تحریر: امجدعثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب۔۔
یہ پرچموں میں عظیم پرچم!!مکرر عرض ہے کہ پاکستان اور عساکر پاکستان کا “شملہ” ہمیشہ اونچا رہے گا۔۔۔اس” پیش منظر “کا ایک ایمان افروز “پس منظر” ہے۔۔۔اب کی بار پیرس اولمپکس میں ایک دیہاتی نوجوان ارشد ندیم نے چالیس سال بعد گولڈ میڈل جیت کر سات سمندر پار سبز ہلالی پرچم اس شان سے لہرایا کہ دنیا بھی پکار اٹھی کہ یہ پرچموں میں عظیم پرچم ہے۔۔دو ہزار بائیس کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں حیران کن فتح پر قومی بلے باز فخر زمان نے کیا ہی دل چھو لینے والا جملہ “ٹویٹ” کیا تھا کہ دیکھا پھر قدرت کا نظام۔۔۔!!قدرت کا نظام واقعی سب سے طاقتور ہے اور اسی نظام کے تحت کائنات کے سب نظام ہائے کار چل رہے ہیں۔۔۔جناب مظفر وارثی کی حمد “اسی نظام” کی کیا خوب صورت” تشریح” ہے:کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے،وہی خدا ہےدکھائی بھی جو نہ دے،نظر جو بھی آرہا ہے وہی خدا ہےکسی کو تاج وقار بخشے،کسی کو ذلت کے غار بخشےجو سب کے ماتھے پہ مہر قدرت لگارہا ہے،وہی خدا ہےپاکستان پر قدرت ہمیشہ مہربان رہی ہے۔۔۔ٹھوکر لگتی ہے تو اگلے ہی لمحے سہارا مل جاتا ہے۔۔۔پون صدی ہو گئی پاکستان کے ساتھ کتنے ہی “کھلواڑ” ہوئے لیکن پھر بھی پاکستان پورے قد سے کھڑا ہے اور کھڑا رہے گا۔۔۔یہ سب اللہ کریم کا کرم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر کرم کا کمال ہے۔۔۔احمد ندیم قاسمی کے گلہائے عقیدت کانوں میں رس گھولتے ہیں:پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ ہے تیرا کرممجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرالوگ کہتے ہیں سایہ تیرے پیکر کا نہ تھامیں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیراچشم فلک گواہ ہے کہ وطن عزیز کو جب کبھی زمانے کی دھوپ نے آن گھیرا تو روضہ پاک پر سجے سبز گنبد کی چھائوں نے اسے آغوش میں لے لیا۔۔۔کوئی کتنی بھی سازشیں کرلے پاکستان کو کچھ ہوا، نہ ہوگا۔۔تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے کتنے ہی بدخواہ عبرت کی مثال بن گئے۔۔آئندہ بھی جو پاکستان کی کمر میں چھرا گھونپے گااس کا نام و نشان مٹ جائے گا۔۔پاکستان لغوی اور حقیقی معنوں میں ارض مقدس ہے۔۔مدینہ طیبہ سے نسبت والے اس خوش قسمت قطعہ ارضی پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص نگاہ ہے۔۔۔یہ وہی پاک سرزمین ہے جہاں سے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو آئی۔۔رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیوں پہلے اس خطے بارے بشارت دی۔۔۔اللہ کے مقرب بندوں کا ہمیشہ یہ مسکن رہا۔۔ اس دھرتی کو ہزاروں اولیائے کرام کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہے۔۔قائداعظم محمد علی جناح ،علامہ محمد اقبال، چودھری رحمت علی،علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا اشرف علیٰ تھانوی اور پیر جماعت علی شاہ سمیت اس ’’ سکول آف تھاٹ‘‘ کے سب لوگ اللہ کے منتخب نمائندے تھے۔۔پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ کا سلوگن بھی عام نعرہ نہیں بلکہ ریاست مدینہ کے بعد یہ دوسرا ملک ہے جو اس مقدس کلمہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا۔۔یہ “معجزاتی ریاست” ہے جس کا خواب اقبال نے دیکھا۔۔ قائد اعظم نے اسے تعبیر بخشی اور چودھری رحمت علی نے اس کی پیشانی پر پاکستان کا نام سجا دیا۔۔ہزاروں عالی شان ہستیوں نے اپنے متعین کردہ فرائض انجام دیکر اس اسلامی ریاست کی تشکیل میں حصہ ڈالا۔۔لاکھوں مسلمانوں نے اپنے خون سے اس گلستان کو سینچا۔۔