تحریر: رضوان عبدالرحمان عبداللہ
کورونا وائرس جو پوری دنیا میں پھیل رہا ہے اس کے نقصان کو کم سے کم رکھنے کے لیے ابلاغیات کے مختلف ذرائع قوم کو احتیاطی تدابیر کے بارے میں بتا اور سمجھا رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کئی معصوم لوگ یہ سوال پوچھتے پائے جارہے ہیں کہ یہ کرونا کاٹتا کیسے ہے؟
ایسے لوگوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ جی یہ کرونا اس وقت کاٹتا ہے جب ملک کے سیاہ و سفید کا مالک ایک طرف فرمائے کہ وائرس کے خاتمے کیلئے چین سے سیکھنا ہوگا جب کہ دوسری طرف تدراک کے لئے لاک ڈاؤن جییسے واحد عملی قدم اٹھانے سے معزوری ظاہر کرئے۔ یہ لیڈر قوم کو مطلع کرئے کہ گرمی سے کرونا وائرس کے پھیلاﺅ کا اثر ختم ہو جائے گے جبکہ اس کے اپنے نیچے کام کرنے والا ادارہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا ترجمان دو روز پہلے یہ بیان دے چکا ہو کہ گرمی کی شدت سے وائرس ختم ہونے کی بات بے بنیاد ہے۔ اسی لیڈر کا دست راست جو سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلی بھی ہے وثوق سے دعوی کرئے کہ اس نے 3 جنوری سے وبائی مرض کے خلا ف عملی اقدامات اٹھانے شروع کردیئے تھے جبکہ عالمی ادارے صحت نے اس مرض کو 7 جنوری میں نام دیا ہو تو اس قسم کی کاٹ کو “لایعینیت کا کرونا” کہلاتا ہے۔
جی یہ کرونا اس وقت کاٹتا ہے جب اپنے آپ کو عوامی لیڈر کہنے والا وزیراعظم قوم سے مخاطب کرتے ہوئے فرمائیں کہ ہمارے پاس ماسک کی کمی نہیں جبکہ حقیقت میں ماسک کی قلت کا مسئلہ نا صرف عوام کو درپیش ہے بلکہ بہت ساری جگہوں پر طبی عملہ بھی اس کی عدم دستیابی کی شکایت کر رہے ہیں۔ اس قسم کے کرونا کو ’’عوامی مسائل سے لاعلمی کا کرونا‘‘ کہا جاتا ہے۔
جی یہ کرونا تب کاٹتا ہے جب ایک صوبائی وزیر صحت جو بزات خود طب کے پیشے سے تعلق رکھتی ہوں فرمائیں کہ دنیا پھر میں پھیلی جانے والی اس وبائی مرض کا علاج پیناڈول سے کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک انگلینڈ پلٹ گورنر گرم پانی اور ایک مذہبی پیشوا اس موزی مرض کا علاج کبوتر کی جھلی بتائے تو کرونا کی یہ قسم ’’جہالت کا کرونا‘‘ کہلاتی ہے۔
جی یہ کرونا تب کاٹتا ہے جب ایک طاقتور فوج اور ایٹمی ملک ہونے کی شیخی بھگارنے والا ملک کورونا وائرس کیسز کی تعداد میں نمایاں اضافے ہوتے ہوئے اعداد و شمار کے مقابلے میں اپنے ہاں وینٹی لیٹرز کی کمی کا رونا روئے، اس قسم کا کرونا ’’ملک کی غلط ترجہات‘‘ کا کرونا کہلاتا ہے۔
جی یہ کورونا تب کاٹتا ہے جب ایک طرف حکومت اجتماعات اور میل جول سے گریز کرنے کی نصحیتیں کرئیں تو دوسری طرف اس کے اپنے وزیر اور گورنر ایک پرہجوم حلف برداری کی تقریب میں دندنا رہے ہوں۔ اسی قسم کی مشوروں سے جب ایک طرف ملک کا میڈیا قوم کو نوازنے کی کوشش کر رہا ہو اور دوسری طرف ایک نامور اخبار میں لکھنے والے صاحب ایک ایسی نہاری دعوت کی کتھا مرچ مصالحے لگا کر بیان کر ریں جس میں نہاری کے لیس دار شوربے سے صحافت کے بڑے بڑے پہلوان اپنا دامن بچانے میں مصروف ہوں (کالم میں یہ بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ موضوع کورونا وائرس تھا)ْ۔ جب مزہبی اجتماعات کو تو چھوڑیں، تفریحی مقامات بھی لوگوں سے کچھا کچھ بھریں ہوں تو اس قسم کے کرونا کو ’’حماقت کا کرونا‘‘ کہا جاتا ہے۔
جی یہ کورونا تب کاٹتا ہے جب کیا تاجر ہوں کیا خریدار دوںوں اس ناگہانی آفت کی گھڑی میں ضروریات زندگی کی چیزیں کی زخیرہ اندوزی کرنے پر تلے ہوں۔ اس قسم کے کورونا کو ’’لالچ و حــــــــرص کے کورونا‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
جی یہ کورونا تب کاٹتا ہے جب وبائی مرض میں مبتلا مریض کو اپنے مرض کا ادراک ہوجانے کے باوجود نا صرف وہ علاج نا کرانے پر مصر ہو بلکہ اس کو دوسروں تک بھی پھیلانے کی سرتوڑ کوشش کرئے۔ اس قسم کا کرونا ’’بے حسی کا کرونا‘‘ کہلایا جاتا ہے۔
اب آپ اگر کورونا نامی مرض کے رموز اوقاف سے واقف ہو گئے ہیں تو امید ہے یہ بھی آپ کو سمجھ آ گئی ہو گی کہ آپ کو کیا حفاظتی تدابیر اختیار کرنے ہیں۔(رضوان عبدالرحمان عبداللہ)۔۔