔ ہمارا دُکھ، درد، چین، امن، معیشت، بھائی چارہ، یہ ملک اور ریاست ہے۔

جب عمران خان اسٹیبلشمنٹ کا ساتھی تھا۔ غلط فیصلے کررہا تھا۔ اس وقت بھی لکھا۔مسلسل ساڑھے تین سال لکھا ۔آج نواز شریف، زرداری، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملکر غلط پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ غلط فیصلے مسلط کررہے ہیں۔ اس کےخلاف بھی اُسی شدت سے لکھا اور لکھیں گے۔ہمارا اختلاف اصولی ہے۔ جب بے نظیر اور نواز شریف مظلوم تھے۔ ان کے حق میں لکھا۔جب رحمٰن ملک بیرونی اشارے پر آئی۔ ایس۔ آئی کو پنجاب پولیس بنانے چلا تھا۔ ہم ہی آواز بلند کرنے والے تھے۔ رانا ثناء اللہ پر ظلم ہووا تو کُھل کرلکھا۔یہ سب ریکارڈ پر ہے۔ایک جمہوری معاشرے میں آپ کو رائے بنانے، بولنے، اپنے حکمرن منتخب کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ وکلاء موومنٹ میں، بھی صحافیوں نے ہر دبائو کا سامنا کیا۔جب بیورو کریسی میں جاتی عمرہ اور نوابشاہ سروسز گروپ بنائے جارہے تھے۔ بھرپور آواز بلند کی۔ اعظم خان، فواد حسن فواد سے لیکر، بیورو کریسی کی بدمعاشیاں بے نقاب کیں۔ سیاستدانوں کے اسکینڈل، مہمنڈ ڈیم اسکینڈل عوام کو بتائے۔

آج، آپ نہتے سیاسی لوگوں کو ٹارگٹ کریں گے یا کل عمران خان اقتدار میں آکر اپنے سیاسی مخالفین یا اسٹیبلشمنٹ کو رگڑا لگائے گا تو یہ فقیر اور درویش صحافی ہی آوازبلند کریں گے۔میڈیا تو واچ ڈاگ ہے۔ اسے تباہ و برباد نہ کریں۔آپ نے مین سٹریم میڈیا، عدالتوں، پارلیمنٹ اور انتظامیہ کو ’’بکری‘‘ بنا کر دیکھ لیا۔ بات تو پھر بھی ہورہی ہے۔پہلے سے زیادہ شدت سے ہو رہی ہے اور پہلے سے زیادہ موثر بھی ہے۔وگرنہ مطیع اللہ جان اور شاکر اعوان کو نہ اٹھایا جاتا۔صحافیوں کی غالب ترین اکثریت اور میڈیا ہائوسز کے منہ کو آپ نے مراعات اور اکرام کی بارشوں سے بھردیا۔پھر بھی دیوانے بُول رہے ہیں۔ حضور ہمیں کسی سیاستدان، بابو، فوج، جج، سیٹھ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ نہ ہی ہم کسی کے حمایتی، عاشق یا غلام ہیں۔

ہمارا مسئلہ، یہ ملک، ریاست اور عوام ہیں۔آپ کا راستہ سیدھا ہے تو ہم کیوں تنقید کریں گے؟ آپ اشرافیہ کی 99.99 فیصد اکثریت تو پہلے ہی دوسرے ملکوں کی شہریت ہے مگر یہ ملک ہماری اور ہماری نسلوں کی آخری پناہ گاہ ہے۔اس سرزمین کو کربلا مت بنائے۔ اسے دلی کی طرح مت اجاڑیں۔ اس کے وسائل مکمل طور پر ہڑپ مت کریں۔ جو، آپ کا کام نہیں ہے۔ اُسے کرنے کی ضد چھوڑیں۔ پپٹ پالنے کے آپکے شوق نے، آپ کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ پہلے بھی یہ ملک اسی طرح دولخت ہوا۔ اسے کئی لخت کرنے کے راستے سے واپس آجائیں۔ اس ملک کا نمک کھایا ہے تو نمک حلال کریں۔ نفرتوں کی دیوار اتنی بلند نہ کریں کہ پاٹی نہ جاسکے۔اس ملک کے لئے عوام اور ادارے دونوں ہی ناگزیر ہیں۔ تصادم سے بچیں۔ آگے بند گلی ہے۔ دیوار سے لگانے کے نتائج خوفناک ہوئے ہیں۔ یہ ملک مسلمانوں کو دیوار سے لگانے اور تصادم کے نتیجے میں بنا تھا۔ ناانصافی، گھٹن، ظلم اور جبر نے آزادی کی راہ پر چلایا۔یہ طاقت سے فیصلے نہیں، درست فیصلے کا وقت ہے۔ پورا ملک جل رہاہے۔ جس کی حدت، ہر راستہ اور رشتہ بھسم کردے گی۔ ابھی بھی وقت ہے۔ خود کو، اس ریاست، معاشرے کو تماشا نہ بنائیں۔

یہ لاشیں گرانے نہیں، مرھم لگانے کا وقت ہے۔ حکمت سے کام لیں۔ فتح مکہ سے کچھ تو سیکھیں۔ اس خطے میں آج، ہم ہی سب سے پیچھے کیوں ہیں۔ افغانستان، نیپال، سری لنکا بھی آپ سے بہتر ہیں۔ طاقت سے آج تک، ایک مسئلہ حل نہیں ہوا۔بنگال سے لیکر، کراچی، بھٹو سے لیکر عمران خان، بے نظیر سے لیکر نواز شریف، سندھ آپریشن سے لیکر بلوچستان، کے۔ پی سے لیکر اسلام آباد، ناکامیاں ہی ناکامیاں ہیں۔

بیٹھیں، بات کریں۔ مذاکرات سے مسائل حل ہوتے ہیں۔ کیا ہم سب پاکستانی نہیں ہیں۔ ہم سب بھائی ہیں۔ سوچیں۔(ناصر جمال)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں