تحریر: اکرم خان۔۔
“اکرم صاحب آپ میری تصویر کہیں نہیں دیکھیں گے، مجھے تصویروں کا بالکل بھی شوق نہیں، تصویر اگر بن بھی رہی ہو تو میں ہٹ جاتا ہوں”
اظہر حسین جعفری یہ کہتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے لگے، مجھے شرارت سوجھی، ان کے ساتھ خاصی بےتکلفی ہو گئی تھی، موبائل ہاتھ میں تھا، چپکے سے تصویر بنا لی اور کہا
کیا جعفری صاحب، میں ٹھہرا شریف آدمی، آپ مجھ سے بھی غلط بیانی کرتے ہیں، کہہ رہے ہیں کہ میری تصویر کہیں نہیں ملے گی، پھر یہ کیا ہے، میں نے موبائل سامنے کر دیا،
بہت زور سے ہنسے، سمجھ گئے، میں نے کہا اچھا اب سنبھل کر کیمرے کو دیکھئے، یہ ہی وہ تصویر ہے جو میں نے شیئر کی ہے، بات ان کی سچ تھی انہیں تصویروں کا کوئی شوق نہیں تھا ورنہ شوبز سے وابستہ افراد تو تصویروں کا البم رکھتے ہیں
تصویر ہی کیا وہ دور حاضر میں رہتے ہی کب تھے جو آج کے تقاضوں کو سمجھتے یا اس کے ساتھ چلتے، سادہ، تنہا زندگی، ریٹائرڈ، بچتوں اور پنشن پر گزارہ، ذات سے ذات تک کے آدمی، ایک سادہ موبائل جو صرف کال کر سکتا اور وصول کر سکتا، اس کے فنکشن سے بھی واقفیت نہیں رکھتے تھے، کسی کا نمبر محفوظ کرنا ہو تو کسی سے ملتمس ہوتے، دن بھر گھر ہوتے، روزانہ رات دس بجے کراچی پریس کلب آتے، کھانا چائے اور منتخب سنگت، میری ان سے کوئی طویل رفاقت یا واقفیت نہیں تھی، کوئی دو برس ہوا ہو گا میں روزانہ رات کا کھانا کلب میں کھاتا ہوں، گیارہ بجے سے ایک بجے تک تنہا یا کچھ دوستوں سے بیٹھک رہتی ہے، اس دوران نئے تعلقات بھی بن گئے، جعفری صاحب ان میں سے ایک تھے، مجھے یاد ہے ایک برس ہوا ہو گا میں کھانے کے بعد تنہا بیٹھا چائے پیتے ہوئے موبائل پر کچھ کام کر رہا تھا، ایک دم آواز آئی
اکرم صاحب آپ کے ساتھ بیٹھ سکتا ہوں
دیکھا تو سامنے جعفری صاحب کھڑے تھے، تعارف تو تھا لیکن سنگت نہیں تھی، جوابا میں نے انہیں کرسی پیش کی اور کہا جعفری صاحب اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے، ضرور تشریف رکھئے، چائے پوچھی
گویا ہوئے، نہیں دراصل آپ مصروف تھے اور اکثر اکیلے بیٹھتے ہیں، اسی وجہ سے پوچھا اور یہ ہی وجہ آنے کی بنی، میں بھی سب کے ساتھ نہیں بیٹھتا
یہ دن تھا اور پھر ان کے دنیا سے جانے تک ہماری روزانہ کی بیٹھک بن گئی، کبھی کلب نہ جا سکا یا کلب پہنچنے میں تاخیر ہوگئی تو انتظار کرتے، شکایت بھی کرتے، یادداشت میں کمال مہارت رکھتے، اپنے قصے اور بپتا جزئیات سے سناتے، معلوم ہوا کے ایم سی آکٹرائے سے ریٹائرڈ ہیں اور پی ٹی وی کے لئے کئی ڈرامے پروڈیوس کئے ہیں، میں چوں کہ ڈرامے دیکھتا نہیں اس لئے واقف نہیں تھا لیکن ان کی باتوں سے اندازہ ہوا پروڈکشن میں اہم نام تھا اور اس سے وابستہ بڑے لوگوں سے اچھی واقفیت ہے، آکٹرائے ڈیپارٹمنٹ نے بھی بہت تعلقات پیدا کئے لیکن اب دونوں پروفیشن سے تیاگ لے چکے تھے، بس قصوں تک محدود ہو کر رہ گئے تھے، ان کے قصوں سے یہ ہی نہیں کہ میں نے انہیں جانا بلکہ اطراف میں چلتے پھرتے کئی اور کرداروں کو بھی جانا سمجھا اور پہچانا، سادگی میں استعمال بھی خوب ہوئے، کافی کچھ گنوایا
ان سے گفتگو کم ہوتی قصے سننے کو بہت ملتے، ان کی ماضی کی کہانیاں سن کر مجھے “آب گم” خاص کر اس کا پہلا قصہ “حویلی” یاد آ جاتا، جو بشارت علی فاروقی کے خسر پر ہے اور ان کا جملہ کہ “یہ چھوڑ کر آئے ہیں”، جعفری صاحب “آب گم” کے اس کردار کی چلتی پھرتی عملی تفسیر دکھائی دیتے تھے، ناسٹل جیا کی جیتی جاگتی تشریح روزانہ زندہ میرے سامنے ہوتی اور مجھے بےحد لطف آتا، ناسٹل جیا کو مشتاق احمد یوسفی کی زبانی ہی جانئے
“اس مجموعے کے بیشتر کردار ماضی پرست، ماضی زدہ اور مردم گزیدہ ہیں۔ ان کا اصل مرض ناسٹل جیا ہے۔ جب انسان کو ماضی، حال سے زیادہ پرکشش نظر آنے لگے اور مستقبل نظر آنا ہی بند ہو جائے تو باور کرنا چاہیے کہ وہ بوڑھا ہو گیا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ بڑھاپے کا جوانی لیوا حملہ کسی بھی عمر میں – بالخصوص بھری جوانی میں – ہو سکتا ہے۔۔۔ غور سے دیکھا جائے تو ایشیائی ڈرامے کا اصل ولن ماضی ہے۔۔۔ پاستان طرازی کے پس منظر میں مجروح انا کا طاؤسی رقص دیدنی ہوتا ہے کہ مور فقط اپنا ناچ ہی نہیں، اپنا جنگل بھی خود ہی پیدا کرتا ہے۔ ناچتے ناچتے ایک طلسماتی لمحہ ایسا آتا ہے کہ سارا جنگل ناچنے لگتا ہے اور مور خاموش کھڑا دیکھتا رہ جاتا ہے۔ ناسٹل جیا اسی لمحۂ منجمدد کی داستان ہے۔۔
اب یہ بےحد کڑا دکھ ہے کہ ناسٹل جیا کا یہ زندہ کردار محض یادوں میں امر ہو کر رہ گیا، اچانک جانے کا درد تو جیسے سمجھ میں ہی نہیں آ رہا کہ ہوا کیا، ایک آدمی جو روز ساتھ بیٹھا ہوتا، کہاں چلا گیا اور گیا کیسے؟ روزانہ کی یہ سنگت اب روز ان کی غیر حاضری پر ایک نئے صدمے سے گزارتی ہے، اب شاید ان کا ناسٹل جیا مجھ میں منتقل ہو گیا۔۔یہ چھوڑ کر آئے ہیں۔۔(اکرم خان)۔۔