جناب قدرت اللہ شہاب سے فیض یاب ممتاز دانشور ممتاز مفتی نے اپنے منفرد سفر نامہ حج ’’ لبیک‘‘ میں کچھ چشم کشا واقعات لکھے ہیں جن کی روشنی میں یہ بات پورے بھروسے سے کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ خاص میں ہے اور مدینہ سے اس کا گہرا تعلق ہے۔۔ لبرل دوست جمع خاطر رکھیں کہ یہ “سفرنامہ حج” مولوی نامہ ہرگز نہیں۔۔ایک روشن خیال دانشور نے موتی بکھیرے ہیں۔۔مفتی صاحب لکھتے ہیں:جان محمد بٹ میرے اولین رہبر ہیں۔۔۔ وہ بات پر بات پر فرمایا کرتے، مفتی جی آپ پاکستان کا غم نہ کھائیں، جنہوں نے یہ ملک بنایا ہے وہ اس کی رکھوالی کر لیں گے۔۔ ایک روز میں نے پوچھا پاکستان کے محفوظ ہونے سے متعلق آپ اتنے وثوق سے کیسے بات کر سکتے ہیں؟ وہ بولے : ہمارے سرکار ان لوگوں میں سے تھے جو قیام پاکستان کیلئے کام کرنے پر مامور تھے۔۔ ہمیں علم ہے کہ پاکستان کے سر پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ ہے۔۔روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلید بردار کی پاکستان بارے گواہی کا یوں تذکرہ کرتے ہیں: میں ایوان صدر میں تعینا ت تھا کہ ایک شخص مدینہ منورہ سے صدر کے نام پیغام لایا۔۔۔یہ پیغام مسجد نبوی شریف کے چابی بردار کی طرف سے تھا۔۔۔آپ پنجاب کے رہنے والے تھے۔۔۔فوج میں بھرتی ہوئے۔۔ جنگ عظیم میں مشرق وسطیٰ پہنچے۔۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا جذبہ جنون بن گیا۔۔ایک روز چپکے سے مدینہ عازم ہوئے۔۔وہاں پہنچ کر کیفیت طاری ہوئی کہ وہیں کے ہو رہے۔۔۔خادم بنے، پھر یہ اعزاز حاصل ہوا کہ مسجد نبوی کے چابی بردار بن گئے۔۔ ان کا پیغام تھا: 1947 میں ہم نے خواب دیکھا کہ مسجد نبوی شریف سے ایک پودا پھوٹا اور دیکھتے ہی دیکھتے بیل کی طرح دور بہت دور تک چلا گیا۔۔ اس کے پر لے سرے پر سبز پتیاں نکل آئیں۔۔کئی سال بعد پھر وہی خواب آیا کہ اس پودے پر جو سبز پتیاں تھیں وہ خشک ہوگئی ہیں لیکن مسجد نبوی شریف میں اس کی جڑ جوں کی توں ہری ہے۔۔برسوں بعد اب پھر وہی خواب دیکھا ہے کہ پرلے سرے کی خشک پتیاں پھر سے ہری ہو رہی ہیں۔۔مبارک ہو۔!!!مفتی صاحب 1965 کی پاک بھارت جنگ بارے لکھتے ہیں: لاہور کے مشہور و معروف حکیم اور دانشور نیئر واسطی صاحب 65 کی جنگ کے دوران مدینہ منورہ میں مقیم تھے۔۔ وطن واپسی پر انہوں نے ریڈیو پاکستان سے جنگ بارے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا ’’ لاہور کی وہ خاتون جو 18 سال سے مدینہ منورہ میں رہائش پذیر ہیں اور روضہ پاک کی جالی کے پاس بیٹھی رہتی ہیں۔۔اس نے بتایا کہ 6 ستمبر کو میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر پریشان دیکھا کی پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔۔ ایک بزرگ جو روزانہ روضہ اطہر پر مجھ سے ملتے تھے۔۔ 6 ستمبر کو کہیں دکھائی نہ دیئے۔۔ایک مرید نے بتایا کہ آپ جہاد کیلئے پاکستان گئے ہیں۔۔ ایک اور بزرگ نے فرمایا کہ غزوہ بدر کے تمام شہداء پاکستان پہنچ چکے ہیں تاکہ جہاد میں شامل ہوسکیں۔ ممتاز مفتی لکھتے ہیں: پھر جنگ بارے بھارتی قیدیوں کے بیانات اخبارات کی زینت بنے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ بھارتی سپاہی پاکستان کی اس فوج سے خائف تھے جو تلواروں سے لڑتی تھی اور ان کی شمشیروں سے بجلی کے شعلے نکلتے تھے۔۔پاکستان خوش نصیب ملک ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کیلئے فکرمند ہوتے اور پاک فوج خوش قسمت ہے کہ شہدائے بدر اس کے مددگار ہیں۔۔کلمہ طیبہ کے “سنہری حروف “سے مزین پاکستان کا “چہرہ” بڑا دلکش ہے۔۔اکناف عالم میں یوں ہی پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے ہمیشہ گونجتے رہیں گے۔۔!!!!نور خدا ہے کفر کی حرکت پر خندہ زن،پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔۔(امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب)۔۔