تحریر: ناصر بیگ چغتائی۔۔
ایوب خان ایک ایسا آمر تھا، جس بے سیاست، صحافت سب پر پابندی لگا رکھی تھی۔۔سیاست دانوں کو نااہل کیا تھا اور ملک پر بدترین آمریت قائم کرکے پاکستان کو امریکا کی جھولی میں ڈال دیا تھا ۔ کچھ لوگ ضمیر کی خلش یا سیاسی مقاصد کے لئے اس سے الگ ہوئے۔ صحافیوں کی تنظیم پی ایف یو جے نے آزادی اظہار اور آزادی صحافت کے لیے زبردست تحریک چلائی۔ اس وقت مشرقی پاکستان بھی پاکستان میں شامل تھا، ملک کے دونوں صوبوں میں ( ایوب خان نے پنجاب سندھ سرحد بلوچستان ختم کردیئے تھے ) ملک گیر ہڑتال کی۔۔یہ پہلا اور آخری موقع تھا کہ ملک میں اخبارات کئی روز تک شائع ہی نہیں ہوئے ۔ پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس کے خلاف تحریک بہت زور دار تھی ۔
آج گوجرانوالہ میں پی ایف یو جے نے اسی فیلڈ مارشل کے پوتے اور گوہر ایوب کے بیٹے عمر ایوب کو مدعو کیا جو آج بھی کہتا ہے کہ اس کا دادا آمر نہیں تھا اس نے آئین نہیں توڑا اس نے مارشل لاء کے ذریعے حکومت نہیں چلائی۔ کہتے ہیں کہ عمر ایوب کو روکنے کی کوشش میں ہوٹل پر پولیس لگادی گئی، جس پر صحافیوں کو غصہ آگیا۔
۔۔۔۔۔میرا خیال ہے ” سب کو بلائیں گے ” بہترین مشن ہے ۔ ایوب خان کی قید میں قتل ہونے والے حسن ناصر کے ورثا سے شروع کریں اور پھر ہر اس شخص کے ورثا کو بلائیں جو متاثر ہوا ۔۔۔۔پاکستان کو بھی بلائیں، جو ایک منصوبے کے تحت توڑا گیا ۔ فوجی شکست تو منطقی تھی کام تو جسٹس منیر سے شروع ہوا تھا ۔
صحافیوں نے بہت بڑے بڑے مظاہرے کئے لیکن جان بوجھ کر سڑکیں بند نہیں کیں۔۔ اب سنا ہے گوجرانوالہ میں جی ٹی روڈ بند کردی ہے صحافیوں نے ۔
اب جب پی ایف یو جے نے ایک آمر کے خاندان کو بلا ہی لیا ہے تو پھر ضیا اور مشرف اور یحییٰ خان کے اہل خانہ کا کیا قصور ؟ اعجاز الحق تو عمر ایوب سے بڑا ” دانشور ” ہے ۔ ملک غلام محمد کا بھی کوئی گھر والا مل ہی جائے گا۔ پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس کا مصنف بھی تلاش کرلیں۔
پولیس نے آج جو گوجرانوالہ میں کیا، کل وہی ایوب، ضیا اور مشرف کے دور میں کراچی، لاھور، پشاور پریس کلب پر ہی نہیں کیا بلکہ گھر گھر کرتی تھی تو پولیس کا کردار بھی وہی ہے جو تھا ۔۔۔ بس پی ایف یو جے کا کردار بدل گیا ہے، یہ 2018 سے اب تک صحافیوں کی برطرفی پر اس طرح غصے میں نہیں آئے۔(ناصر بیگ چغتائی)۔۔