nakafi hein lafazian

“یہ مال و زر کے بندے”

تحریر: شکیل احمد بازغ۔۔

مادیت پرستی شیطان کا کشید کردہ ایک ایسا مذہب ہے جس میں پرستش معیشت کی ہوتی ہے۔ کلمہ معیشت کا پڑھا جاتا ہے۔ قانون قواعد کلیئے معیشت کے پیش نظر بنتے ہیں، مالا معیشت کی جپی جاتی ہے اور سیاست بھی سود کی آبیاری کی ہوتی ہے۔ لین دین سود کا ہوتا ہے۔ اور راحت کا ساماں لوٹ مار کا مال ہوتا ہے۔ کبھی سنتے تھے کہ تاجر کا مذہب سے کچھ لینا دینا نہیں۔ حالانکہ میں تو محلے کے دکانداروں کو مسجد جاتا دیکھتا تھا۔ بہت دیر بعد معلوم پڑاکہ یہ ان تاجروں کی بات ہو رہی ہے جو سیاست کی باگ ڈور سنبھالے ہیں۔ حالانکہ سیاستدانوں کا کاروبار سے نہیں عوام کی خدمت سے تعلق ہونا چاہیئے۔ سیاست وہ کرے جو کاروباری اور ذاتی مفادات کا اسیر نہ ہو۔ یہاں تو تلنگے سیاست میں آ کر بالآخر “رہنما” بن جاتے ہیں۔ یقینا” ہر خیال کا ہم خیال ہوتا ہے۔ عوام میں ایسے لوگ موجود ہیں جو انہی جیسے ہیں۔ جو انہیں رہنما مانتے ہیں۔ اخلاقیات، دین انسانیت کے ضابطے کچھ بھی ہوں۔ یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ سیاستدان وہ ہیں جن کے ملکی و غیر ملکی سطح پر بڑے کاروبار ہیں۔ دنیا کے امیر ممالک میں اپنے کاروبار پھیلانے کی غرض سے یہ اغیار سے جا ہاتھ ملاتے ہیں۔ وہ انہیں اپنے ممالک میں جان مال عزت اور لوٹ مار کے پیسے کا تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ نیز ریٹائرمنٹ یا پھر پاکستان میں پکڑے جانے پر جلا وطنی کی صورت میں انکے محلوں میں پناہ بھی دیتے ہیں بدلے میں یہ ملک کے عوام پر جان نچھاور کرتے سیاستدان ملک کی چولیں ہلانے کیلئے قانون سازی اور اس کے نفاذ میں سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں۔ ان کے جلسے معیشت و ترقی کے ترانوں سے گونجتا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے ایک طرح سے یہ نمائندہ بن کر ملک کو بھاری بھرکم سود پر قرض لے لے کر اپنے اللے تللے پورے کرتے اپنے کاروبار اور اغیار سے ذاتی مراسم مضبوط کرتے ملک عزیز کے نظریئے، قوانین، کلچر، تہذیب، جغرافیہ اور تاریخ کو مٹانے اور جدید مادی خطوط پر استوار کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی معاونت میں ملک کے بڑے اداروں میں گھس بیٹھیئے ہمہ وقت مستعد نظر آتے ہیں۔ نشر و اشاعت ان کے زیر دام، انصاف فراہم کرنے والے ان کے جنبش ابرو کے منتظر، محافظ انہی کے تحفظ پر مامور، ایوان ان کے لئے تالیاں پیٹنے والے طبلچیوں سے لبریز، احتساب کے ذمہ داران انہی کے پروردہ و معاون، الغرض محض ذاتی مال و زر کی حرص و ہوس میں مقتدر کئے گئے یہ مال و زر کے بندے زرخرید غلام ابن غلام بن کر ملک و قوم کی حمیت ناموس شناخت کو کوڑا کرکٹ کر گزرتے ہیں۔ دین اسلام کا دم بھرتے یہ لوگ دین مٹانے والے کاموں پر کاربند ملتے ہیں۔ جس دل میں مال و زر کا حرص ہو، اس دل میں ایمان باقی رہ نہیں سکتا۔ جو سود کو جائز مانے وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کو یکسر نعوذ باللہ مسترد یا نظر انداز کرتے ہوئے حجتیں تراش کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ ان کے لئے غزہ کشمیر برما کے کٹتے بچوں عورتوں بوڑھون کی کوئی حیثیت نہیں، ان کے لئے یہود و نصارٰی کی پروڈکٹس کا بائیکاٹ گھاٹے کا سودا ہے۔ ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے ” عہدے کا حریص خائن ہے”، نہایت سادہ الفاظ میں یہ بتا دیا کہ جسے عہدے کا حرس ہو وہ خیانت دار شخص ہے۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اقتدار کی کرسی کے حصول کے لئے یہ سیاستدان ہر حد عبور کر جاتے ہیں۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا، ایک دوسرے پر ظلم کرنا، ہر وہ شیطانی کام کرنا جو ایک مسلمان کو زیبا نہیں جھوٹ جس کے بارے فرمایا گیا کہ مومن جھوٹا نہیں ہو سکتا، یہ وہ لوگ ہیں جن کا کاروبارِ سیاست جھوٹ کے ستونوں پر کھڑا ہے۔ مکرو فریب میں لتھڑے یہ مادیت پرست ملک کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کو یہ زعم ہے کہ یہ ناگزیر ہیں۔ تاثر یہی دیتے ہیں کہ اگر یہ نہ ہوں گے تو ملک تباہ و برباد اور اغیار کا ترنوالہ بن جائے گا۔ حالانکہ دل یہ کہتا ہے۔ کہ یہ وہ جونکیں ہیں جو ملک کے وسائل اور ملک کا سب کچھ چوس چکے۔ یہاں تک کہ عوام کا خون اور پھر پسینہ بھی چوس چکے انکی روحیں یہود و نصارٰی  کی شیطانی محفلوں میں قرار پاتی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے حرص میں کمی نہیں آ رہی،  تقسیم برصغیر سے اس کافرانہ و منافقانہ روش کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کی ملکی نظریات کے مخالفین سے خوب چھنتی ہے۔ یہاں فرعون و نمرود جیسی عمریں دے کر اب کوئی نہیں بھیجا جائے گا۔ اور نہ قارون جیسے خزانے انہیں مل پائیں گے۔ عہد جبر کے بد ترین نظام کے یہ ہرکارے عنقریب عتابِ قدرت اور انقلابِ عوام کی حدت میں جلنے والے ہیں۔ ایک لاوہ ہے جو پک چکا ہے۔ اور اب مظلوم کا پیمانہءِ صبر لبریز ہو رہا ہے۔ انقلاب مظلوم مفلس و لاچار اللہ کے نرے بندے لاتے ہیں، جنکی تعداد ان مال و زر کے بندوں نے کثیر کر دی ہے۔ عرصہ دراز سے اس نظام کی کراہت عیاں ہونے کے بعد اب محسوس یہی ہوتا ہے۔ اوپر سے نیچے تک یہ چند بےحمیتوں کا ہجوم خس و خاشاک کی طرح بہہ جانے کو ہے۔ وقت وہ عنقریب ہے جب انصاف کی حکمرانی ہوگی، قرآن آئین ہوگا۔ ہر جان کو امان ہوگی۔ دوست دوست ہوگا اور دشمن دشمن۔ اور یہ سود کا نظام اللہ سے جنگ جدل کی پاداش میں پارہ پارہ ہونے کو ہو۔ آپ ان میں سے اکثر کو بریف کیس اٹھا کر اپنے اپنے دیس کے بِلوں میں جاتا  دیکھیں گے۔ کیونکہ بقول شاعرظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔واللہ اعلم۔(شکیل احمد بازغ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں