تحریر: ناصر جمال۔۔
اسلام آباد میں وزیراعظم ھاوس سے جیو نیوز کی بلڈنگ تک صفِ ماتم ھی صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کو شٹ۔اپ کال ہے۔ وہ آئین میں نقب لگا چکا تھا۔ جسے سپریم کورٹ نے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہے۔ ”حکومت اور طاقت“ الیکشن کمیشن کی سہولت کار ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس منیب اختر نے،کردار کشی، بدتمیزی، جہالت، دھمکیوں کا بڑے تحمل سے مقابلہ کیا ہے۔حکومتی اتحاد اور الیکشن کمیشن نے، اپنے سہولت کاروں کے ساتھ، وہ کونسا لُچ تھا۔ جو فیصلے سے پہلے اور بعد میں فرائی نہیں کیا۔
آج وفاقی کابینہ، سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرکے، مکمل ننگی ہو چکی ہے۔ فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوگا۔ یہ ہارے ہوئے جواریوں کی بڑھکوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دن دو بجے، چھ رکنی بینچ نے’’حافظ‘‘ کیس کے ’’سوئو موٹو‘‘ کوپانچ منٹ میں نمٹا کر، برادر ججز کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ ہرراستہ، جہاں سے نقب لگی اور لگائی جاسکتی تھی۔ اس پر معزز عدالت نے آہنی دیوار اور بلٹ پروف پلستر کردیا ہے۔ حکومتی وزراء، میڈیا کا ایک غلام سیکشن، چائی کی پیالی میں طوفان اٹھانے کی کوشش کررہا ہے۔
اشتہاری لندن سے، الطاف حسین والی دھمکیاں لگا رہا ہے۔ چیف جسٹس اور فیصلہ دینے والے دونوں ججز کے خلاف، ریفرنس دائر کرنے کی ہدایات دے رہا ہے۔ معزز ججز کا قصور یہ ہے کہ انھوں نے ایک سال پہلے ایک سوئو موٹو سے، آج بیٹھی، اسمبلی کو بحال کیا تھا۔ آج جب وہ عوام کو ان کا ووٹ دینے کا حق، لوٹا رہی ہے تو ’’سوئو موٹو‘‘ غلط ہوگیا ہے۔ غیر آئینی اور غیر قانونی قرار پایا ہے۔ ججز پر ’’رقیق حملے‘‘ کیے جارہے ہیں۔ مے فیئر فلیٹس سے لیکر جاتی عمرہ اور اقتدار کے ایوانوں تک ایک زلزلہ برپا ہے۔ ایسا لگتا ہے۔ بائو جی، ”نکے“ کی قربانی دینے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ اپنی اولاد کے راستے سے ہر رکاوٹ دور کرنے چلے ہیں۔ شہباز اورحمزہ جانی، ماضی کا قصہ رہ جائیں گے۔
سب سے زیادہ کنفیوژڈ، پیپلز پارٹی ہے۔ بظاہر، اُس نے الیکشن میں جانے کا اعلان کیا ہے۔ مگر وہاں تو ایک مکمل ’’تذلیل‘‘ کے سوا، پارٹی کے ہاتھ، کچھ نہیں آنے والا۔ اب تو کوئی بے وقوف ہی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑے گا۔ مولانا کا پنجاب میں اسٹیک زیرو ہے۔ کے۔پی میں بہرحال، اس کے مفادات ہیں۔ مگر جو فضا بنی ہوئی ہے۔ وہ شاید کوئی اچھے نتائج نہ دے سکیں۔ اگر پیپلز پارٹی، اے۔ این۔ پی اور مسلم لیگ ن نے الگ الگ الیکشن لڑا، تو پھر یہ سب ہی مارے جائیں گے۔ آج تک کی تو، یہی پوزیشن ہے۔ کل کا پتا نہیں۔
پنجاب میں تحریک انصاف کے بعد، سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر ن لیگ ہے۔ مگر فی الحال انتخابات کے پول، عوامی زور اور بدترین حکومتی کارکردگی کے باعث، ’’عزت سادات‘‘ ہی بچ جائے تو بڑی بات ہے۔ نگران حکومت جس طرح سے بےنقاب ہوچکی ہے۔ الیکشن کمیشن بیک فٹ پر جاچکا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا خوف پارہ، پارہ ہوچکا ہے۔ میڈیا تقسیم اور اب من مانی کرے گا۔ پیمرا، کا ڈنگ بھی نکلا ہی سمجھیں۔ آگے سب خود بڑے سمجھدار ہیں۔
حکومت اس کے سہولت کاروں اور قلعے میں موجود ’’بروٹس‘‘ کی ساتھیوں سمیت نشاندہی ہوچکی ہے۔ ایسے میں، حکومت کے پاس، بہت ہی محدود کارڈ بچے ہیں۔ اب بھی اس کے پاس وقت ہے کہ وہ مرکزی، سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں سے نکل کر الیکشن میں آجائے۔
وہ عوام کے ووٹ کی،جتنی مزاحمت کرے گی۔ اس کی پوزیشن اتنی ہی کمزور ہوگی۔ وہ خود اس آئین کے تحت، اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے۔ جس کی طاقت کو وہ ماننے پر آمادہ نہیں ہے۔ آئین ہوگا، تو سب کچھ ہوگا۔ وگرنہ کچھ نہیں بچے گا۔ عمران خان کو ختم کرتے، کرتے، یہ اپنی اور اپنے خاندانوں کی سیاست ہی نہ ختم کربیٹھیں۔
نوابزادہ نصر اللہ خان کا قلم کار نے انٹرویو کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں تین آمروں (ایوب، ضیاء الحق، مشرف) کو ایک بات کہی۔ تینوں بات سننے کے بعد پہلو بدل کر بیٹھ گئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے کیا کہا تھا۔ ہنسے اور گویا ہوئے۔ ’’صاحب نئے چہرے سیاست نہیں فلمی دنیا میں متعارف ہوتے ہیں۔‘‘
قارئین، تینوں جرنیلوں نے نئے چہرے سیاست میں متعارف کروائے۔ بھٹو، کھر وغیرہ ایوب خان، نواز شریف اور خاص بزنس کلاس، ضیاء الحق، جبکہ پرویز مشرف نے تو بے شمار نئے چہرے متعارف کروائے۔
نوابزادہ اور اے۔ آر۔ ڈی نے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ کسی سینئر سیاستدان نے اپنا بیٹا، نواب صاحب کے پاس بھیجا۔ الیکشن کا بائیکاٹ کریں یا نہیں۔ نواب صاحب نے کہا کہ ’’ہم بائیکاٹ کا اعلان کرکے پھنس گئے ہیں۔ واپس نہیں مڑ سکتے۔ تم آزاد حیثیت میں الیکشن لڑو۔ بس ایک بات یاد رکھو۔ جس گھر میں انسان نہیں بستے، وہاں جن بھُوت بستے ہیں۔اور پھر وہ پھر آسانی سے گھر خالی نہیں کرتے۔
پھر وہی ہوا۔ 1985ء میں میاں نواز شریف سمیت جوکلاس آئی۔ اس نے پھر سیاسی گھروں کا قبضہ واپس نہیں کیا۔
یہ بات عمران خان کو گرانے کے چکر میں، سسٹم گرانے والے یاد رکھیں۔ اس ملک میں، سیاستدانوں کی جو لاٹ، آج ساٹھ سے اوپر ہے۔ وہ نواز، شہباز، مولانا، اچکزئی، اسفندیار ولی، زرداری سمیت فارغ ہوجائے گی۔ پھر آپ بھول جائیں۔ اسٹیلشمنٹ، آپ لوگوں کو دوبارہ سنبھلنے دے گی۔ پھر نئے، چوہدری نثار جنم لیں گے۔ حمزہ، مریم، بلاول، اسعد، مونس، شافع، کسی کا کوئی فیوچر نہیں ہوگا۔ تیزی سے بدلتی دنیا میں، مسترد خاندانوں اور نسلوں کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔ پھر نئی نسل، نئی سیاست کرے گی اور نئی سیاسی پھٹیاں لکھی جائیں گی۔
آپ کی بہتری اسی میں ہے کہ سسٹم برباد نہ ہونے دیں۔ ہوسکتا ہے۔ آپ کا خاندان اور نسل شاید، اس صورت میں 2035ء تک چل جائے۔ دوسرے منظر نامے میں
شعور، ڈیجیٹل میڈیا، نئی نسل، سب کچھ بدل دے گی۔ نئے چہرے اور نیا صدارتی نظام ہوگا۔ پھر صوبے نہیں ہونگے۔ ایک مرکز ہوگا۔ نالی، سڑک، پُل، بلدیاتی اداروں کے پاس ہوگا۔ سینٹ اور قومی اسمبلی میں صرف قانون اور پالیسی میکنگ ہوگی۔
نظام پر مسلط، بوڑھوں کی معدوم ہوتی نسل فیصلہ کرلے کہ ’’اُس نے مزید باری کرنی بھی ہے یا نہیں۔ وکٹ اکھاڑنے اور وکٹیں لیکر بھاگنے کی قیمت بہت، ہی بھیانک ہوگی۔ 2033 میں آنیوالی اسمبلیوں میں کوئی ارسطو، کوئی ہیگا، کوئی لوہے کا چنا، نہیں ہوگا۔موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں۔
اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ حکومتی اتحاد کو ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے سیاست اور حکومت میں کردارکو محدود کرنے کی پیش کش، پر مذاکرات کی آفر لے لینی چاہئے۔
پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کے پاس، اس سے بہتر موقع نہیں آئے گا۔ آج اسٹیبلشمنٹ، سیاست دانوں کیخوشی قسمتی سے 1971ء والی پوزیشن پر ہے۔ وہ مقبولیت کی کم ترین سطح پر ہے۔ سیاسی ڈیل کرلی جائے۔ حکومت اور اسپیکر کو چاہئے کہ پی۔ٹی۔ آئی کو پارلیمنٹ میں واپس آنے دیں۔ متفقہ طور پر آئین میں ترامیم کرلیں۔ جہاں، جہاں تشریح کی ضرورت ہے۔ وہاں، وہاں پر آئین کو مزید واضح کرلیں۔ جن قوانین کو بدلنا ہے۔ بدل لیں۔ ’’نیب‘‘ کا کٹا باندھ ہی لیں۔ چاہیں تو ایک بار سلیٹ صاف کرلیں۔ سول اور ملٹری تعلقات کے نئے باب لکھ لیں۔ انتقام سے باز آجائیں۔ جہاں مقدمات کے مسائل ہے۔ مقدمات سیاسی ہیں۔ اعتزاز احسن، جیسے افراد پر ایک بااختیار کمیشن بنا دیں۔ باقی، غیر ضروری سیاسی مقدمات، بغاوت، غداری، دہشتگردی، سب ختم کریں۔آئندہ کے لئے بند باندھ لیں۔
ملٹری کو اس کے ’’کُور‘‘ کام تک محدود کریں۔ سول اداروں کو مضبوط کریں۔ نجکاری کا شفاف میکنزم بنائیں۔ قومی اثاثوں کو اپنےگھروں میں بانٹ لینے کی سوچ ختم کریں۔ اوورسیز پاکستانیوں کے حوالے سے مربوط پالیسی بنائیں۔ سودی نظام کے خاتمے پر، آپ کو بیٹھنا اور ختم کرنا ہوگا۔ یہ رب، رسولؓ سے جنگ ہے۔ اس ملک میں بے سکونی بے چینی اور بے عملی کی سب سے بڑی وجہ یہ سود کی لعنت ہے۔
کاروبار کو آسان کریں۔ پولیس اور انتظامیہ میں جزا و سزا کا نظام متعارف کروائیں۔ جائیدادوں اور کاروبار، فیملی جھگڑے کا کیس پندرہ دن سے زیادہ نہ چلے۔ نیا سسٹم متعارف کروائیں۔ بنیادی انسانی حقوق کی کورٹس، الگ سے قائم کی جائیں۔ غیر ضروری مقدمات کی حوصلہ شکنی کا نظام لائیں۔ یہاں بھی جزا و سزا کا نظام امریکی طرز پر ہو۔ پولیس کا روایتی نظام اور قوانین ختم کریں۔ ضمانتیں آسان، اسٹے آرڈر 99 فیصد ختم کریں۔ جدید اسٹیلشمنٹ ڈویژن بنائیں۔ جہاں ’’بابو‘‘ نہ ہوں۔ وہ کیریئر پلاننگ ٹاسک، نتائج، کارکردگی پر خود کار سسٹم کے تحت آفیسرز لگائیں۔ یہ عامر احمد علی اور داماد سسٹم ختم ہونا چاہئے۔
بہرحال۔۔۔۔ایک اور موقع آیا ہے۔ جب یہ ریاست، ملک، ادارے، عوام، نئے دور کا آغاز کرسکتے ہیں۔یہ تو جالب کا خواب ہے۔ فیض صاحب کی بات ہی ٹھیک ثابت ہو گی۔ یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا۔ مگر خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے۔(ناصر جمال)۔۔